اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہو جائو جس کاتم وعدہ دیے جاتے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے ان پر فرشتے اُتریں گے (اور کہیں گے) کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا خوشی مناؤ۔
ترجمہ محمد جوناگڑھی
(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو۔
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 30) ➊ { اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا …:} کفار کے برے عقیدہ و عمل کی وجہ سے ان پر جن و انس کے شیاطین مسلط کرنے اور ان کے برے انجام کے ذکر کے بعد ایمان اور اس پر استقامت اختیار کرنے والوں کی تائید و نصرت کے لیے فرشتے نازل کرنے کا اور ان کے حسن انجام کا ذکر فرمایا۔
➋ { رَبُّنَا اللّٰهُ:} ”ہمارا رب صرف اللہ ہے“ یہ مختصر سا جملہ معانی کا سمندر ہے۔ مبتدا کے بعد خبر معرفہ ہو تو کلام میں حصر پیدا ہو جاتا ہے، کتبِ بلاغت میں اس کی مشہور مثال {”صَدِيْقِيْ زَيْدٌ“} ہے، یعنی ”میرا دوست صرف زید ہے۔“ اس لیے {” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کا معنی ہے ”ہمارا رب صرف اللہ ہے۔“ یہ بات دل سے کہہ لینے کے بعد آدمی کسی اور کو داتا، دستگیر، گنج بخش، غریب نواز، بگڑی بنانے والا اور ڈوبتوں کو پار لگانے والا نہیں مان سکتا۔ پھر اس کی قولی، بدنی اور مالی عبادت، بلکہ پوری زندگی اور موت صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے، وہ صرف اسی سے مانگتا اور اسی کے حکم پر چلتا ہے۔ جو وہ کہے کرتا ہے، جس سے روک دے رک جاتا ہے۔ عمل میں کوتاہی ہو سکتی ہے اور گناہ کا ارتکاب بھی ہو سکتا ہے، مگر وہ اسی کے دروازے پر رہتا اور اسی سے معافی مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (161) قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (162) لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (163) قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ» [الأنعام: ۱۶۱ تا ۱۶۴] ”کہہ دے بے شک مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر دی ہے، جو مضبوط دین ہے، ابراہیم کی ملت، جو ایک ہی طرف کا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔“
{” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کہنے کے بعد کسی اور کی عبادت، اس کا دین یا اس کا بتایا ہوا زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے کہا ہے:
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را
”جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں، کیونکہ میں {”لا الٰه “} کی مشکلات کو جانتا ہوں۔“
➌ { ثُمَّ اسْتَقَامُوْا:} اس میں سین اور تاء مبالغے کے لیے ہے، یعنی پھر اس پر خوب قائم رہے اور موت تک ڈٹے رہے، کوئی خوف یا لالچ انھیں اس عقیدے اور عمل سے نہ پھیر سکا، جیسا کہ فرمایا: «وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ» [الحجر: ۹۹] ”اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین آ جائے۔“
طبری نے اسود بن ہلال سے روایت کی ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی: «اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا» اور فرمایا: ”اس آیت کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: [قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا مِنْ ذَنْبٍ] ”انھوں نے {” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کہا، پھر گناہ سے بچنے پر ڈٹے رہے۔“ تو انھوں نے فرمایا: [لَقَدْ حَمَلْتُمُوْهُ عَلٰی غَيْرِ الْمَحْمَلِ، قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ثُمَّ لَمْ يَلْتَفِتُوْا إِلٰی إِلٰهٍ غَيْرِهِ] [طبري: ۳۰۷۷۰]”تم نے اسے اس کے اصل محمل کے غیر پر محمول کیا ہے، مقصد {” قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “} کا یہ ہے کہ پھر انھوں نے اس کے سوا کسی اور معبود کی طرف جھانک کر نہیں دیکھا۔“ حاکم نے بھی اسے اسود بن ہلال کے طریق سے روایت کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ دیکھیے مستدرک حاکم میں ”سورۂ حم السجدہ“ کی تفسیر۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں: {”قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا عَلٰی أَدَاءِ فَرَائِضِهِ “} یعنی {” ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “} کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے فرائض کی ادائیگی پر خوب قائم رہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ {” ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “} کا مطلب یہ ہے کہ وہ موت تک توحید پر خوب قائم رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلتے رہے اور فرائض ادا کرتے رہے، اگر کوئی کوتاہی یا گناہ ہوا بھی ہو تو انھوں نے توحید و سنت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
