وَ جَعَلُوۡا لَہٗ مِنۡ عِبَادِہٖ جُزۡءًا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَکَفُوۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ؕ٪۱۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور انھوں نے اس کے لیے اس کے بعض بندوں کو جز بنا ڈالا، بے شک انسان یقینا صریح ناشکرا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے اولاد مقرر کی۔ بےشک انسان صریح ناشکرا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناً انسان کھلم کھلا ناشکرا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 15) ➊ { وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا:} اس آیت کا تعلق آیت (۹): «وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ» کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشرکین کی جہالت پر تعجب دلاتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ مانتے ہیں کہ آسمان و زمین کا خالق اور ان کی ہر چیز کا مدبر اللہ تعالیٰ ہے، جو مخلوق سے جدا ہے اور کسی طرح محتاج نہیں، پھر اس کے لیے شریک اور اس کی اولاد بناتے ہیں۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ مدد کے لیے یا دل لگانے کے لیے کسی کا محتاج نہیں، کیونکہ یہ دونوں نقص کی علامتیں ہیں۔ پھر ظلم دیکھو کہ عباد (غلاموں) کو اولاد قرار دے رہے ہیں، جب کہ اولاد غلام ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ وہ تو باپ کا جزو ہوتی ہے۔ جب کوئی اللہ کا جزو ثابت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا اس کا محتاج ہونا بھی ثابت ہو گیا۔ {” عِبَادِهٖ “} میں فرشتے، جن اور انسان سبھی داخل ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے عزیر و مسیح کو ابن اللہ قرار دیا، تو کچھ نام نہاد مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نور کا ٹکڑا قرار دیا اور بعض نے کہا کہ پنج تن اللہ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۳۰) کی تفسیر۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انھوں نے ان کے بت عورتوں کی شکل میں بنا رکھے تھے۔ یہی دیویاں تھیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔
➋ { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ:} صریح نا شکرا اس لیے کہ جس پروردگار نے اسے پیدا کیا، زمین و آسمان اور کل کائنات پیدا فرمائی، اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کو ایک مان کر اس اکیلے کی بندگی کرنے کے بجائے اس نے اس کے بندوں کو اس کی اولاد قرار دے کر صفات ہی میں نہیں اس کی ذات میں بھی شریک ٹھہرا دیا۔
➋ { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ:} صریح نا شکرا اس لیے کہ جس پروردگار نے اسے پیدا کیا، زمین و آسمان اور کل کائنات پیدا فرمائی، اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کو ایک مان کر اس اکیلے کی بندگی کرنے کے بجائے اس نے اس کے بندوں کو اس کی اولاد قرار دے کر صفات ہی میں نہیں اس کی ذات میں بھی شریک ٹھہرا دیا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
15۔ 1 عِبَاد سے مراد فرشتے اور جُزْء سے مراد بیٹیاں یعنی فرشتے، جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ یوں وہ مخلوق کو اللہ کا شریک اور اس کا جزء مانتے تھے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
مشرکین کا بدترین فعل ٭٭
اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس افترا اور کذب کا بیان فرماتا ہے جو انہوں نے اللہ کے نام منسوب کر رکھا ہے جس کا ذکر سورۃ الانعام کی آیت «وَجَعَلُوا لِلَّـهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَـٰذَا لِلَّـهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـٰذَا لِشُرَكَائِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّـهِ وَمَا كَانَ لِلَّـهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ» ۱؎ [6-الأنعام:136] میں ہے یعنی ’ اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان مشرکین نے ان میں سے کچھ حصہ تو اللہ کا مقرر کیا اور اپنے طور پر کہہ دیا کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا اب جو ان کے معبودوں کے نام کا ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو ہر چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کو پہنچ جاتی ہے ان کی یہ تجویز کیسی بری ہے؟ ‘
اسی طرح مشرکین نے لڑکے لڑکیوں کی تقسیم کر کے لڑکیاں تو اللہ سے متعلق کر دیں جو ان کے خیال میں ذلیل و خوار تھیں اور لڑکے اپنے لیے پسند کئے جیسے کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے «اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰ» ۱؎ [53-النجم:22-21]، ’ کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بےڈھنگی تقسیم ہے۔ ‘
پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ ان مشرکین نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزء قرار دے لیا ہے۔ ‘
پھر فرماتا ہے کہ ’ ان کی اس بدتمیزی کو دیکھو کہ جب یہ لڑکیوں کو خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیسے پسند کرتے ہیں؟ ان کی یہ حالت ہے کہ جب ان میں سے کسی کو یہ خبر پہنچتی ہے کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی تو منہ بسور لیتا ہے گویا ایک شرمناک اندوہ ناک خبر سنی۔ ‘ کسی سے ذکر تک نہیں کرتا اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے ذرا سا منہ نکل آتا ہے۔ لیکن پھر اپنی کامل حماقت کا مظاہرہ کرنے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ کی لڑکیاں ہیں یہ خوب مزے کی بات ہے کہ خود جس چیز سے گھبرائیں اللہ کے لیے وہ ثابت کریں۔
پھر فرماتا ہے عورتیں ناقص سمجھی جاتی ہیں جن کے نقصانات کی تلافی زیورات اور آرائش سے کی جاتی ہے اور بچپن سے مرتے دم تک وہ بناؤ سنگھار کی محتاج سمجھی جاتی ہیں پھر بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے کے وقت ان کی زبان نہیں چلتی دلیل نہیں دے سکتیں عاجز رہ جاتی ہیں مغلوب ہو جاتی ہیں ایسی چیز کو جناب باری علی و عظیم کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ظاہری اور باطنی نقصان اپنے اندر رکھتی ہیں۔ جس کے ظاہری نقصان کو زینت اور زیورات سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی جیسے کہ بعض عرب شاعروں کے اشعار ہیں
«وَمَا الْحُلِيّ إِلَّا زِينَة مِنْ نَقِيصَة» «يُتَمِّم مِنْ حُسْن إِذَا الْحُسْن قَصَّرَا» «وَأَمَّا إِذَا كَانَ الْجَمَال مُوَفَّرًا» «كَحُسْنِك لَمْ يَحْتَجْ إِلَى أَنْ يُزَوَّرَا»
یعنی زیورات کمی حسن کو پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ بھرپور جمال کو زیورات کی کیا ضرورت؟ اور باطنی نقصان بھی ہیں جیسے بدلہ نہ لے سکنا نہ زبان سے نہ ہمت سے۔ ان مضمون کو بھی عربوں نے ادا کیا ہے جبکہ یہ صرف رونے دھونے سے ہی مدد کر سکتی ہے اور چوری چھپے کوئی بھلائی کر سکتی ہے۔
اسی طرح مشرکین نے لڑکے لڑکیوں کی تقسیم کر کے لڑکیاں تو اللہ سے متعلق کر دیں جو ان کے خیال میں ذلیل و خوار تھیں اور لڑکے اپنے لیے پسند کئے جیسے کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے «اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَىٰ» ۱؎ [53-النجم:22-21]، ’ کیا تمہارے لیے تو بیٹے ہوں اور اللہ کے لیے بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بےڈھنگی تقسیم ہے۔ ‘
پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ ان مشرکین نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزء قرار دے لیا ہے۔ ‘
پھر فرماتا ہے کہ ’ ان کی اس بدتمیزی کو دیکھو کہ جب یہ لڑکیوں کو خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے لیے کیسے پسند کرتے ہیں؟ ان کی یہ حالت ہے کہ جب ان میں سے کسی کو یہ خبر پہنچتی ہے کہ تیرے ہاں لڑکی ہوئی تو منہ بسور لیتا ہے گویا ایک شرمناک اندوہ ناک خبر سنی۔ ‘ کسی سے ذکر تک نہیں کرتا اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے ذرا سا منہ نکل آتا ہے۔ لیکن پھر اپنی کامل حماقت کا مظاہرہ کرنے بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ کی لڑکیاں ہیں یہ خوب مزے کی بات ہے کہ خود جس چیز سے گھبرائیں اللہ کے لیے وہ ثابت کریں۔
پھر فرماتا ہے عورتیں ناقص سمجھی جاتی ہیں جن کے نقصانات کی تلافی زیورات اور آرائش سے کی جاتی ہے اور بچپن سے مرتے دم تک وہ بناؤ سنگھار کی محتاج سمجھی جاتی ہیں پھر بحث مباحثے اور لڑائی جھگڑے کے وقت ان کی زبان نہیں چلتی دلیل نہیں دے سکتیں عاجز رہ جاتی ہیں مغلوب ہو جاتی ہیں ایسی چیز کو جناب باری علی و عظیم کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ظاہری اور باطنی نقصان اپنے اندر رکھتی ہیں۔ جس کے ظاہری نقصان کو زینت اور زیورات سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی جیسے کہ بعض عرب شاعروں کے اشعار ہیں
«وَمَا الْحُلِيّ إِلَّا زِينَة مِنْ نَقِيصَة» «يُتَمِّم مِنْ حُسْن إِذَا الْحُسْن قَصَّرَا» «وَأَمَّا إِذَا كَانَ الْجَمَال مُوَفَّرًا» «كَحُسْنِك لَمْ يَحْتَجْ إِلَى أَنْ يُزَوَّرَا»
