یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ ﴿۱۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہ اس کے لیے بناتے تھے جو وہ چاہتا تھا، بڑی بڑی عمارتیں اور مجسّمے اور حوضوں جیسے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں۔ اے داؤد کے گھر والو! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔اور بہت تھوڑے میرے بندوں میں سے پورے شکر گزار ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی قلعے اور مجسمے اور (بڑے بڑے) لگن جیسے تالاب اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی رہیں۔ اے داؤد کی اولاد (میرا) شکر کرو اور میرے بندوں میں شکرگزار تھوڑے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جو کچھ سلیمان چاہتے وه جنات تیار کردیتے مثلا قلعے اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں، اے آل داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو، میرے بندوں میں سے شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 13) ➊ {يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ:” مَحَارِيْبَ “ ”مِحْرَابٌ“} کی جمع ہے، یہ {”حَرْبٌ“} سے {”مِفْعَالٌ“} کے وزن پر ہے، جو آلہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اصل معنی اس کا جنگ کا آلہ یا ہتھیار ہے، پھر یہ لفظ کئی معانی میں استعمال ہونے لگا، جن سب معانی میں کسی نہ کسی طرح جنگ کا مفہوم شامل ہے۔ چنانچہ قلعہ اور بڑی عالی شان عمارت کو بھی ”محراب“ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں رہ کر دشمن سے جنگ کی جاتی ہے۔ عبادت کے لیے خاص کمرے کو بھی ”محراب“ کہتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان سے جنگ میں مددگار ہے، جیسا کہ زکریا علیہ السلام کے متعلق فرمایا: «فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ هُوَ قَآىِٕمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ» [آل عمران: ۳۹] ” تو فرشتوں نے اسے آواز دی، جب کہ وہ عبادت خانے میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔“ داؤد علیہ السلام کی عبادت کے لیے مخصوص جگہ کو بھی ”محراب“ کہا گیا ہے، فرمایا: «وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ» [صٓ: ۲۱] ”اور کیا تیرے پاس جھگڑنے والوں کی خبر آئی ہے، جب وہ دیوار پھاند کر عبادت خانے میں آ گئے۔“
سلیمان علیہ السلام کی سیرت میں سب سے نمایاں وصف جہاد ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں انسانوں، جنّوں اور پرندوں کی فوجیں عطا فرما رکھی تھیں۔ جنگی ضروریات کی تیاری اور فراہمی سے انھیں خاص دلچسپی تھی، چنانچہ گھوڑوں کی دوڑ کروانے کے بعد ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے کا ذکر سورۂ ص (۳۰ تا ۳۳) میں ہے۔ یہ سن کر کہ زمین کے کسی خطے پر شرک کا غلبہ اور مشرک عورت کی حکومت ہے، فوراً جہاد کے لیے تیار ہو جانے کا ذکر ملکہ سبا کے قصے میں ہے۔ (دیکھیے سورۂ نمل) ظاہر ہے اس کے لیے ہر قسم کا جنگی سازو سامان تیار کرنا ضروری تھا، اسے ذخیرہ کرنے کے لیے بڑی بڑی عمارتوں کی ضرورت تھی، دشمن کے علاقے میں پیش قدمی، اس پر حملے اور جنگ کے لیے ان شہروں کے نقشے اور اہم عمارتوں کے ماڈل بہم پہنچانا ضروری تھا۔ بڑی تعداد میں فوجوں کے لیے کھانا پکانے، تقسیم کرنے اور اس کے لیے برتن مہیا کرنے کا کام بہت بڑا کام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام کاموں کے لیے انسانوں اور پرندوں کے علاوہ جنّوں کو بھی سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا۔ اگر ان میں سے کوئی ان کے حکم سے سرتابی کرتا، تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگ کے شعلوں کے ساتھ سزا دی جاتی تھی۔ چنانچہ وہ ان کی جنگی ضروریات کے لیے دور دراز سے ہر قسم کا عمارتی سامان پتھر، مرمر، لکڑی اور لوہا وغیرہ مہیا کرتے اور ان کے ساتھ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے۔ ان عمارتوں میں مسجد اقصیٰ کی عمارت بھی شامل تھی۔
➋ {وَ تَمَاثِيْلَ:} یہ {”تِمْثَالٌ“} کی جمع ہے، کسی دوسری چیز کی مثل جو چیز بنائی جائے، خواہ جان دار کی ہو یا بے جان کی، ماڈل اور مجسّمہ کی شکل میں ہو، یا کاغذ پر تصویر کی شکل میں ہو۔ جنّات سلیمان علیہ السلام کے لیے کس قسم کی تماثیل بناتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تفصیل نہیں آئی، بعض مفسرین نے اس کی تفصیل میں جو جان دار اشیاء، مثلاً شیر، چیتے وغیرہ کی تصاویر یا مجسّمے بنانے کا ذکر کیا ہے، وہ ان کی سنی سنائی بات ہے، کیونکہ نہ انھوں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے، نہ وہ سلیمان علیہ السلام کے ساتھ رہے ہیں اور نہ اپنی معلومات کا ذریعہ بتاتے ہیں، جو سلیمان علیہ السلام تک پہنچتا ہو۔
آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ جنات سلیمان علیہ السلام کے حکم سے وہ محاریب اور تماثیل بناتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ ظاہر ہے اللہ کا اتنا جلیل القدر پیغمبر شیروں، ہاتھیوں اور چیتوں یا انسانوں کے لاحاصل مجسّمے بنوائے، ممکن ہی نہیں، خصوصاً اس لیے کہ وہ جس تورات کے احکام پر عامل تھے اس میں جان دار اشیاء کی مورتیاں بنانا حرام تھا۔ حرمت کا یہ حکم اب بھی تورات میں متعدد مقامات پر موجود ہے: ”تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا، نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔“ (خروج، باب: ۲۰، آیت: ۴) اور ایک جگہ ہے: ”تم اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو، اس لیے کہ میں خداوند تمھارا خدا ہوں۔“ (احبار، باب: ۲۶، آیت ۱) ایک اور جگہ ہے: ”تانہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو، جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے پرندے یا زمین کے رینگنے والے جان دار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہو، ملتی ہو۔“ (استثناء، باب: ۴، آیت: ۱۶ تا ۱۸)۔
تورات کی ان صریح آیات سے واضح ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی طرف جان دار اشیاء کے مجسّمے بنانے کی نسبت ان پر بہتان ہے، جو اسی طرح ان پر لگایا گیا ہے جیسے ان پر جادوگر ہونے کا یا بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کربت پرستی کا بہتان لگایا گیا ہے، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے اور تورات کے احکام پر پوری طرح عامل تھے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہی ہے کہ سلیمان علیہ السلام جو عمارت بنوانا چاہتے یا جن علاقوں کے نقشے یا عمارتوں کے ماڈل بنوانا چاہتے تھے، جنّات ان کے حکم سے تیار کر دیتے تھے۔ اس آیت سے جان دار اشیاء کی تصاویر یا مجسّموں کا جواز نکالنا ہرگز درست نہیں، کیونکہ ان کی حرمت متفق علیہ مسئلہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جان دار اشیاء کی تصاویر کی صریح حرمت اور ان پر وعید کے لیے صحیح بخاری اور دوسری کتب احادیث کا مطالعہ فرمائیں۔ اختصار کے پیش نظر انھیں یہاں نقل نہیں کیا گیا۔
➌ { وَ جِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ: ” جِفَانٍ “ ”جَفْنَةٌ“} کی جمع ہے، کھانے کا بڑا برتن، لگن، تھال۔ {”اَلْجَوَابِ“} اصل میں {”اَلْجَوَابِيْ“ } ہے جو {”جَابِيَةٌ“} کی جمع ہے ”حوض“۔ {” قُدُوْرٍ “ ”قِدْرٌ“} کی جمع ہے، ہانڈی، دیگ۔ {” رٰسِيٰتٍ “ ”رَسَا يَرْسُوْ“} سے اسم فاعل مؤنث {”رَاسِيَةٌ“} کی جمع ہے۔ قرآن میں پہاڑوں کو {” رٰسِيٰتٍ “} کہا گیا ہے، زمین میں گڑے ہوئے۔ سلیمان علیہ السلام کی فوجوں کی کثرت کے پیش نظر عام دیگیں جتنی بھی ہوں کافی نہیں تھیں، نہ چھوٹے چھوٹے برتن کھانا کھلانے کے لیے کافی تھے، اس لیے جنّات سلیمان علیہ السلام کے لیے ان کی خواہش کے مطابق پکانے کے لیے تانبے وغیرہ کی یا پہاڑوں کو تراش کر پتھر کی اتنی بڑی بڑی دیگیں تیار کرتے تھے جو ایک ہی جگہ جمی رہتیں۔ انھیں اٹھا کر دوسری جگہ لے جایا نہیں جا سکتا تھا۔ ان میں سے ہر دیگ میں ہزاروں آدمیوں کا کھانا پکتا تھا اور مجاہدین کو اجتماعی طور پر کھانا کھلانے کے لیے جنّات سلیمان علیہ السلام کی حسبِ منشا اتنے بڑے بڑے لگن یا تھال بناتے تھے جو حوضوں کی طرح لمبے چوڑے ہوتے، جن پر ایک وقت میں بہت سے آدمی کھانا کھا لیتے تھے۔
ایک ہی برتن میں بہت سے آدمیوں کے کھانا کھانے کا یہ معمول ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھی موجود تھا۔ عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْعَةٌ يَحْمِلُهَا أَرْبَعَةُ رِجَالٍ يُقَالُ لَهَا الْغَرَّاءُ فَلَمَّا أَضْحَوْا وَسَجَدُوا الضُّحٰی أُتِيَ بِتِلْكَ الْقَصْعَةِ يَعْنِيْ وَقَدْ ثُرِدَ فِيْهَا فَالْتَفُّوْا عَلَيْهَا فَلَمَّا كَثُرُوْا جَثَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ مَا هٰذِهِ الْجِلْسَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰهَ تَعَالیٰ جَعَلَنِيْ عَبْدًا كَرِيْمًا وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا عَنِيْدًا ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كُلُوْا مِنْ حَوَالَيْهَا وَ دَعُوْا ذِرْوَتَهَا يُبَارَكْ فِيْهَا] [أبو داوٗد، الأطعمۃ، باب ما جاء في الأکل من أعلی الصحفۃ: ۳۷۷۳، قال الألباني صحیح] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک لگن یا تھال تھا، جسے چار آدمی اٹھاتے تھے، اسے ”غراء“ کہتے تھے۔ جب ضحی ہوئی اور لوگوں نے ضحی کی نماز پڑھ لی تو وہ لگن لایا گیا، اس میں گوشت کے سالن میں روٹی بھگو کر ثرید بنایا گیا تھا۔ لوگ اس کے گرد بیٹھ گئے، جب لوگ زیادہ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل ہو گئے، ایک اعرابی نے کہا: ”یہ کیا بیٹھنے کا طریقہ ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے کریم بندہ بنایا ہے، بدبخت و سرکش نہیں بنایا۔“ پھر فرمایا: ”اس کے اردگرد سے کھاؤ، درمیان کو چھوڑے رکھو کہ اس میں برکت ہو۔“ ظاہر ہے جس برتن کو چار آدمی اٹھائیں، اس میں سو دو سو آدمیوں کا کھانا تو ضرور ہو گا اور جو برتن حوض جیسا کھلا ہو، اس میں سے کھانے والوں کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ سلیمان علیہ السلام کے لیے جنّوں کے ان کاموں کے بیان کا مقصد ان کی سلطنت کی وسعت، جہاد کے لیے ان کی افواج کی کثرت، ان کی وسعت قلب، سخاوت اور انسانوں کے علاوہ جنّات پر ان کی ہیبت کا بیان ہے کہ یہ سب کچھ ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا۔
➍ { اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا: ” اِعْمَلُوْۤا اٰلَ “} سے پہلے {”قُلْنَا“} اور {” اٰلَ دَاوٗدَ “} سے پہلے حرف ندا {”يَا“} محذوف ہے، جس کی وجہ سے {” اٰلَ “} کا لفظ منصوب ہے۔ {” شُكْرًا “} مفعول لہ ہے۔ آل داؤد میں ان کے گھر والوں کے ساتھ وہ خود بھی شامل ہیں، یعنی ہم نے کہا، اے داؤد کے گھر والو! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔ معلوم ہوا آدمی پر اللہ تعالیٰ کے انعام جتنے زیادہ ہوں، اسے اتنی ہی زیادہ اعمالِ صالحہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یقینا نماز کے لیے اتنا قیام کرتے کہ آپ کے دونوں پاؤں، یا (یہ کہا کہ) آپ کی دونوں پنڈلیوں پر ورم آ جاتا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس بارے میں) کہا جاتا تو فرماتے: [أَفَلَا أَكُوْنُ عَبْدًا شَكُوْرًا؟] ”تو کیا میں پورا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟“ [بخاري، التہجد، باب قیام النبي صلی اللہ علیہ وسلم اللیل: ۱۱۳۰] داؤد علیہ السلام کی نماز، ان کے روزوں اور جہاد کا تذکرہ اس سورت کی آیت (۱۰) میں گزر چکا ہے۔
➎ { وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ: ” الشَّكُوْرُ “} مبالغے کا صیغہ ہے، اس لیے ترجمہ ”پورے شکر گزار“ کیا ہے۔ اس میں ترغیب ہے کہ تم بھی میرے ان قلیل بندوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جو پورے شکر گزار ہیں۔
سلیمان علیہ السلام کی سیرت میں سب سے نمایاں وصف جہاد ہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں انسانوں، جنّوں اور پرندوں کی فوجیں عطا فرما رکھی تھیں۔ جنگی ضروریات کی تیاری اور فراہمی سے انھیں خاص دلچسپی تھی، چنانچہ گھوڑوں کی دوڑ کروانے کے بعد ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے کا ذکر سورۂ ص (۳۰ تا ۳۳) میں ہے۔ یہ سن کر کہ زمین کے کسی خطے پر شرک کا غلبہ اور مشرک عورت کی حکومت ہے، فوراً جہاد کے لیے تیار ہو جانے کا ذکر ملکہ سبا کے قصے میں ہے۔ (دیکھیے سورۂ نمل) ظاہر ہے اس کے لیے ہر قسم کا جنگی سازو سامان تیار کرنا ضروری تھا، اسے ذخیرہ کرنے کے لیے بڑی بڑی عمارتوں کی ضرورت تھی، دشمن کے علاقے میں پیش قدمی، اس پر حملے اور جنگ کے لیے ان شہروں کے نقشے اور اہم عمارتوں کے ماڈل بہم پہنچانا ضروری تھا۔ بڑی تعداد میں فوجوں کے لیے کھانا پکانے، تقسیم کرنے اور اس کے لیے برتن مہیا کرنے کا کام بہت بڑا کام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام کاموں کے لیے انسانوں اور پرندوں کے علاوہ جنّوں کو بھی سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا۔ اگر ان میں سے کوئی ان کے حکم سے سرتابی کرتا، تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگ کے شعلوں کے ساتھ سزا دی جاتی تھی۔ چنانچہ وہ ان کی جنگی ضروریات کے لیے دور دراز سے ہر قسم کا عمارتی سامان پتھر، مرمر، لکڑی اور لوہا وغیرہ مہیا کرتے اور ان کے ساتھ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے۔ ان عمارتوں میں مسجد اقصیٰ کی عمارت بھی شامل تھی۔
➋ {وَ تَمَاثِيْلَ:} یہ {”تِمْثَالٌ“} کی جمع ہے، کسی دوسری چیز کی مثل جو چیز بنائی جائے، خواہ جان دار کی ہو یا بے جان کی، ماڈل اور مجسّمہ کی شکل میں ہو، یا کاغذ پر تصویر کی شکل میں ہو۔ جنّات سلیمان علیہ السلام کے لیے کس قسم کی تماثیل بناتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تفصیل نہیں آئی، بعض مفسرین نے اس کی تفصیل میں جو جان دار اشیاء، مثلاً شیر، چیتے وغیرہ کی تصاویر یا مجسّمے بنانے کا ذکر کیا ہے، وہ ان کی سنی سنائی بات ہے، کیونکہ نہ انھوں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے، نہ وہ سلیمان علیہ السلام کے ساتھ رہے ہیں اور نہ اپنی معلومات کا ذریعہ بتاتے ہیں، جو سلیمان علیہ السلام تک پہنچتا ہو۔
آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ جنات سلیمان علیہ السلام کے حکم سے وہ محاریب اور تماثیل بناتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ ظاہر ہے اللہ کا اتنا جلیل القدر پیغمبر شیروں، ہاتھیوں اور چیتوں یا انسانوں کے لاحاصل مجسّمے بنوائے، ممکن ہی نہیں، خصوصاً اس لیے کہ وہ جس تورات کے احکام پر عامل تھے اس میں جان دار اشیاء کی مورتیاں بنانا حرام تھا۔ حرمت کا یہ حکم اب بھی تورات میں متعدد مقامات پر موجود ہے: ”تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا، نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔“ (خروج، باب: ۲۰، آیت: ۴) اور ایک جگہ ہے: ”تم اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ کوئی تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو، اس لیے کہ میں خداوند تمھارا خدا ہوں۔“ (احبار، باب: ۲۶، آیت ۱) ایک اور جگہ ہے: ”تانہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو، جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے پرندے یا زمین کے رینگنے والے جان دار یا مچھلی سے جو زمین کے نیچے پانی میں رہتی ہو، ملتی ہو۔“ (استثناء، باب: ۴، آیت: ۱۶ تا ۱۸)۔
تورات کی ان صریح آیات سے واضح ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی طرف جان دار اشیاء کے مجسّمے بنانے کی نسبت ان پر بہتان ہے، جو اسی طرح ان پر لگایا گیا ہے جیسے ان پر جادوگر ہونے کا یا بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کربت پرستی کا بہتان لگایا گیا ہے، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے اور تورات کے احکام پر پوری طرح عامل تھے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہی ہے کہ سلیمان علیہ السلام جو عمارت بنوانا چاہتے یا جن علاقوں کے نقشے یا عمارتوں کے ماڈل بنوانا چاہتے تھے، جنّات ان کے حکم سے تیار کر دیتے تھے۔ اس آیت سے جان دار اشیاء کی تصاویر یا مجسّموں کا جواز نکالنا ہرگز درست نہیں، کیونکہ ان کی حرمت متفق علیہ مسئلہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جان دار اشیاء کی تصاویر کی صریح حرمت اور ان پر وعید کے لیے صحیح بخاری اور دوسری کتب احادیث کا مطالعہ فرمائیں۔ اختصار کے پیش نظر انھیں یہاں نقل نہیں کیا گیا۔
➌ { وَ جِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ: ” جِفَانٍ “ ”جَفْنَةٌ“} کی جمع ہے، کھانے کا بڑا برتن، لگن، تھال۔ {”اَلْجَوَابِ“} اصل میں {”اَلْجَوَابِيْ“ } ہے جو {”جَابِيَةٌ“} کی جمع ہے ”حوض“۔ {” قُدُوْرٍ “ ”قِدْرٌ“} کی جمع ہے، ہانڈی، دیگ۔ {” رٰسِيٰتٍ “ ”رَسَا يَرْسُوْ“} سے اسم فاعل مؤنث {”رَاسِيَةٌ“} کی جمع ہے۔ قرآن میں پہاڑوں کو {” رٰسِيٰتٍ “} کہا گیا ہے، زمین میں گڑے ہوئے۔ سلیمان علیہ السلام کی فوجوں کی کثرت کے پیش نظر عام دیگیں جتنی بھی ہوں کافی نہیں تھیں، نہ چھوٹے چھوٹے برتن کھانا کھلانے کے لیے کافی تھے، اس لیے جنّات سلیمان علیہ السلام کے لیے ان کی خواہش کے مطابق پکانے کے لیے تانبے وغیرہ کی یا پہاڑوں کو تراش کر پتھر کی اتنی بڑی بڑی دیگیں تیار کرتے تھے جو ایک ہی جگہ جمی رہتیں۔ انھیں اٹھا کر دوسری جگہ لے جایا نہیں جا سکتا تھا۔ ان میں سے ہر دیگ میں ہزاروں آدمیوں کا کھانا پکتا تھا اور مجاہدین کو اجتماعی طور پر کھانا کھلانے کے لیے جنّات سلیمان علیہ السلام کی حسبِ منشا اتنے بڑے بڑے لگن یا تھال بناتے تھے جو حوضوں کی طرح لمبے چوڑے ہوتے، جن پر ایک وقت میں بہت سے آدمی کھانا کھا لیتے تھے۔
ایک ہی برتن میں بہت سے آدمیوں کے کھانا کھانے کا یہ معمول ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھی موجود تھا۔ عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَصْعَةٌ يَحْمِلُهَا أَرْبَعَةُ رِجَالٍ يُقَالُ لَهَا الْغَرَّاءُ فَلَمَّا أَضْحَوْا وَسَجَدُوا الضُّحٰی أُتِيَ بِتِلْكَ الْقَصْعَةِ يَعْنِيْ وَقَدْ ثُرِدَ فِيْهَا فَالْتَفُّوْا عَلَيْهَا فَلَمَّا كَثُرُوْا جَثَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ مَا هٰذِهِ الْجِلْسَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰهَ تَعَالیٰ جَعَلَنِيْ عَبْدًا كَرِيْمًا وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا عَنِيْدًا ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كُلُوْا مِنْ حَوَالَيْهَا وَ دَعُوْا ذِرْوَتَهَا يُبَارَكْ فِيْهَا] [أبو داوٗد، الأطعمۃ، باب ما جاء في الأکل من أعلی الصحفۃ: ۳۷۷۳، قال الألباني صحیح] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک لگن یا تھال تھا، جسے چار آدمی اٹھاتے تھے، اسے ”غراء“ کہتے تھے۔ جب ضحی ہوئی اور لوگوں نے ضحی کی نماز پڑھ لی تو وہ لگن لایا گیا، اس میں گوشت کے سالن میں روٹی بھگو کر ثرید بنایا گیا تھا۔ لوگ اس کے گرد بیٹھ گئے، جب لوگ زیادہ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل ہو گئے، ایک اعرابی نے کہا: ”یہ کیا بیٹھنے کا طریقہ ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے کریم بندہ بنایا ہے، بدبخت و سرکش نہیں بنایا۔