➍ سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: [يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! حَدِّثْنِيْ بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ، قَالَ قُلْ رَبِّيَ اللّٰهُ، ثُمَّ اسْتَقِمْ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ؟ قَالَ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ هٰذَا] [مسند أحمد: 413/3، ح: ۱۵۴۲۵] ”یا رسول اللہ! آپ مجھے ایسا کام بتائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کہہ، میرا رب صرف اللہ ہے، پھر اس پر خوب قائم رہ۔“ میں نے کہا: ”یا رسول اللہ! سب سے خوف ناک چیز جس سے آپ میرے بارے میں ڈرتے ہوں، کیا ہے؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: ”یہ (زبان)۔“ مسند احمد کے محقق حضرات نے اسے صحیح کہا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے، سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: [يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قُلْ لِّيْ فِي الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ، وَ فِيْ حَدِيْثِ أَبِيْ أُسَامَةَ غَيْرَكَ، قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ] [مسلم، الإیمان، باب جامع أوصاف الإسلام: ۳۸] ”یا رسول اللہ! آپ مجھے اسلام میں ایسی بات بتا دیں کہ میں اس کے متعلق آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کہہ، میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر خوب قائم رہ۔“ اس سے معلوم ہوا کہ {” رَبِّيَ اللّٰهُ “} اور {” آمَنْتُ بِاللّٰهِ“} کا مفہوم ایک ہے اور یہ جامع کلمہ ہے، جس میں اسلام کے تمام ارکان آ گئے ہیں، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ کے صحیح مسلم پر باب کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
➎ {تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ …:} ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو۔ بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ {” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کہہ کر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول موت کے وقت ہوتا ہے، پھر قبر میں اور آخر میں حشر کے دن ہو گا، حالانکہ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ ان حضرات کی اس تفسیر کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ایمان والوں پر فرشتوں کا نزول نظر نہیں آتا، وہ موت کے وقت نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ وہ نظر نہیں آتے، مگر یقینا دنیا میں بھی اہلِ استقامت پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، جس سے ان کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے، ایمان اور میدان میں انھیں استقامت اور ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے اور وہ ان کے دلوں میں نیکی کی رغبت، برائی سے نفرت اور بہترین خیالات پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں، جیسا کہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے، فرمایا: «اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ (9) وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ» [الأنفال: ۹، ۱۰] ”جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر ایک خوش خبری اور تاکہ اس کے ساتھ تمھارے دل مطمئن ہوں اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے۔ بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“ اور فرمایا: «اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ اَنِّيْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ» [الأنفال: ۱۲] ”جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں، پس تم ان لوگوں کو جمائے رکھو جو ایمان لائے ہیں، عنقریب میں ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے کفر کیا، رعب ڈال دوں گا۔ پس ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ۔“
فرشتے ایمان والوں پر اترتے ہیں مگر ایک آدھ استثنائی صورت کے علاوہ رسول کے سوا کسی کو نظر نہیں آتے اور جب تک یہ مادی زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور مادیت کے پردے چاک نہیں ہو جاتے تب تک فرشتوں کا نزول اسی صورت میں ہوتا ہے۔ البتہ مرنے کے ساتھ ہی جب یہ پردے اور حجاب اٹھ جائیں گے تو فرشتے موت کے وقت، پھر قبر میں، پھر قیامت میں ہر جگہ یقینا انسانوں کو نظر آئیں گے اور ایمان والوں کو ان الفاظ میں تسلی دیں گے جن کا ان آیات میں ذکر ہے۔ دنیا میں اگر فرشتے نظر آنا شروع ہو جائیں تو امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، اس لیے یہاں وہ اسی وقت عام لوگوں کو نظر آتے ہیں جب وہ عذاب لے کر آتے ہیں اور امتحان کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ حجر کی آیت (۸) کی تفسیر۔
فرشتوں کا ایمان والوں پر اترنا ایسے ہی ہے جیسے کفار اور خبیث لوگوں پر شیاطین کا نزول ہے کہ وہ ان کے دلوں میں گندے خیالات اور فاسد عقائد ڈالتے اور برائی پر ابھارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ (221) تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ (222) يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ» [الشعراء: ۲۲۱ تا ۲۲۳] ”کیا میں تمھیں بتاؤں شیاطین کس پر اترتے ہیں۔ وہ ہر زبردست جھوٹے، سخت گناہ گار پر اترتے ہیں۔ وہ سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹے ہیں۔“ اور فرمایا: «وَ اِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِيٰٓـِٕهِمْ۠ لِيُجَادِلُوْكُمْ» [الأنعام: ۱۲۱] ”اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔“ اور فرمایا: «وَ اِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّيْ جَارٌ لَّكُمْ» [الأنفال: ۴۸] ” اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنا دیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقینا میں تمھارا حمایتی ہوں۔“
➏ { اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا:} مفسر عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: ”یعنی جب فرشتے ڈٹ جانے والوں پر نازل ہوتے ہیں تو انھیں یہ تلقین کرتے ہیں یا ان کے دل میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی چیرہ دست ہوں ان سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور حق پرستی کی وجہ سے جو مظالم تم پر ڈھائے جا رہے ہیں ان پر رنج نہ کرو، کیونکہ اللہ نے تمھارے لیے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی سب نعمتیں ہیچ ہیں۔ اور موت کے وقت بھی فرشتے ہر مومن سے یہی کلمات کہتے ہیں، اس وقت وہ فرشتوں کو دیکھتا بھی ہے اور ان کی بات سمجھتا بھی ہے، تو اس وقت ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو اس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ جنت تمھاری منتظر ہے اور دنیا میں جنھیں تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے بھی رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم تمھارے ولی اور رفیق ہیں۔“ (تیسیر القرآن)
➐ دنیا میں انسانوں کے ساتھ کئی طرح کے فرشتے مقرر ہیں، جن میں کراماً کاتبین بھی ہیں (دیکھیے انفطار: ۱۰ تا ۱۲) اور آفات و مصائب سے حفاظت کرنے والے فرشتے بھی۔ (دیکھیے رعد: ۱۱) یہ فرشتے مومن و کافر سب کے ساتھ ہیں، مگر جن فرشتوں کا ان آیات میں ذکر ہے یہ صرف اہلِ ایمان و استقامت کے ساتھ خاص ہیں، انھی پر اترتے ہیں اور انھی کو حوصلہ دیتے، نیکیوں کی رغبت دلاتے اور خیر کا الہام کرتے ہیں۔
➋ { رَبُّنَا اللّٰهُ:} ”ہمارا رب صرف اللہ ہے“ یہ مختصر سا جملہ معانی کا سمندر ہے۔ مبتدا کے بعد خبر معرفہ ہو تو کلام میں حصر پیدا ہو جاتا ہے، کتبِ بلاغت میں اس کی مشہور مثال {”صَدِيْقِيْ زَيْدٌ“} ہے، یعنی ”میرا دوست صرف زید ہے۔“ اس لیے {” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کا معنی ہے ”ہمارا رب صرف اللہ ہے۔“ یہ بات دل سے کہہ لینے کے بعد آدمی کسی اور کو داتا، دستگیر، گنج بخش، غریب نواز، بگڑی بنانے والا اور ڈوبتوں کو پار لگانے والا نہیں مان سکتا۔ پھر اس کی قولی، بدنی اور مالی عبادت، بلکہ پوری زندگی اور موت صرف اللہ کے لیے ہوتی ہے، وہ صرف اسی سے مانگتا اور اسی کے حکم پر چلتا ہے۔ جو وہ کہے کرتا ہے، جس سے روک دے رک جاتا ہے۔ عمل میں کوتاہی ہو سکتی ہے اور گناہ کا ارتکاب بھی ہو سکتا ہے، مگر وہ اسی کے دروازے پر رہتا اور اسی سے معافی مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (161) قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (162) لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (163) قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ» [الأنعام: ۱۶۱ تا ۱۶۴] ”کہہ دے بے شک مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر دی ہے، جو مضبوط دین ہے، ابراہیم کی ملت، جو ایک ہی طرف کا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔“
{” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کہنے کے بعد کسی اور کی عبادت، اس کا دین یا اس کا بتایا ہوا زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے کہا ہے:
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را
”جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں، کیونکہ میں {”لا الٰه “} کی مشکلات کو جانتا ہوں۔“
➌ { ثُمَّ اسْتَقَامُوْا:} اس میں سین اور تاء مبالغے کے لیے ہے، یعنی پھر اس پر خوب قائم رہے اور موت تک ڈٹے رہے، کوئی خوف یا لالچ انھیں اس عقیدے اور عمل سے نہ پھیر سکا، جیسا کہ فرمایا: «وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ» [الحجر: ۹۹] ”اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین آ جائے۔“
طبری نے اسود بن ہلال سے روایت کی ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی: «اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا» اور فرمایا: ”اس آیت کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: [قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا مِنْ ذَنْبٍ] ”انھوں نے {” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کہا، پھر گناہ سے بچنے پر ڈٹے رہے۔“ تو انھوں نے فرمایا: [لَقَدْ حَمَلْتُمُوْهُ عَلٰی غَيْرِ الْمَحْمَلِ، قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ثُمَّ لَمْ يَلْتَفِتُوْا إِلٰی إِلٰهٍ غَيْرِهِ] [طبري: ۳۰۷۷۰]”تم نے اسے اس کے اصل محمل کے غیر پر محمول کیا ہے، مقصد {” قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “} کا یہ ہے کہ پھر انھوں نے اس کے سوا کسی اور معبود کی طرف جھانک کر نہیں دیکھا۔“ حاکم نے بھی اسے اسود بن ہلال کے طریق سے روایت کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ دیکھیے مستدرک حاکم میں ”سورۂ حم السجدہ“ کی تفسیر۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں: {”قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا عَلٰی أَدَاءِ فَرَائِضِهِ “} یعنی {” ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “} کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے فرائض کی ادائیگی پر خوب قائم رہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ {” ثُمَّ اسْتَقَامُوْا “} کا مطلب یہ ہے کہ وہ موت تک توحید پر خوب قائم رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلتے رہے اور فرائض ادا کرتے رہے، اگر کوئی کوتاہی یا گناہ ہوا بھی ہو تو انھوں نے توحید و سنت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
➍ سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: [يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! حَدِّثْنِيْ بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ، قَالَ قُلْ رَبِّيَ اللّٰهُ، ثُمَّ اسْتَقِمْ، قَالَ قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ؟ قَالَ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ هٰذَا] [مسند أحمد: 413/3، ح: ۱۵۴۲۵] ”یا رسول اللہ! آپ مجھے ایسا کام بتائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کہہ، میرا رب صرف اللہ ہے، پھر اس پر خوب قائم رہ۔“ میں نے کہا: ”یا رسول اللہ! سب سے خوف ناک چیز جس سے آپ میرے بارے میں ڈرتے ہوں، کیا ہے؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: ”یہ (زبان)۔“ مسند احمد کے محقق حضرات نے اسے صحیح کہا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے، سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: [يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قُلْ لِّيْ فِي الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ، وَ فِيْ حَدِيْثِ أَبِيْ أُسَامَةَ غَيْرَكَ، قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ] [مسلم، الإیمان، باب جامع أوصاف الإسلام: ۳۸] ”یا رسول اللہ! آپ مجھے اسلام میں ایسی بات بتا دیں کہ میں اس کے متعلق آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کہہ، میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر خوب قائم رہ۔“ اس سے معلوم ہوا کہ {” رَبِّيَ اللّٰهُ “} اور {” آمَنْتُ بِاللّٰهِ“} کا مفہوم ایک ہے اور یہ جامع کلمہ ہے، جس میں اسلام کے تمام ارکان آ گئے ہیں، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ کے صحیح مسلم پر باب کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
➎ {تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ …:} ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو۔ بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ {” رَبُّنَا اللّٰهُ “} کہہ کر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول موت کے وقت ہوتا ہے، پھر قبر میں اور آخر میں حشر کے دن ہو گا، حالانکہ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ ان حضرات کی اس تفسیر کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ایمان والوں پر فرشتوں کا نزول نظر نہیں آتا، وہ موت کے وقت نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ وہ نظر نہیں آتے، مگر یقینا دنیا میں بھی اہلِ استقامت پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، جس سے ان کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے، ایمان اور میدان میں انھیں استقامت اور ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے اور وہ ان کے دلوں میں نیکی کی رغبت، برائی سے نفرت اور بہترین خیالات پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں، جیسا کہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے، فرمایا: «اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ (9) وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ» [الأنفال: ۹، ۱۰] ”جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ بے شک میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر ایک خوش خبری اور تاکہ اس کے ساتھ تمھارے دل مطمئن ہوں اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے۔ بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“ اور فرمایا: «اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ اَنِّيْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ» [الأنفال: ۱۲] ”جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں، پس تم ان لوگوں کو جمائے رکھو جو ایمان لائے ہیں، عنقریب میں ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے کفر کیا، رعب ڈال دوں گا۔ پس ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ۔“
فرشتے ایمان والوں پر اترتے ہیں مگر ایک آدھ استثنائی صورت کے علاوہ رسول کے سوا کسی کو نظر نہیں آتے اور جب تک یہ مادی زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور مادیت کے پردے چاک نہیں ہو جاتے تب تک فرشتوں کا نزول اسی صورت میں ہوتا ہے۔ البتہ مرنے کے ساتھ ہی جب یہ پردے اور حجاب اٹھ جائیں گے تو فرشتے موت کے وقت، پھر قبر میں، پھر قیامت میں ہر جگہ یقینا انسانوں کو نظر آئیں گے اور ایمان والوں کو ان الفاظ میں تسلی دیں گے جن کا ان آیات میں ذکر ہے۔ دنیا میں اگر فرشتے نظر آنا شروع ہو جائیں تو امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، اس لیے یہاں وہ اسی وقت عام لوگوں کو نظر آتے ہیں جب وہ عذاب لے کر آتے ہیں اور امتحان کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ حجر کی آیت (۸) کی تفسیر۔
فرشتوں کا ایمان والوں پر اترنا ایسے ہی ہے جیسے کفار اور خبیث لوگوں پر شیاطین کا نزول ہے کہ وہ ان کے دلوں میں گندے خیالات اور فاسد عقائد ڈالتے اور برائی پر ابھارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ (221) تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ (222) يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَ» [الشعراء: ۲۲۱ تا ۲۲۳] ”کیا میں تمھیں بتاؤں شیاطین کس پر اترتے ہیں۔ وہ ہر زبردست جھوٹے، سخت گناہ گار پر اترتے ہیں۔ وہ سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹے ہیں۔“ اور فرمایا: «وَ اِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِيٰٓـِٕهِمْ۠ لِيُجَادِلُوْكُمْ» [الأنعام: ۱۲۱] ”اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔“ اور فرمایا: «وَ اِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّيْ جَارٌ لَّكُمْ» [الأنفال: ۴۸] ” اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنا دیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقینا میں تمھارا حمایتی ہوں۔“
