ترجمہ و تفسیر — سورۃ سبأ (34) — آیت 19
فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ﴿۱۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تو انھوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمارے سفروں کے درمیان دوری پیدا کر دے، اور انھوں نے اپنی جانوںپر ظلم کیا تو ہم نے انھیں کہانیا ں بنا دیا اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، ہر طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا، بلاشبہ اس میں ہر بہت صبر کرنے والے، بہت شکرکرنے والے کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تو انہوں نے دعا کی کہ اے پروردگار ہماری مسافتوں میں بُعد (اور طول پیدا) کردے اور (اس سے) انہوں نے اپنے حق میں ظلم کیا تو ہم نے (انہیں نابود کرکے) ان کے افسانے بنادیئے اور انہیں بالکل منتشر کردیا۔ اس میں ہر صابر وشاکر کے لئے نشانیاں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
لیکن انہوں نے پھر کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کردے چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا اس لئے ہم نے انہیں (گزشتہ) فسانوں کی صورت میں کردیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیئے۔ بلاشبہ ہر ایک صبروشکر کرنے والے کے لئے اس (ماجرے) میں بہت سی عبرتیں ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 19) ➊ { فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا …:} اس کی تفسیر تین طرح سے کی گئی ہے، ایک یہ کہ انھیں یہ نعمتیں راس نہ آئیں، وہ امن و عافیت کی قدر کرنا بھول گئے اور کبرو غرور میں آکر کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی سفر ہے کہ ہر تھوڑی مسافت کے بعد بستی پائی جاتی ہے۔ مزا تو جب آتا کہ دور دراز علاقوں، چٹیل میدانوں، دشوار گزار جنگلوں اور پُرخطر وادیوں سے گزر ہوتا۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: آرام میں مستی یہ آئی، لگے تکلیف مانگنے کہ جیسے اور ملکوں کی خبر سنتے ہیں کہ سفروں میں پانی نہیں ملتا، آبادی نہیں ملتی، ویسا ہم کو بھی ہو، یہ بڑی ناشکری ہوئی۔ (موضح) ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من و سلویٰ اور دوسری سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا۔
دوسری تفسیر ابن عاشور کی ہے، وہ فرماتے ہیں: میرے نزدیک زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ بات اپنے انبیاء اور صالح لوگوں کے جواب میں کہی، جب وہ انھیں شرک سے منع کرتے تھے، کیونکہ وہ انھیں نصیحت کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اتنی نعمتیں کی ہیں، سفر اتنا آسان بنا دیا اور اس قدر خوش حالی عطا فرمائی ہے، سو تم پر اس کا شکر کرنا اور اس اکیلے کی عبادت کرنا واجب ہے، تو انھوں نے آگے سے یہ بات کہی جو آیت میں مذکور ہے، جیسا کہ کفارِ قریش نے کہا تھا: «‏‏‏‏اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ» ‏‏‏‏ [الأنفال: ۳۲] اے اللہ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَاَعْرَضُوْا» ‏‏‏‏ انھوں نے منہ موڑ لیا ظاہر ہے منہ کسی دعوت ہی سے موڑا جاتا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان کی اس بات کے بعد فرمایا: «وَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ» ‏‏‏‏ اور انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا یعنی انھوں نے نا شکری اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، قرآن میں ظلم کا لفظ اکثر شرک کے لیے آیا ہے، کیونکہ اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔
تیسری تفسیر وہ ہے جس کی طرف تقریباً تمام مفسرین نے اشارہ فرمایا ہے کہ یہ ان کی زبانِ حال کی بات ہے۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ گویا زبانِ حال سے کہتا ہے کہ پروردگارا! میں ان نعمتوں کا مستحق نہیں ہوں۔ اسی طرح جو قوم اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتی اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتی ہے، وہ گویا اپنے رب سے دعا کرتی ہے کہ اے پروردگارا! یہ نعمتیں ہم سے واپس لے لے، کیونکہ ہم اس قابل نہیں ہیں۔
➋ { وَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ:} یعنی انھوں نے کفر و شرک پر اصرار کیا۔
➌ { فَجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِيْثَ …:} یعنی ہم نے انھیں اس طرح برباد اور منتشر کیا کہ وہ بکھرنے کے لیے کہاوت اور ضرب المثل بن گئے۔ مختلف قبائل کے سیلاب سے بچ نکلنے والے لوگ اپنا وطن چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رخ کیا، اوس اور خزرج کے قبیلے یثرب میں جا بسے، خزاعہ نے جدہ کے قریب تہامہ کے علاقہ میں سکونت اختیار کی۔ ازد کا قبیلہ عمان میں جا کر آباد ہوا، لخم اور کندہ بھی نکلنے پر مجبور ہوئے، حتیٰ کہ سبا نام کی کوئی قوم دنیا میں موجود نہ رہی، صرف کہاوتوں اور افسانوں میں اس کا ذکر باقی رہ گیا۔
➍ {اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ:} قوم سبا پر لازم تھا کہ ان بے حساب نعمتوں کی قدر کرتے اور ان کا شکر ادا کرتے جن کا ان آیات میں ذکر ہوا، پھر جب عذاب آیا تو لازم تھا کہ گناہوں سے توبہ کرتے اور مصیبت پر صبر کرتے۔ ان کے سردار ملک کے نظام کو دوبارہ درست کرنے کی کوشش کرتے، امن بحال کرتے، پہلے کی طرح زرعی ضرورتوں اور سفری سہولتوں کا بندوبست کرتے، مگر وہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر مختلف علاقوں میں بکھر گئے اور انھوں نے نہ اللہ کے انعامات کا شکر کیا، نہ مصیبت آنے پر تائب ہوئے اور نہ صبر سے وہاں رہ کر ان کے سرداروں نے ملک کی اصلاح کی کوشش کی، بلکہ جس کا جدھر منہ آیا نکل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر اور شکر لازم و ملزوم ہیں۔ شکر وہی کرتا ہے جو تقدیر میں سے اپنے حصے پر صابر ہو اور صبر وہی کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی قدر جانتا اور ان کا شکر ادا کرتا ہو جو اسے حاصل ہیں۔ سبا کے واقعات میں نشانیاں تو ہر شخص کے لیے ہیں، مگر ہر صبّار و شکور کے لیے بہت سی نشانیاں اور عبرتیں اس لیے بتائیں کہ وہی ہیں جو اپنی مصیبتوں پر بہت صبر اور نعمتوں پر بہت شکر کرتے ہیں اور دوسروں پر آنے والی مصیبتوں اور انھیں ملنے والی نعمتوں پر ان کے رویے اور اس کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ نہ صبر کرتے ہیں، نہ شکر اور نہ ہی دوسروں کے حال سے انھیں عبرت ہوتی ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

19۔ 1 یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کردے مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان و ویران جنگلات اور صحراؤں سے ہمیں گزرنا پڑے گرمیوں میں دھوب کی شدت اور سردیوں میں بیخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔ 19۔ 2 یعنی انھیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔ 19۔ 3 یعنی انھیں متفرق اور منتشر کردیا، چناچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جا آباد ہوئے، کوئی یثرب و مکہ آگیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہی

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

قوم سبا پر اللہ کی نعمتیں ٭٭
ان پر جو نعمتیں تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ قریب قریب آبادیاں تھیں۔ کسی مسافر کو اپنے سفر میں توشہ یا پانی ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ تھی۔ ہر ہر منزل پر پختہ مزے دار تازے میوے خوشگوار میٹھا پانی موجود ہر رات کو کسی بستی میں گزار لیں اور راحت و آرام امن و امان سے جائیں آئیں
