وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں، چار دن میں، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا (سب) چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیے اوراس میں برکت رکھ دی اوراس میں (رہنے والوں کی) غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں، ضرورت مندوں کے لیے یکساں طور پر
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 10) ➊ { وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ: ” رَوَاسِيَ “ } کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حجر (۱۹) اور سورۂ انبیاء (۳۱)۔
➋ { مِنْ فَوْقِهَا:} اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پورے کے پورے زمین کے اندر گاڑ دینے کے بجائے ان کا ایک حصہ زمین کے اوپر رکھا۔ اس میں بے شمار حکمتیں اور آدمی کے لیے فائدے ہیں، کیونکہ اگر پہاڑ پورے ہی زمین کے اندر ہوتے تو آدمی برف کے ان ذخیروں سے فیض یاب نہ ہو سکتا جو پہاڑ محفوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی جنگلوں اور دریاؤں کے یہ سلسلے ہوتے۔ اس کے علاوہ بے شمار سونے، چاندی اور دوسری دھاتوں، گیسوں اور ہیرے جواہرات سے محروم رہتا جو وہ پہاڑوں کے زمین سے اوپر ہونے کی وجہ سے نکالتا ہے۔
➌ { وَ بٰرَكَ فِيْهَا:} یعنی اس میں خیر کی بے شمار اشیاء کے خزانے رکھ دیے، جن میں درخت اور پودے بھی شامل ہیں۔ مٹی، پتھر، دھاتیں، گیسیں اور دوسرے وہ بے شمار عناصر بھی جو زمین میں موجود ہیں۔ چرند پرند، درندے اور آبی جانور بھی، پوری زمین کو گھیرے ہوئے ہوا بھی اور اس کے تقریباً ستر (۷۰) فی صد حصے پر مشتمل پانی بھی، جن پر زندگی کا دارو مدار ہے اور جن پر ہزاروں لاکھوں سال گزرنے کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ہر دن نئی سے نئی برکت کا ظہور ہوتا ہے۔ بتاؤ، اللہ کے سوا کون ہے جس نے ان میں سے ایک ہی چیز پیدا کی ہو، جس کی وجہ سے تم نے اسے اپنا حاجت روا اور خدا بنا لیا؟
➍ {وَ قَدَّرَ فِيْهَاۤ اَقْوَاتَهَا: ”أَقْوَاتٌ“ ”قُوْتٌ“} کی جمع ہے، غذا، خوراک اور روزی۔ زمین کی غذاؤں سے مراد اس میں رہنے والی تمام مخلوقات کی غذائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لیے اس کے حسب حال اس کی ضرورت کے مطابق پورے اندازے کے ساتھ رکھ دیں، کسی مخلوق کی غذا کی کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دیکھیے سورۂ حجر (۱۹ تا ۲۱)۔
➎ { فِيْۤ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ:} یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوںمیں ہوئی ہے۔ (دیکھیے اعراف: ۵۴۔ یونس: ۳۔ ہود: ۷۔ فرقان: ۵۹۔ سجدہ: ۴۔ ق: ۳۸۔ حدید: ۴) جب کہ ان آیات سے ان کی پیدائش آٹھ دنوںمیں ظاہر ہو رہی ہے، اس لیے کہ پہلے زمین کو دو دنوں میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، پھر چار دنوں میں اس کے اوپر پہاڑ گاڑنے اور اس میں غذائیں رکھنے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد والی آیات میں دو دنوں میں آسمانوں کو پورا کرنے کا ذکر فرمایا، تو یہ کل آٹھ دن بنتے ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ زیر تفسیر آیت میں مذکور {” اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ “} (چار دن) میں پہلے دو دن بھی شامل ہیں، یعنی زمین کی پیدائش اور اس میں پہاڑ گاڑنے اور غذائیں رکھنے کا کام کل چار دن میں ہوا۔ اس کے بعد دو دنوں میں آسمانوں کی پیدائش کا کام پورا ہوا، یہ کل چھ دن بنتے ہیں۔ مفسر شنقیطی نے فرمایا: ”اس آیت کی یہ تفسیر جو ہم نے کی ہے اس کے علاوہ کوئی تفسیر کسی طرح بھی درست نہیں۔“
➏ { سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ:} یعنی اللہ تعالیٰ نے روزی کا سوال کرنے والوں کے لیے، خواہ وہ زبان حال سے مانگیں یا زبان قال سے، ان کی خوراکیں پورے اندازے کے ساتھ زمین میں رکھ دی ہیں اور اس کا اندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ مزید دیکھیے سورۂ ابراہیم کی آیت (۳۴): «وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ» کی تفسیر۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اپنی ہر ضرورت کا سوال اللہ تعالیٰ سے کر رہی ہے اور وہ ہر لمحے اسے پورا کر رہا ہے، جیساکہ فرمایا: «يَسْـَٔلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ» [الرحمن: ۲۹] ”اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔“
➋ { مِنْ فَوْقِهَا:} اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پورے کے پورے زمین کے اندر گاڑ دینے کے بجائے ان کا ایک حصہ زمین کے اوپر رکھا۔ اس میں بے شمار حکمتیں اور آدمی کے لیے فائدے ہیں، کیونکہ اگر پہاڑ پورے ہی زمین کے اندر ہوتے تو آدمی برف کے ان ذخیروں سے فیض یاب نہ ہو سکتا جو پہاڑ محفوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی جنگلوں اور دریاؤں کے یہ سلسلے ہوتے۔ اس کے علاوہ بے شمار سونے، چاندی اور دوسری دھاتوں، گیسوں اور ہیرے جواہرات سے محروم رہتا جو وہ پہاڑوں کے زمین سے اوپر ہونے کی وجہ سے نکالتا ہے۔
➌ { وَ بٰرَكَ فِيْهَا:} یعنی اس میں خیر کی بے شمار اشیاء کے خزانے رکھ دیے، جن میں درخت اور پودے بھی شامل ہیں۔ مٹی، پتھر، دھاتیں، گیسیں اور دوسرے وہ بے شمار عناصر بھی جو زمین میں موجود ہیں۔ چرند پرند، درندے اور آبی جانور بھی، پوری زمین کو گھیرے ہوئے ہوا بھی اور اس کے تقریباً ستر (۷۰) فی صد حصے پر مشتمل پانی بھی، جن پر زندگی کا دارو مدار ہے اور جن پر ہزاروں لاکھوں سال گزرنے کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ہر دن نئی سے نئی برکت کا ظہور ہوتا ہے۔ بتاؤ، اللہ کے سوا کون ہے جس نے ان میں سے ایک ہی چیز پیدا کی ہو، جس کی وجہ سے تم نے اسے اپنا حاجت روا اور خدا بنا لیا؟
➍ {وَ قَدَّرَ فِيْهَاۤ اَقْوَاتَهَا: ”أَقْوَاتٌ“ ”قُوْتٌ“} کی جمع ہے، غذا، خوراک اور روزی۔ زمین کی غذاؤں سے مراد اس میں رہنے والی تمام مخلوقات کی غذائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لیے اس کے حسب حال اس کی ضرورت کے مطابق پورے اندازے کے ساتھ رکھ دیں، کسی مخلوق کی غذا کی کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دیکھیے سورۂ حجر (۱۹ تا ۲۱)۔
➎ { فِيْۤ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ:} یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوںمیں ہوئی ہے۔ (دیکھیے اعراف: ۵۴۔ یونس: ۳۔ ہود: ۷۔ فرقان: ۵۹۔ سجدہ: ۴۔ ق: ۳۸۔ حدید: ۴) جب کہ ان آیات سے ان کی پیدائش آٹھ دنوںمیں ظاہر ہو رہی ہے، اس لیے کہ پہلے زمین کو دو دنوں میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، پھر چار دنوں میں اس کے اوپر پہاڑ گاڑنے اور اس میں غذائیں رکھنے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد والی آیات میں دو دنوں میں آسمانوں کو پورا کرنے کا ذکر فرمایا، تو یہ کل آٹھ دن بنتے ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ زیر تفسیر آیت میں مذکور {” اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ “} (چار دن) میں پہلے دو دن بھی شامل ہیں، یعنی زمین کی پیدائش اور اس میں پہاڑ گاڑنے اور غذائیں رکھنے کا کام کل چار دن میں ہوا۔ اس کے بعد دو دنوں میں آسمانوں کی پیدائش کا کام پورا ہوا، یہ کل چھ دن بنتے ہیں۔ مفسر شنقیطی نے فرمایا: ”اس آیت کی یہ تفسیر جو ہم نے کی ہے اس کے علاوہ کوئی تفسیر کسی طرح بھی درست نہیں۔“
➏ { سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ:} یعنی اللہ تعالیٰ نے روزی کا سوال کرنے والوں کے لیے، خواہ وہ زبان حال سے مانگیں یا زبان قال سے، ان کی خوراکیں پورے اندازے کے ساتھ زمین میں رکھ دی ہیں اور اس کا اندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ مزید دیکھیے سورۂ ابراہیم کی آیت (۳۴): «وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ» کی تفسیر۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اپنی ہر ضرورت کا سوال اللہ تعالیٰ سے کر رہی ہے اور وہ ہر لمحے اسے پورا کر رہا ہے، جیساکہ فرمایا: «يَسْـَٔلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ» [الرحمن: ۲۹] ”اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
10۔ 1 یعنی پہاڑوں کو زمین میں سے ہی پیدا کر کے ان کو اس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔ 10۔ 2 یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اور دیگر اسی قسم کی اشیاء کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے 10۔ 3 اقوات، قوت غذا، خوراک کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوارک اس میں مقدر کردی ہے یا بندوبست کردیا ہے اور رب کی اس تقدیر یا بندوبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی کوئی قلم اسے رقم نہیں کرسکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسے گن نہیں سکتا بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہوسکتیں تاکہ ہر علاقے کی یہ مخصوص پیداوار ان ان علاقوں کی تجارت و معیشت کی بنیادیں بن جائیں چناچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اور بالکل حقیقت ہے۔ 10۔ 4 یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اور وحی کے دو دن سارے دن ملا کر یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔ 10۔ 5 سوآء کا مطلب ہے۔ ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ یہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لئے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
تخلیق کائنات کا مرحلہ وار ذکر ٭٭
ہر چیز کا خالق ہرچیز کا مالک ہرچیز پر حاکم ہرچیز پر قادر صرف اللہ ہے۔ پس عبادتیں بھی صرف اسی کی کرنی چاہئیں۔ اس نے زمین جیسی وسیع مخلوق کو اپنی کمال قدرت سے صرف دو دن میں پیدا کر دیا ہے۔ تمہیں نہ اس کے ساتھ کفر کرنا چاہے نہ شرک۔ جس طرح سب کا پیدا کرنے والا وہی ایک ہے۔ ٹھیک اسی طرح سب کا پالنے والا بھی وہی ایک ہے۔ یہ تفصیل یاد رہے کہ اور آیتوں «إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ» ۱؎ [7-الأعراف:54] میں زمین و آسمان کا چھ دن میں پیدا کرنا بیان ہوا ہے۔ اور یہاں اس کی پیدائش کا وقت الگ بیان ہو رہا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ پہلے زمین بنائی گئی۔
عمارت کا قاعدہ یہی ہے کہ پہلے بنیادیں اور نیچے کا حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر اوپر کا حصہ اور چھت بنائی جاتی ہے۔ چنانچہ کلام اللہ شریف کی ایک اور آیت میں ہے «هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ» ۱؎ [2-البقرة:29] ’ اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین میں جو کچھ ہے پیدا کر کے پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی اور انہیں ٹھیک سات آسمان بنا دیئے ‘۔
ہاں سورۃ النازعات میں «أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ بَنَاهَا رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ» ۱؎ [79-النازعات:27-33] ہے پہلے آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے کہ زمین کو اس کے بعد بچھایا۔ اس سے مراد زمین میں سے پانی چارہ نکالنا اور پہاڑوں کا گاڑنا ہے جیسے کہ اس کے بعد کا بیان ہے۔ یعنی پیدا پہلے زمین کی گئی پھر آسمان پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا۔ لہٰذا دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہیں۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { ایک شخص نے عبداللہ بن عباس سے پوچھا کی بعض آیتوں میں مجھے کچھ اختلاف سا نظر آتا ہے چنانچہ ایک آیت میں ہے «فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاءَلُوْنَ» ۱؎ [23-المؤمنون:101] یعنی ’ قیامت کے دن آپس کے نسب نہ ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کرے گا ‘۔ دوسری آیت میں ہے «وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاءَلُوْنَ» ۱؎ [37-الصافات:27] یعنی ’ بعض آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھ گچھ کریں گے ‘۔ ایک آیت میں ہے «وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا» ۱؎ [4-النسآء:42] یعنی ’ اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں ‘ }۔
عمارت کا قاعدہ یہی ہے کہ پہلے بنیادیں اور نیچے کا حصہ تیار کیا جاتا ہے پھر اوپر کا حصہ اور چھت بنائی جاتی ہے۔ چنانچہ کلام اللہ شریف کی ایک اور آیت میں ہے «هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ» ۱؎ [2-البقرة:29] ’ اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین میں جو کچھ ہے پیدا کر کے پھر آسمانوں کی طرف توجہ فرمائی اور انہیں ٹھیک سات آسمان بنا دیئے ‘۔
ہاں سورۃ النازعات میں «أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ بَنَاهَا رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ» ۱؎ [79-النازعات:27-33] ہے پہلے آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے کہ زمین کو اس کے بعد بچھایا۔ اس سے مراد زمین میں سے پانی چارہ نکالنا اور پہاڑوں کا گاڑنا ہے جیسے کہ اس کے بعد کا بیان ہے۔ یعنی پیدا پہلے زمین کی گئی پھر آسمان پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا۔ لہٰذا دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہیں۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { ایک شخص نے عبداللہ بن عباس سے پوچھا کی بعض آیتوں میں مجھے کچھ اختلاف سا نظر آتا ہے چنانچہ ایک آیت میں ہے «فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاءَلُوْنَ» ۱؎ [23-المؤمنون:101] یعنی ’ قیامت کے دن آپس کے نسب نہ ہوں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کرے گا ‘۔ دوسری آیت میں ہے «وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاءَلُوْنَ» ۱؎ [37-الصافات:27] یعنی ’ بعض آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر پوچھ گچھ کریں گے ‘۔ ایک آیت میں ہے «وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا» ۱؎ [4-النسآء:42] یعنی ’ اللہ سے کوئی بات چھپائیں گے نہیں ‘ }۔
{ دوسری آیت میں ہے کہ مشرکین کہیں گے «وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ» ۱؎ [6-الأنعام:23] ’ اللہ کی قسم ہم نے شرک نہیں کیا ‘۔ ایک آیت میں ہے زمین کو آسمان کے بعد بچھایا «وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا» ۱؎ [79-النازعات:30] دوسری آیت «قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْ» ۱؎ [3-آل عمران:15]، میں پہلے زمین کی پیدائش پھر آسمان کی پیدائش کا ذکر ہے۔ ایک تو ان آیتوں کا صحیح مطلب بتائے جس سے اختلاف اٹھ جائے۔ دوسرے یہ جو فرمایا ہے «وَكَانَ اللَّه غَفُورًا رَحِيمًا» ۱؎ [4-النساء:96]، «عَزِيزًا حَكِيمًا» ۱؎ [4-النساء:56]، «سَمِيعًا بَصِيرًا» ۱؎ [4-النساء:58] تو کیا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسا تھا؟ اس کے جواب میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ”جن دو آیتوں میں سے ایک میں آپس کا سوال جواب ہے اور ایک میں ان کا انکار ہے۔ یہ دو وقت ہیں صور میں دو نفخے پھونکے جائیں گے ایک کے بعد آپس کی پوچھ گچھ کچھ نہ ہو گی ایک کے بعد آپس میں ایک دوسرے سے سوالات ہوں گے۔ جن دو دوسری آیتوں میں ایک میں بات کے نہ چھپانے کا اور ایک میں چھپانے کا ذکر ہے یہ بھی دو موقعے ہیں جب مشرکین دیکھیں گے کہ موحدوں کے گناہ بخش دیئے گئے تو کہنے لگے کہ ہم مشرک نہ تھے۔ لیکن جب منہ پر مہر لگ جائیں گی اور اعضاء بدن گواہی دینے لگیں گے تو اب کچھ بھی نہ چھپے گا۔ اور خود اپنے کرتوت کے اقراری ہو جائیں گے اور کہنے لگیں گے کاش کے ہم زمین کے برابر کر دیئے جاتے۔ آسمان و زمین کی پیدائش کی ترتیب بیان میں بھی دراصل کچھ اختلاف نہیں پہلے دو دن میں زمین بنائی گئی پھر آسمان کو دو دن میں بنایا گیا پھر زمین کی چیزیں پانی، چارہ، پہاڑ، کنکر، ریت، جمادات، ٹیلے وغیرہ دو دن میں پیدا کئے یہی معنی لفظ «دَحَاھَا» کے ہیں۔ پس زمین کی پوری پیدائش چار دن میں ہوئی۔ اور دو دن میں آسمان۔ اور جو نام اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مقرر کئے ہیں ان کا بیان فرمایا ہے وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ اللہ کا کوئی ارادہ پورا ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ پس قرآن میں ہرگز اختلاف نہیں۔ اس کا ایک ایک لفظ اللہ کی طرف سے ہے“ }۔
{ زمین کو اللہ تعالیٰ نے دو دن میں پیدا کیا ہے یعنی اتوار اور پیر کے دن، اور زمین میں زمین کے اوپر ہی پہاڑ بنا دیئے اور زمین کو اس نے بابرکت بنایا، تم اس میں بیج بوتے ہو درخت اور پھل وغیرہ اس میں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور اہل زمین کو جن چیزوں کی احتیاج ہے وہ اسی میں سے پیدا ہوتی رہتی ہیں زمین کی یہ درستگی منگل بدھ کے دن ہوئی۔ چار دن میں زمین کی پیدائش ختم ہوئی۔ جو لوگ اس کی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے انہیں پورا جواب مل گیا۔ زمین کے ہر حصے میں اس نے وہ چیز مہیا کر دی جو وہاں والوں کے لائق تھی۔ مثلاً عصب یمن میں۔ سابوری میں ابور میں۔ طیالسہ رے میں۔ یہی مطلب آیت کے آخری جملے کا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس کی جو حاجت تھی اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے مہیا کر دی۔ اس معنی کی تائید اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے «وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ» ۱؎ [14-ابراھیم:34] ’ تم نے جو جو مانگا اللہ نے تمہیں دیا ‘ }۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
پھر جناب باری نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی وہ دھویں کی شکل میں تھا، زمین کے پیدا کئے جانے کے وقت پانی کے جو بخارات اٹھے تھے۔ اب دونوں سے فرمایا کہ ’ یا تو میرے حکم کو مانو اور جو میں کہتا ہوں ہو جاؤ خوشی سے یا ناخوشی سے ‘، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”مثلاً آسمانوں کو حکم ہوا کہ سورج چاند ستارے طلوع کرے زمین سے فرمایا اپنی نہریں جاری کر اپنے پھل اگا وغیرہ۔ دونوں فرمانبرداری کیلئے راضی خوشی تیار ہو گئے۔ اور عرض کیا کہ ہم مع اس تمام مخلوق کے جسے تو رچانے والا ہے تابع فرمان ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ انہیں قائم مقام کلام کرنے والوں کیلئے کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین کے اس حصے نے کلام کیا جہاں کعبہ بنایا گیا ہے اور آسمان کے اس حصے نے کلام کیا جو ٹھیک اس کے اوپر ہے۔“ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر آسمان و زمین اطاعت گزاری کا اقرار نہ کرتے تو انہیں سزا ہوتی جس کا احساس بھی انہیں ہوتا۔ پس دو دن میں ساتوں آسمان اس نے بنا دیئے یعنی جمعرات اور جمعہ کے دن۔ اور ہر آسمان میں اس نے جو جو چیزیں اور جیسے جیسے فرشتے مقرر کرنے چاہے مقرر فرما دیئے اور دنیا کے آسمان کو اس نے ستاروں سے مزین کر دیا جو زمین پر چمکتے رہتے ہیں اور جو ان شیاطین کی نگہبانی کرتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کیلئے اوپر چڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ تدبیرو اندازہ اس اللہ کا قائم کردہ ہے جو سب پر غالب ہے جو کائنات کے ایک ایک چپے کی ہر چھپی کھلی حرکت کو جانتا ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت میں ہے { یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان و زمین کی پیدائش کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اتوار اور پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور جتنے نفعات اس میں ہیں اور بدھ کے دن درختوں کو پانی کو شہروں کو اور آبادی اور ویرانے کو پیدا کیا تو یہ چار دن ہوئے۔ اسے بیان فرما کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جمعرات والے دن آسمان کو پیدا کیا اور جمعہ کے دن ستاروں کو اور سورج چاند کو اور فرشتوں کو پیدا کیا تین ساعت کے باقی رہنے تک۔ پھر دوسری ساعت میں ہرچیز میں آفت ڈالی جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور تیسری میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا انہیں جنت میں بسایا ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اور آخری ساعت میں وہاں سے نکال دیا }۔ یہودیوں نے کہا اچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ فرمایا: { پھر عرش پر مستوی ہو گیا } انہوں نے کہا سب تو ٹھیک کہا لیکن آخری بات یہ کہی کہ پھر آرام حاصل کیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور یہ آیت اتری «وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ» ۱؎ [50-ق:38-39] یعنی ’ ہم نے آسمان و زمین اور جو ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی، تو ان کی باتوں پر صبر کر ‘ }۔۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:30429:] یہ حدیث غریب ہے۔
اور روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے روز پیدا کیا اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن رکھا درخت پیر والے دن پیدا کئے مکروہات کو منگل کے دن نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جانوروں کو زمین میں جمعرات کے دن پھیلا دیا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت آدم کو پیدا کیا اور کل مخلوقات پوری ہوئی } }۔۱؎ [صحیح مسلم:2789] مسلم اور نسائی میں یہ حدیث ہے لیکن یہ بھی غرائب صحیح میں سے ہے۔ اور امام بخاری نے تاریخ میں اسے معلل بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے بعض راویوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے اسے کعب احبار رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت میں ہے { یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان و زمین کی پیدائش کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اتوار اور پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور جتنے نفعات اس میں ہیں اور بدھ کے دن درختوں کو پانی کو شہروں کو اور آبادی اور ویرانے کو پیدا کیا تو یہ چار دن ہوئے۔ اسے بیان فرما کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جمعرات والے دن آسمان کو پیدا کیا اور جمعہ کے دن ستاروں کو اور سورج چاند کو اور فرشتوں کو پیدا کیا تین ساعت کے باقی رہنے تک۔ پھر دوسری ساعت میں ہرچیز میں آفت ڈالی جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور تیسری میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا انہیں جنت میں بسایا ابلیس کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اور آخری ساعت میں وہاں سے نکال دیا }۔ یہودیوں نے کہا اچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کے بعد کیا ہوا؟ فرمایا: { پھر عرش پر مستوی ہو گیا } انہوں نے کہا سب تو ٹھیک کہا لیکن آخری بات یہ کہی کہ پھر آرام حاصل کیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور یہ آیت اتری «وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ» ۱؎ [50-ق:38-39] یعنی ’ ہم نے آسمان و زمین اور جو ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی، تو ان کی باتوں پر صبر کر ‘ }۔۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:30429:] یہ حدیث غریب ہے۔
اور روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتے کے روز پیدا کیا اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن رکھا درخت پیر والے دن پیدا کئے مکروہات کو منگل کے دن نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جانوروں کو زمین میں جمعرات کے دن پھیلا دیا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت آدم کو پیدا کیا اور کل مخلوقات پوری ہوئی } }۔۱؎ [صحیح مسلم:2789] مسلم اور نسائی میں یہ حدیث ہے لیکن یہ بھی غرائب صحیح میں سے ہے۔ اور امام بخاری نے تاریخ میں اسے معلل بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ اسے بعض راویوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے اسے کعب احبار رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