➏ { اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا:} مفسر عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں: ”یعنی جب فرشتے ڈٹ جانے والوں پر نازل ہوتے ہیں تو انھیں یہ تلقین کرتے ہیں یا ان کے دل میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی چیرہ دست ہوں ان سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور حق پرستی کی وجہ سے جو مظالم تم پر ڈھائے جا رہے ہیں ان پر رنج نہ کرو، کیونکہ اللہ نے تمھارے لیے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی سب نعمتیں ہیچ ہیں۔ اور موت کے وقت بھی فرشتے ہر مومن سے یہی کلمات کہتے ہیں، اس وقت وہ فرشتوں کو دیکھتا بھی ہے اور ان کی بات سمجھتا بھی ہے، تو اس وقت ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو اس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ جنت تمھاری منتظر ہے اور دنیا میں جنھیں تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے بھی رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم تمھارے ولی اور رفیق ہیں۔“ (تیسیر القرآن)
➐ دنیا میں انسانوں کے ساتھ کئی طرح کے فرشتے مقرر ہیں، جن میں کراماً کاتبین بھی ہیں (دیکھیے انفطار: ۱۰ تا ۱۲) اور آفات و مصائب سے حفاظت کرنے والے فرشتے بھی۔ (دیکھیے رعد: ۱۱) یہ فرشتے مومن و کافر سب کے ساتھ ہیں، مگر جن فرشتوں کا ان آیات میں ذکر ہے یہ صرف اہلِ ایمان و استقامت کے ساتھ خاص ہیں، انھی پر اترتے ہیں اور انھی کو حوصلہ دیتے، نیکیوں کی رغبت دلاتے اور خیر کا الہام کرتے ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
30۔ 1 یعنی ایک اللہ وحدہ لا شریک رب بھی وہی اور معبود بھی وہی یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔ 30۔ 2 یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان و توحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا بعض نے استقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ایسی بات بتلا دیں کہ آپ کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قل آمنت باللہ ثم استقم (صحیح مسلم کتاب الایمان) کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر۔ 30۔ 3 یعنی موت کے وقت، بعض کہتے ہیں، فرشتے یہ خوشخبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھتے وقت۔ 30۔ 4 یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال و اولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔ 30۔ 5 یعنی دنیا میں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اسقامت اور اس کا انجام ٭٭
جن لوگوں نے زبانی اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا یعنی اس کی توحید کا اقرار کیا۔ پھر اس پر جمے رہے یعنی فرمان الٰہی کے ماتحت اپنی زندگی گزاری۔ چنانچہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرما کر وضاحت کی کہ بہت لوگوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کر کے پھر کفر کر لیا۔ جو مرتے دم تک اس بات پر جما رہا وہ ہے جس نے اس پر استقامت کی }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3250،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں۔“
ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”تم نے اسے غلط سمجھایا۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کر کے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کون سی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ ”توحید اللہ پر تا عمر قائم رہنا۔“
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ”واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں۔“ قتادہ رحمہ اللہ یہ دعا مانگا کرتے تھے «اَللَّهُمَّ اَنْتَ رَبُّنـَا فَارْزُقْـنَا الْاِسْتِقَامَةَ» یعنی ”اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما۔“
استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلائیے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا }۔ اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:38] امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں۔“
ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”تم نے اسے غلط سمجھایا۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کر کے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کون سی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ ”توحید اللہ پر تا عمر قائم رہنا۔“
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ”واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں۔“ قتادہ رحمہ اللہ یہ دعا مانگا کرتے تھے «اَللَّهُمَّ اَنْتَ رَبُّنـَا فَارْزُقْـنَا الْاِسْتِقَامَةَ» یعنی ”اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما۔“
استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے کہا ہے { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلائیے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا }۔ اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:38] امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں۔
ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ تم اب آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو بے خوف رہو تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو۔ تمہارے اہل و عیال، مال و متاع کی دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے۔ ہم تمہارے خلیفہ ہیں۔ تمہیں ہم خوشخبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوئیں۔
حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں } }۔۱؎ [مسند احمد:287/4:صحیح] یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے۔
حضرت ثابت رحمہ اللہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا ”ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مومن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہو جا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے۔“
غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہو جائے گا۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہو جائے گی۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہو گا۔ الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے، ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں، حشر میں، میدان قیامت میں، پل صراط پر، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا۔ جو خواہش ہو گی پوری ہو گی، یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے۔
حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں } }۔۱؎ [مسند احمد:287/4:صحیح] یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے۔
حضرت ثابت رحمہ اللہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا ”ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مومن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہو جا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے۔“
غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہو جائے گا۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہو جائے گی۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہو گا۔ الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے، ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں، حشر میں، میدان قیامت میں، پل صراط پر، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا۔ جو خواہش ہو گی پوری ہو گی، یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے۔
سیدنا سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوتی ہے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں ملائے۔“ اس پر سعید رضی اللہ عنہ نے پوچھا ”کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے؟“ فرمایا ”ہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اپنے اپنے مراتب کے مطابق درجے پائیں گے تو دنیا کے اندازے سے جمعہ والے دن انہیں ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت ملے گی۔ جب سب جمع ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اس کا عرش ظاہر ہو گا۔ وہ سب جنت کے باغیچے میں نور لولو یاقوت زبرجد اور سونے چاندی کے منبروں پر بیٹھیں گے، جو نیکیوں کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں لیکن جنتی ہونے کے اعتبار سے کوئی کسی سے کمتر نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوں گے لیکن اپنی جگہ اتنے خوش ہوں گے کہ کرسی والوں کو اپنے سے افضل مجلس میں نہیں جانتے ہوں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں ہاں دیکھو گے۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا ’ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا؟ ‘،وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر؟ کہے گا ہ’ اں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا ‘۔ یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ ’ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لیے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو ‘۔
پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہو گی۔ بلکہ انعام ہو گا۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہو گا۔
اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ تروتازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے۔ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقیناً ہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے } }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:2549،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے }۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مومن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:6507] یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسنادیں ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں ہاں دیکھو گے۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا ’ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا؟ ‘،وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر؟ کہے گا ہ’ اں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا ‘۔ یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ ’ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لیے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو ‘۔
پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہو گی۔ بلکہ انعام ہو گا۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہو گا۔
اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ تروتازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے۔ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقیناً ہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے } }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:2549،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے }۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مومن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:6507] یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسنادیں ہیں۔