کہتے ہیں کہ یہ بستیاں صنعاء کے قرب و جوار میں تھیں، باعد کی دوسری قرأت «‏‏‏‏بعدہ» ‏‏‏‏۔
اس راحت و آرام سے وہ پھول گئے اور جس طرح بنو اسرائیل نے من و سلویٰ کے بدلے لہسن، پیاز وغیرہ طلب کیا تھا انہوں نے بھی دور دراز کے سفر طے کرنے کی چاہت کی تاکہ درمیان میں جنگل بھی آئیں غیر آباد جگہیں بھی آئیں کھانے پینے کا لطف بھی آئے۔ قوم موسیٰ علیہ السلام کی اس طلب نے ان پر ذلت و مسکنت ڈالی اسی طرح انہیں بھی فراخی روزی کے بعد ہلاکت ملی۔ بھوک اور خوف میں پڑے۔ اطمینان اور امن غارت ہوا۔ انہوں نے کفر کر کے خود اپنا بگاڑا۔ اب ان کی کہانیاں رہ گئیں۔ لوگوں میں ان کے افسانے رہ گئے۔ تتر بتر ہو گئے۔ یہاں تک کہ جو قوم تین تیرہ ہو جائے تو عرب میں انہیں سبائیوں کی مثل سناتے ہیں۔
عکرمہ رحمہ اللہ ان کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں ایک کاہنہ اور ایک کاہن تھا جن کے پاس جنات ادھر ادھر کی خبریں لایا کرتے تھے اس کاہن کو کہیں پتہ چل گیا کہ اس بستی کی ویرانی کا زمانہ قریب آ گیا ہے اور یہاں کے لوگ ہلاک ہونے والے ہیں۔ تھا یہ بڑا مالدار خصوصاً جائیداد بہت ساری تھی اس نے سوچا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ان حویلیوں اور مکانات اور باغات کی نسبت کیا انتظام کرنا چاہیے؟
آخر ایک بات اس کی سمجھ میں آ گئی اس کے سسرال کے لوگ بہت سارے تھے اور وہ قبیلہ بھی جری ہونے کے علاوہ مالدار تھا۔ اس نے اپنے لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا سنو! کل لوگ میرے پاس جمع ہو جائیں گے میں تجھے کسی کام کو کہوں گا تو انکار کر دینا میں تجھے برا بھلا کہوں گا تو بھی مجھے میری گالیوں کا جواب دینا میں اٹھ کر تجھے تھپڑ ماروں گا تو بھی اس کے جواب میں مجھے تھپڑ مارنا اس نے کہا ابا جی مجھ سے یہ کیسے ہو سکے گا؟ کاہن نے کہا تم نہیں سمجھتے ایک ایسا ہی اہم معاملہ درپیش ہے اور تمہیں میرا حکم مان لینا چاہئے۔ اس نے اقرار کیا دوسرے دن جب کہ اس کے پاس اس کے ملنے جلنے والے سب جمع ہو گئے اس نے اپنے اس لڑکے سے کسی کام کو کہا اس نے صاف انکار کر دیا اس نے اسے گالیاں دیں تو اس نے بھی سامنے گالیاں دیں۔ یہ غصے میں اٹھا اور اسے مارا لڑکے نے بھی پلٹ کر اسے پیٹا یہ اور غضبناک ہوا اور کہنے لگا چھری لاؤ تو میں اسے ذبح کروں گا تمام لوگ گھبرا گئے ہر چند سمجھایا لیکن یہ یہی کہتا رہا کہ میں تو اسے ذبح کروں گا لوگ دوڑے بھاگے اور لڑکے کے ننھیال والوں کو خبر کی وہ سب آ گئے اول تو منت سماجت کی منوانا چاہا لیکن یہ کب مانتا تھا انہوں نے کہا آپ اسے کوئی اور سزا دیجئے اس کے بدلے ہمیں جو جی چاہے سزا دیجئے لیکن اس نے کہا میں تو اسے لٹا کر باقاعدہ اپنے ہاتھوں سے ذبح کروں گا انہوں نے کہا ایسا آپ نہیں کر سکتے اس سے پہلے ہم آپ کو مار ڈالیں گے۔
اس نے کہا اچھا جب یہاں تک بات پہنچ گئی ہے تو میں ایسے شہر میں نہیں رہنا چاہتا جہاں میرے اور میری اولاد کے درمیان اور لوگ پڑیں مجھ سے میرے مکانات جائیدادیں اور زمینیں خرید لو میں یہاں سے کہیں اور چلا جاتا ہوں چنانچہ اس نے سب کچھ بیچ ڈالا اور قیمت نقد وصول کر لی جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اپنی قوم کو خبر دی سنو عذاب اللہ آ رہا ہے زوال کا وقت قریب پہنچ چکا ہے اب تم میں سے جو محنت کر کے لمبا سفر کر کے نئے گھروں کا آرزو مند ہو تو وہ عمان چلا جائے اور جو کھانے پینے کا شوقین ہو وہ بصرہ چلا جائے اور جو مزیدار کھجوریں باغات میں بیٹھ کر آزادی سے کھانا چاہتا ہو وہ مدینے چلا جائے۔ قوم کو اس کی باتوں کا یقین تھا جسے جو جگہ اور جو چیز پسند تھی وہ اسی طرف منہ اٹھائے بھاگا۔ بعض عمان کی طرف، بعض بصرہ کی طرف، بعض مدینے کی طرف۔ اس طرف تین قبیلے چلے تھے۔ اوس اور خزرج اور بنو عثمان جب یہ لوگ بطن مر میں پہنچے تو بنو عثمان نے کہا ہمیں یہ جگہ بہت پسند ہے اب ہم آگے نہیں جائیں گے۔ چنانچہ یہ یہیں بس گئے اور اسی وجہ سے انہیں خزاعہ کہا گیا۔ کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے اور اوس و خزرج برابر مدینے پہنچے اور یہاں آ کر قیام کیا۔
یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے۔ جس کاہن کا اس میں ذکر ہے اس کا نام عمرو بن عامر ہے یہ یمن کا ایک سردار تھا اور سبا کے بڑے لوگوں میں سے تھا اور ان کا کاہن تھا۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ سب سے پہلے یہی یمن سے نکلا تھا اس لیے کہ سد مارب کو کھوکھلا کرتے ہوئے اس نے چوہوں کو دیکھ لیا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ اب یمن کی خیر نہیں۔ یہ دیوار گری اور سیلاب سب تہ و بالا کرے گا تو اس نے اپنے سب سے چھوٹے لڑکے کو وہ مکر سکھایا جس کا ذکر اوپر گزرا اس وقت اس نے غصے میں کہا کہ میں ایسے شہر میں رہنا پسند نہیں کرتا میں اپنی جائیدادیں اور زمینیں اسی وقت بیچتا ہوں لوگوں نے کہا عمرو کے اس غصے کو غنیمت جانو چنانچہ سستا مہنگا سب کچھ بیچ ڈالا اور فارغ ہو کر چل پڑا قبیلہ اسد بھی اس کے ساتھ ہو لیا راستے میں عکہ ان سے لڑے برابر برابر کی لڑائی رہی۔ جس کا ذکر عباس بن مرداس اسلمی کے شعروں میں بھی ہے۔ پھر یہ یہاں سے چل کر مختلف شہروں میں پہنچ گئے۔ آل جفتہ بن عمرو بن عامر شام میں گئے اوس و خزرج مدینے میں خزاعہ مرمیں، از مراۃ سراۃ میں۔ ازد عمان عمان میں یہاں سیلاب آیا جس نے مارب کے بند کو توڑ دیا۔ سدی نے اس قصے میں بیان کیا ہے کہ اس نے اپنے مقابلے کے لیے اپنے بیٹے کو نہیں بلکہ اپنے بھتیجے کو کہا تھا۔ بعض اہل علم کا بیان ہے کہ اس کی عورت جس کا نام طریفہ تھا اس نے اپنی کہانت سے یہ بات معلوم کر کے سب کو بتائی تھی۔
اور روایت میں ہے کہ عمان میں غسانی اور ازد بھی ہلاک کر دیئے گئے۔ میٹھے اور ٹھنڈے پانی کی ریل پیل پھلوں اور کھیتوں کی بےشمار روزی کے باوجود سیل عرم سے یہ حالت ہو گئی کہ ایک ایک لقمے کو اور ایک بوند پانی کو ترس گئے یہ پکڑ اور عذاب یہ تنگی اور سزا جو انہیں پہنچی اس سے ہر صابر و شاکر عبرت حاصل کر سکتا ہے کہ اللہ کی نافرمانیاں کس طرح انسان کو گھیر لیتی ہیں عافیت کو ہٹا کر آفت کو لے آتی ہیں۔ مصیبتوں پر صبر، نعمتوں پر شکر کرنے والے اس پر دلائل قدرت پائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے مومن کے لیے تعجب ناک فیصلہ کیا ہے اگر اسے راحت ملے اور یہ شکر کرے تو اجر پائے۔ اور اگر اسے مصیبت پہنچے اور صبر کرے تو اجر پائے۔ غرض مومن کو ہر حالت پر اجر و ثواب ملتا ہے اس کا ہر کام نیک ہے۔ یہاں تک کہ محبت کے ساتھ جو لقمہ اٹھا کر یہ اپنی بیوی کے منہ میں دے اس پر بھی اسے ثواب ملتا ہے۔ } ۱؎ [مسند احمد:177/1:حسن]‏‏‏‏ (‏‏‏‏مسند احمد)
بخاری و مسلم میں ہے آپ فرماتے ہیں { تعجب ہے کہ مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہر قضا بھلائی کے لیے ہوتی ہے اگر اسے راحت اور خوشی پہنچتی ہے تو شکر کر کے بھلائی حاصل کرتا ہے اور اگر برائی اور غم پہنچتا ہے تو یہ صبر کرتا ہے اور بدلہ حاصل کرتا ہے۔ یہ نعمت تو صرف مومن کو ہی حاصل ہے کہ جس کی ہر حالت بہتری اور بھلائی والی ہے۔ } ۱؎ [صحیح مسلم:2999]‏‏‏‏
مطرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں صبر و شکر کرنے والا بندہ کتنا ہی اچھا ہے کہ جب نعمت اسے ملے تو شکر کرے اور جب زحمت پہنچے تو صبر کرے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل