ترجمہ و تفسیر — سورۃ الصافات (37) — آیت 2
فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ۙ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
پھر ان کی جو ڈانٹنے والی ہیں! زبردست ڈانٹنا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
پھر ڈانٹنے والوں کی جھڑک کر
ترجمہ محمد جوناگڑھی
پھر پوری طرح ڈانٹنے والوں کی

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 2){ فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا:} فاء اس بات کی دلیل ہے کہ ان سے مراد بھی فرشتے ہیں، جن کا ذکر پچھلی آیت میں ہے۔ { زَجْرًا } تاکید کے لیے ہے، یعنی پھر ان فرشتوں کی قسم! جن کی ڈانٹ معمولی نہیں بلکہ ایسی زبردست ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوقات، خواہ کتنی بے پناہ قوت کی مالک ہوں، ان کے سامنے دم نہیں مار سکتیں، مثلاً موت کے فرشتے۔ (دیکھیے انعام: ۹۳) ہواؤں اور بادلوں پر مامور فرشتے جو انھیں ہانکتے اور چلاتے ہیں۔ (دیکھیے رعد: ۱۳) پہاڑوں پر مامور فرشتہ، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف سے واپسی پر اللہ کے حکم سے آپ کو پیش کش کی کہ اگر آپ فرمائیں تو میں آپ کی قوم کے کفار کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر ملیامیٹ کر دوں۔ صور میں پھونکنے والا فرشتہ، جس کی ایک ہی ڈانٹ سے تمام لوگ قبروں سے نکل کر زمین کے اوپر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏فَاِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ (13) فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ» ‏‏‏‏ [النازعات: ۱۳، ۱۴] پس وہ تو صرف ایک ہی ڈانٹ ہو گی۔ پس یک لخت وہ زمین کے اوپر موجود ہوں گے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

فرشتوں کا تذکرہ ٭٭
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان تینوں قسموں سے مراد فرشتے ہیں۔ اور بھی اکثر حضرات کا یہی قول ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرشتوں کی صفیں آسمانوں پر ہیں۔ مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہمیں سب لوگوں پر تین باتوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی کی گئی ہیں۔ ہمارے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ اور پانی کے نہ ملنے کے وقت زمین کی مٹی ہمارے لیے وضو کے قائم مقام کی گئی ہے } }۔۱؎ [صحیح مسلم:522]‏‏‏‏
مسلم وغیرہ میں ہے کہ { ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: { تم اس طرح صفیں نہیں باندھتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں }۔ ہم نے کہا وہ کس طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اگلی صفوں کو وہ پورا کرتے جاتے ہیں اور صفیں بالکل ملا لیا کرتے ہیں } }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:430]‏‏‏‏
ڈانٹنے والوں سے مراد سدی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ابر اور بادل کو ڈانٹ کر احکام دے کر ادھر سے ادھر لے جانے والے فرشتے ہیں۔
ربیع بن انس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں قرآن جس چیز سے روکتا ہے وہ اسی سے بندش کرتے ہیں۔ ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والے فرشتے وہ ہیں جو اللہ کا پیغام بندوں کے پاس لاتے ہیں جیسے فرمان ہے «فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا عُذْرًا أَوْ نُذْرًا» ‏‏‏‏ ۱؎ [77-المرسلات:6،5]‏‏‏‏ یعنی ’ وحی اتارنے والے فرشتوں کی قسم جو عذر کو ٹالنے یا آگاہ کرنے کے لیے ہوتی ہے ‘۔
ان قسموں کے بعد جس چیز پر یہ قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ تم سب کا معبود بر حق ایک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی آسمان و زمین کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا مالک و متصرف ہے۔ اسی نے آسمان میں ستارے اور چاند سورج کو مسخر کر رکھا ہے، جو مشرق سے ظاہر ہوتے ہیں مغرب میں غروب ہوتے ہیں۔ مشرقوں کا ذکر کر کے مغربوں کا ذکر اس کی دلالت موجود ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
دوسری آیت میں ذکر کر بھی دیا ہے فرمان ہے «رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ» ۱؎ [55-الرحمن:17]‏‏‏‏ یعنی ’ جاڑے گرمیوں کی طلوع و غروب کی جگہ کا رب وہی ہے ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل