وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الَّیۡلُ وَ النَّہَارُ وَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ؕ لَا تَسۡجُدُوۡا لِلشَّمۡسِ وَ لَا لِلۡقَمَرِ وَ اسۡجُدُوۡا لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَہُنَّ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ ﴿۳۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اسی کی نشانیوں میںسے رات اور دن، اورسورج اور چاند ہیں، نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو اور اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا، اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور رات اور دن اور سورج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تم لوگ نہ تو سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو۔ بلکہ خدا ہی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے اگر تم کو اس کی عبادت منظور ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجده نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 37) ➊ {وَ مِنْ اٰيٰتِهِ الَّيْلُ وَ النَّهَارُ …:} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کو سب سے اچھی بات قرار دیا، اب اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کے لیے چند اور چیزیں بطور دلیل ذکر فرمائیں، جن میں سے بعض آسمان سے تعلق رکھتی ہیں اور بعض زمین سے اور واضح فرمایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔
➋ انسان کو نظر آنے والی اشیا میں سے سب سے عظیم اور سب سے روشن چیزیں سورج اور چاند ہیں، اس لیے بہت سے لوگ انھی کو رب تعالیٰ سمجھ بیٹھے۔ بعض نے انھیں اللہ تعالیٰ کا مظہر سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور ان کی پرستش اور انھیں سجدہ کرنے لگے، جیسے صابی اور پارسی لوگ ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم شرک کی متعدد صورتوں میں مبتلا تھی، وہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ سورج، چاند اور ستاروں کی بھی پرستش کرتی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام نے نہایت حکمت کے ساتھ ان کا بے اختیار ہونا اور رب نہ ہونا واضح فرمایا۔ (دیکھیے سورۂ انعام: ۷۶ تا ۸۲) زیر تفسیر آیات سے ان مشرکین کا رد مقصود ہے۔ چنانچہ بتایا کہ رات دن اور سورج چاند اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت کی نشانیوں اور دلیلوں میں سے ہیں۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس لیے فرمایا کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی رب یا رب تعالیٰ کا مظہر نہیں کہ اس کی صورت میں وہ خود ظاہر ہو رہا ہے، بلکہ یہ دونوں مجبور اور لاچار پیدا کیے گئے ہیں، جو رب تعالیٰ کے فرمان کے تحت مسخر ہیں اور اپنی گردش اور طلوع و غروب میں اس کے حکم کے پابند ہیں۔ اگر یہ خود رب ہوتے تو دن کے وقت کا سورج رات اور چاند کو نہ آنے دیتا، اسی طرح رات دن کے مقابلے میں ڈٹ جاتی اور اسے قدم نہ رکھنے دیتی، مگر ان سب کا بے اختیار ہو کر گردش کرتے چلے جانا اور ان میں کبھی کسی حادثے کا رونما نہ ہونا اکیلے رب تعالیٰ کے وجود کی دلیل ہے، جو ہر چیز کو اپنی حکمت کے تحت چلا رہا ہے۔
➌ رات دن کے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہونے اور ان آیات کے حوالے کے لیے جن میں اس کی تفصیل ہے، دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۱۲) کی تفسیر۔
➍ { لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ …:} اس سے معلوم ہوا کہ مخلوق کو سجدہ کرنا حرام ہے، سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا۔
➎ { اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ:} کچھ لوگ عقلی ڈھکوسلے گھڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ مشرکین کہتے تھے: «‏‏‏‏مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى» ‏‏‏‏ [الزمر: ۳] ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، اگر تم واقعی اللہ ہی کی عبادت کرتے ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، سیدھے اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے؟
➏ سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیم میں فرق اور سجدۂ تعظیم کی حرمت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۳۴) اور سورۂ یوسف (۱۰۰)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

37۔ 1 یعنی رات کو تاریک بنانا تاکہ لوگ اس میں آرام کرسکیں دن کو روشن بنانا تاکہ کسب معاش میں پریشانی نہ ہو پھر یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کا آنا جانا اور کبھی رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہوتا اسی طرح سورج اور چاند کا اپنے اپنے وقت پر طلوع وغرب ہونا اور اپنے اپنے مدار پر اپنی منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں باہمی تصادم محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ ان کا یقینا کوئی خالق اور مالک ہے نیز وہ ایک اور صرف ایک ہے اور کائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے اگر تدبیر و امر کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقے سے کبھی نہیں چل سکتا تھا۔ 37۔ 2 اس لئے کہ یہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں، خدائی اختیارات سے بہرہ ور یا ان میں شریک نہیں ہیں 37۔ 3 خلقھن میں جمع مونث کی ضمیر اس لیے آئی ہے کہ یہ یا تو خلق ھذہ الاربعۃ المذکورۃ کے مفہوم میں ہے کیونکہ غیر عاقل کی جمع کا حکم جمع مونث ہی کا ہے یا اس کا مرجع صرف شمس وقمر ہی ہیں اور بعض ازمہ نحاۃ کے نزدیک تثنیہ بھی جمع ہے یا پھر مراد الآیات ہیں فتح القدیر

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

مخلوق کو نہیں خالق کو سجدہ کرو ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو اپنی عظیم الشان قدرت اور بے مثال طاقت دکھاتا ہے کہ وہ جو کرنا چاہے کر ڈالتا ہے سورج چاند دن رات اس کی قدرت کاملہ کے نشانات ہیں۔ رات کو اس کے اندھیروں سمیت دن کو اس کے اجالوں سمیت اس نے بنایا ہے۔ کیسے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں؟ سورج کو روشنی اور چمکتے چاند کو اور اس کی نورانیت کو دیکھ لو ان کی بھی منزلیں اور آسمان مقرر ہیں۔ ان کے طلوع و غروب سے دن رات کا فرق ہو جاتا ہے۔ مہینے اور برسوں کی گنتی معلوم ہو جاتی ہے جس سے عبادات معاملات اور حقوق کی باقادہ ادائیگی ہوتی ہے۔ چونکہ آسمان و زمین میں زیادہ خوبصورت اور منور سورج اور چاند تھا اس لیے انہیں خصوصیت سے اپنا مخلوق ہونا بتایا اور فرمایا کہ «لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ» ۱؎ [41-فصلت:37]‏‏‏‏ ’ اگر اللہ کے بندے ہو تو سورج چاند کے سامنے ماتھا نہ ٹیکنا اس لیے کہ وہ مخلوق ہیں اور مخلوق سجدہ کرنے کے قابل نہیں ہوتی سجدہ کئے جانے کے لائق وہ ہے جو سب کا خالق ہے ‘۔
پس تم اللہ کی عبادت کئے چلے جاؤ۔ لیکن اگر تم نے اللہ کے سوا اس کی کسی مخلوق کی بھی عبادت کر لی تو تم اس کی نظروں سے گر جاؤ گے اور پھر تو وہ تمہیں کبھی نہ بخشے گا، جو لوگ صرف اس کی عبادت نہیں کرتے بلکہ کسی اور کی بھی عبادت کر لیتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کے عابد وہی ہیں۔ وہ اگر اس کی عبادت چھوڑ دیں گے تو اور کوئی اس کا عابد نہیں رہے گا۔ نہیں نہیں اللہ ان کی عبادتوں سے محض بےپرواہ ہے اس کے فرشتے دن رات اس کی پاکیزگی کے بیان اور اس کی خالص عبادتوں میں بے تھکے اور بن اکتائے ہر وقت مغشول ہیں۔
جیسے اور آیت میں ہے «فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَـٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ» ۱؎ [6-الأنعام:89]‏‏‏‏ ’ اگر یہ کفر کریں تو ہم نے ایک قوم ایسی بھی مقرر کر رکھی ہے جو کفر نہ کرے گی ‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { رات دن کو سورج چاند کو اور ہوا کو برا نہ کہو یہ چیزیں بعض لوگوں کے لیے رحمت ہیں اور بعض کے لیے زحمت }۔ ۱؎ [مسند ابویعلیٰ:2194:ضعیف]‏‏‏‏
اس کی اس قدرت کی نشانی کہ وہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اگر دیکھنا چاہتے ہو تو مردہ زمین کا بارش سے جی اٹھنا دیکھ لو کہ وہ خشک چٹیل اور بےگھاس پتوں کے بغیر ہوتی ہے۔ مینہ برستے ہی کھیتیاں پھل سبزہ گھاس اور پھول وغیرہ اگ آتے ہیں اور وہ ایک عجیب انداز سے اپنے سبزے کے ساتھ لہلہانے لگتی ہے، اسے زندہ کرنے والا ہی تمہیں بھی زندہ کرے گا۔ یقین مانو کہ وہ جو چاہے اس کی قدرت میں ہے۔