(آیت 23) {وَذٰلِكُمْظَنُّكُمُالَّذِيْظَنَنْتُمْبِرَبِّكُمْ …:”ذٰلِكُمْ“} کی خبر{”ظَنُّكُمْ“} معرفہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ”یہی تمھارا گمان تھا“ کیا گیا ہے۔ {”أَرْدٰييُرْدِيْ“} (افعال) ہلاک کرنا۔ یعنی تمھارے اسی باطل گمان اور غلط عقیدے نے کہ اللہ تعالیٰ کو تمھارے بہت سے اعمال کا علم نہیں ہوتا، تمھیں ہلاک کر دیا، کیونکہ اس سے تم اس کی نافرمانی پر دلیر ہو گئے اور خسارا پانے والوں میں سے ہو گئے۔ یاد رہے کہ گمراہی کے اسباب میں سے بہت بڑا سبب صحیح غور و فکر نہ کرنا اور محض گمان کے پیچھے چلتے رہنا ہے۔ مشرکین کی اصل گمراہی بھی یہی تھی، جیسا کہ فرمایا: «اِنْيَّتَّبِعُوْنَاِلَّاالظَّنَّ»[الأنعام: ۱۱۶]”وہ تو گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے۔“ اور فرمایا: «يَظُنُّوْنَبِاللّٰهِغَيْرَالْحَقِّظَنَّالْجَاهِلِيَّةِ» [آل عمران: ۱۵۴]”وہ اللہ کے بارے میں ناحق جاہلیت کا گمان کر رہے تھے۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
23۔ 1 یعنی تمہارے اس اعتقاد فاسد اور گمان باطل نے کہ اللہ کو ہمارے بہت سے عملوں کا علم نہیں ہوتا تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا کیونکہ اس کی وجہ سے تم ہر قسم کا گناہ کرنے میں دلیر اور بےخوف ہوگئے تھے اس کی شان نزول میں ایک روایت ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ کے پاس دو قرشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قرشی جمع ہوئے فربہ بدن قلیل الفہم ان میں سے ایک نے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہماری باتیں اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے کہا ہماری جہری باتیں سنتا ہے اور سری باتیں نہیں سنتا ایک اور نے کہا اگر وہ ہماری جہری باتیں سنتا ہے تو ہماری سری باتیں بھی یقینا سنتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت وما کنتم تسترون نازل فرمائی (صحیح بخاری، تفسیر سورة حم السجدۃ)