یعنی زیورات کمی حسن کو پورا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ بھرپور جمال کو زیورات کی کیا ضرورت؟ اور باطنی نقصان بھی ہیں جیسے بدلہ نہ لے سکنا نہ زبان سے نہ ہمت سے۔ ان مضمون کو بھی عربوں نے ادا کیا ہے جبکہ یہ صرف رونے دھونے سے ہی مدد کر سکتی ہے اور چوری چھپے کوئی بھلائی کر سکتی ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ انہوں نے فرشتوں کو عورتیں سمجھ رکھا ہے ان سے پوچھو کہ کیا جب وہ پیدا ہوئے تو تم وہاں موجود تھے؟ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ان باتوں سے بے خبر ہیں سب ہمارے پاس لکھی ہوئی ہیں اور قیامت کے دن تم سے ان کا سوال بھی ہو گا جس سے تمہیں ڈرنا چاہیئے اور ہوشیار رہنا چاہیئے۔ ‘
پھر ان کی مزید حماقت بیان فرماتا ہے کہ ’ کہتے ہیں ہم نے فرشتوں کو عورتیں سمجھا پھر ان کی مورتیں بنائیں اور پھر انہیں پوج رہے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم میں ان میں حائل ہو جاتا اور ہم انہیں نہ پوج سکتے۔ ‘ پس جبکہ ہم انہیں پوج رہے ہیں اور اللہ ہم میں اور ان میں حائل نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ ہماری یہ پوجا غلط نہیں بلکہ صحیح ہے۔
پھر ان کی مزید حماقت بیان فرماتا ہے کہ ’ کہتے ہیں ہم نے فرشتوں کو عورتیں سمجھا پھر ان کی مورتیں بنائیں اور پھر انہیں پوج رہے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم میں ان میں حائل ہو جاتا اور ہم انہیں نہ پوج سکتے۔ ‘ پس جبکہ ہم انہیں پوج رہے ہیں اور اللہ ہم میں اور ان میں حائل نہیں ہوتا تو ظاہر ہے کہ ہماری یہ پوجا غلط نہیں بلکہ صحیح ہے۔
پس پہلی خطا تو ان کی یہ کہ اللہ کے لیے اولاد ثابت کی دوسری خطا یہ کہ فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں قرار دیں تیسری خطا یہ کہ کہ انہی کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔ جس پر کوئی دلیل و حجت نہیں صرف اپنے بڑوں اور اگلوں اور باپ دادوں کی کورانہ تقلید ہے چوتھی خطا یہ کہ اسے اللہ کی طرف سے مقدر مانا اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر رب اس سے ناخوش ہوتا تو ہمیں اتنی طاقت ہی نہ دیتا کہ ہم ان کی پرستش کریں اور یہ ان کی صریح جہالت و خباثت ہے اللہ تعالیٰ اس سے سراسر ناخوش ہے۔
ایک ایک پیغمبر اس کی تردید کرتا رہا ایک ایک کتاب اس کی برائی بیان کرتی رہی جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ» ۱؎ [16-النحل:36]، یعنی ’ ہر امت میں ہم نے رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسرے کی عبادت سے بچو۔ پھر بعض تو ایسے نکلے جنہیں اللہ نے ہدایت کی اور بعض ایسے بھی نکلے جن پر گمراہی کی بات ثابت ہو چکی تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا برا حشر ہوا؟ ‘
اور آیت میں ہے «وَسْـَٔـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ» [43-الزخرف:45] ۱؎، یعنی ’ تو ان رسولوں سے پوچھ لے جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا تھا کیا ہم نے اپنے سوا دوسروں کی پرستش کی انہیں اجازت دی تھی؟‘
پھر فرماتا ہے ’ یہ دلیل تو ان کی بڑی بودی ہے اور بودی یوں ہے کہ یہ بےعلم ہیں، باتیں بنا لیتے ہیں اور جھوٹ بول لیتے ہیں۔ ‘ یعنی یہ اللہ کی اس پر قدرت کو نہیں جانتے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:175/11]
ایک ایک پیغمبر اس کی تردید کرتا رہا ایک ایک کتاب اس کی برائی بیان کرتی رہی جیسے فرمان ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ ۭ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ» ۱؎ [16-النحل:36]، یعنی ’ ہر امت میں ہم نے رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا دوسرے کی عبادت سے بچو۔ پھر بعض تو ایسے نکلے جنہیں اللہ نے ہدایت کی اور بعض ایسے بھی نکلے جن پر گمراہی کی بات ثابت ہو چکی تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا برا حشر ہوا؟ ‘
اور آیت میں ہے «وَسْـَٔـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً يُّعْبَدُوْنَ» [43-الزخرف:45] ۱؎، یعنی ’ تو ان رسولوں سے پوچھ لے جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا تھا کیا ہم نے اپنے سوا دوسروں کی پرستش کی انہیں اجازت دی تھی؟‘
پھر فرماتا ہے ’ یہ دلیل تو ان کی بڑی بودی ہے اور بودی یوں ہے کہ یہ بےعلم ہیں، باتیں بنا لیتے ہیں اور جھوٹ بول لیتے ہیں۔ ‘ یعنی یہ اللہ کی اس پر قدرت کو نہیں جانتے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:175/11]