اَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ کِتٰبًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ فَہُمۡ بِہٖ مُسۡتَمۡسِکُوۡنَ ﴿۲۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
یا کیاہم نے انھیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے؟ پس وہ اسے مضبوطی سے تھامنے والے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے سند پکڑتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی (اور) کتاب دی ہے جسے یہ مضبوط تھامے ہوئے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 21){ اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ …: ” اَمْ “} سے پہلے ہمزہ استفہام پر مشتمل کوئی جملہ ہوتا ہے جو بعض اوقات مذکور اور بعض اوقات محذوف ہوتا ہے۔ یہاں ذکر یہ ہو رہا ہے کہ مشرکین نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر انھیں اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کا ردّ فرمایا۔ ظاہر ہے فرشتوں کے مؤنث ہونے کا علم یا تو مشاہدے سے ہو سکتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے بتانے سے، جو اس کی نازل کردہ کسی کتاب میں موجود ہو۔ {” اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ “} (کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے) میں پہلی صورت کا ردّ اور ان کے مشاہدے کی نفی ہے، یعنی انھوں نے ان کی پیدائش کو نہیں دیکھا کہ وہ مذکر ہیں یا مؤنث اور {” اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِهٖ “} (یا کیا ہم نے انھیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے) میں دوسری صورت کا ردّ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس فرشتوں کے مؤنث ہونے کی اور ان کی پرستش کی کوئی نقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ کسی آسمانی کتاب میں انھیں یہ لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں یا اس کی بادشاہت میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر دہرائی ہے۔ دیکھیے سورۂ روم (۳۵)، فاطر(۴۰)، صافات (۱۵۶، ۱۵۷)، احقاف (۴)، نمل (۶۴)، حج (۸) اور انعام (۴۸)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
21۔ 1 یعنی قرآن سے پہلے کوئی کتاب، جس میں ان کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کا اختیار دیا ہے جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے؟ یعنی ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے آباو اجداد کی پیروی کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں ان کا بے دلیل ہونا بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ’ کیا ہم نے ان کے اس شرک سے پہلے انہیں کوئی کتاب دے رکھی ہے؟ جس سے وہ سند لاتے ہوں۔ ‘ یعنی حقیقت میں ایسا نہیں جیسے فرمایا «اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ» ۱؎ [30-الروم:35]، یعنی ’ کیا ہم نے ان پر ایسی دلیل اتاری ہے جو ان سے شرک کو کہے؟ ‘ یعنی ایسا نہیں ہے۔
پھر فرماتا ہے ’ یہ تو نہیں، بلکہ شرک کی سند ان کے پاس ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اپنے باپ دادوں کی تقلید کہ وہ جس دین پر تھے ہم اسی پر ہیں اور رہیں گے۔ ‘
امت سے مراد یہاں دین ہے اور آیت «إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ» ۱؎ [21-الأنبياء:92]، میں بھی امت سے مراد دین ہی ہے ساتھ ہی کہا کہ ہم انہی کی راہوں پر چل رہے ہیں پس ان کے بے دلیل دعوے کو سنا کر اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ یہی روش ان سے اگلوں کی بھی رہی۔ ان کا جواب بھی نبیوں کی تعلیم کے مقابلہ میں یہی تقلید کو پیش کرنا تھا۔‘
اور جگہ ہے آیت «كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» ۱؎ [51-الذاريات:52] یعنی ’ ان سے اگلوں کے پاس بھی جو رسول آئے ان کی امتوں نے انہیں بھی جادوگر اور دیوانہ بتایا۔‘
پس گویا کہ اگلے پچھلوں کے منہ میں یہ الفاظ بھر گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکشی میں یہ سب یکساں ہیں پھر ارشاد ہے کہ ’ گو یہ معلوم کر لیں اور جان لیں کہ نبیوں کی تعلیم باپ دادوں کی تقلید سے بدرجہا بہتر ہے تاہم ان کا برا قصد اور ضد اور ہٹ دھرمی انہیں حق کی قبولیت کی طرف نہیں آنے دیتی۔ ‘
پس ایسے اڑیل لوگوں سے ہم بھی ان کی باطل پرستی کا انتقام نہیں چھوڑتے مختلف صورتوں سے انہیں تہ و بالا کر دیا کرتے ہیں ان کا قصہ مذکور و مشہور ہے غور و تامل کے ساتھ دیکھ پڑھ لو اور سوچ سمجھ لو کہ کس طرح کفار برباد کئے جاتے ہیں اور کس طرح مومن نجات پاتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے ’ یہ تو نہیں، بلکہ شرک کی سند ان کے پاس ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اپنے باپ دادوں کی تقلید کہ وہ جس دین پر تھے ہم اسی پر ہیں اور رہیں گے۔ ‘
امت سے مراد یہاں دین ہے اور آیت «إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ» ۱؎ [21-الأنبياء:92]، میں بھی امت سے مراد دین ہی ہے ساتھ ہی کہا کہ ہم انہی کی راہوں پر چل رہے ہیں پس ان کے بے دلیل دعوے کو سنا کر اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ یہی روش ان سے اگلوں کی بھی رہی۔ ان کا جواب بھی نبیوں کی تعلیم کے مقابلہ میں یہی تقلید کو پیش کرنا تھا۔‘
اور جگہ ہے آیت «كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» ۱؎ [51-الذاريات:52] یعنی ’ ان سے اگلوں کے پاس بھی جو رسول آئے ان کی امتوں نے انہیں بھی جادوگر اور دیوانہ بتایا۔‘
پس گویا کہ اگلے پچھلوں کے منہ میں یہ الفاظ بھر گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکشی میں یہ سب یکساں ہیں پھر ارشاد ہے کہ ’ گو یہ معلوم کر لیں اور جان لیں کہ نبیوں کی تعلیم باپ دادوں کی تقلید سے بدرجہا بہتر ہے تاہم ان کا برا قصد اور ضد اور ہٹ دھرمی انہیں حق کی قبولیت کی طرف نہیں آنے دیتی۔ ‘
پس ایسے اڑیل لوگوں سے ہم بھی ان کی باطل پرستی کا انتقام نہیں چھوڑتے مختلف صورتوں سے انہیں تہ و بالا کر دیا کرتے ہیں ان کا قصہ مذکور و مشہور ہے غور و تامل کے ساتھ دیکھ پڑھ لو اور سوچ سمجھ لو کہ کس طرح کفار برباد کئے جاتے ہیں اور کس طرح مومن نجات پاتے ہیں۔