“ پھر فرمایا: ”اس کے اردگرد سے کھاؤ، درمیان کو چھوڑے رکھو کہ اس میں برکت ہو۔“ ظاہر ہے جس برتن کو چار آدمی اٹھائیں، اس میں سو دو سو آدمیوں کا کھانا تو ضرور ہو گا اور جو برتن حوض جیسا کھلا ہو، اس میں سے کھانے والوں کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ سلیمان علیہ السلام کے لیے جنّوں کے ان کاموں کے بیان کا مقصد ان کی سلطنت کی وسعت، جہاد کے لیے ان کی افواج کی کثرت، ان کی وسعت قلب، سخاوت اور انسانوں کے علاوہ جنّات پر ان کی ہیبت کا بیان ہے کہ یہ سب کچھ ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا۔
➍ { اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًا: ” اِعْمَلُوْۤا اٰلَ “} سے پہلے {”قُلْنَا“} اور {” اٰلَ دَاوٗدَ “} سے پہلے حرف ندا {”يَا“} محذوف ہے، جس کی وجہ سے {” اٰلَ “} کا لفظ منصوب ہے۔ {” شُكْرًا “} مفعول لہ ہے۔ آل داؤد میں ان کے گھر والوں کے ساتھ وہ خود بھی شامل ہیں، یعنی ہم نے کہا، اے داؤد کے گھر والو! شکر ادا کرنے کے لیے عمل کرو۔ معلوم ہوا آدمی پر اللہ تعالیٰ کے انعام جتنے زیادہ ہوں، اسے اتنی ہی زیادہ اعمالِ صالحہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یقینا نماز کے لیے اتنا قیام کرتے کہ آپ کے دونوں پاؤں، یا (یہ کہا کہ) آپ کی دونوں پنڈلیوں پر ورم آ جاتا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس بارے میں) کہا جاتا تو فرماتے: [أَفَلَا أَكُوْنُ عَبْدًا شَكُوْرًا؟] ”تو کیا میں پورا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟“ [بخاري، التہجد، باب قیام النبي صلی اللہ علیہ وسلم اللیل: ۱۱۳۰] داؤد علیہ السلام کی نماز، ان کے روزوں اور جہاد کا تذکرہ اس سورت کی آیت (۱۰) میں گزر چکا ہے۔
➎ { وَ قَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ: ” الشَّكُوْرُ “} مبالغے کا صیغہ ہے، اس لیے ترجمہ ”پورے شکر گزار“ کیا ہے۔ اس میں ترغیب ہے کہ تم بھی میرے ان قلیل بندوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جو پورے شکر گزار ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
13۔ 1 محاریب محراب کی جمع ہے مطلب ہے بلند محلات، عالی شان عمارتیں یا مساجد و تصویریں۔ یہ تصویریں غیر حیوان چیزوں کی ہوتی تھیں، بعض کہتے ہیں کہ انبیاء ؑ کی تصاویر مسجدوں میں بنائی جاتی تھیں تاکہ انھیں دیکھ کر لوگ بھی عبادت کریں۔ یہ معنی اس صورت میں صحیح ہے جب تسلیم کیا جائے کہ حضرت سلیمان ؑ کی شریعت میں تصویر سازی کی اجازت تھی جو صحیح نہیں۔ تاہم اسلام میں تو نہایت سختی کے ساتھ اس کی ممانعت ہے۔ جفان، جفنۃ کی جمع ہے لگن جواب، جابیۃ کی جمع ہے حوض جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے یعنی حوض جتنے بڑے بڑے لگن قدور دیگیں، راسیات جمی ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیگیں پہاڑوں کو تراش کر بنائی جاتی تھیں جنہیں ظاہر ہے اٹھا کر ادھر ادھر نہیں لے جایا جاسکتا تھا اس میں بیک وقت ہزاروں افراد کا کھانا پک جاتا تھا یہ سارے کام جنات کرتے تھے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اللہ کی نعمتیں اور سلیمان علیہ السلام ٭٭
داؤد علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کو بیان کر کے پھر آپ کے فرزند سلیمان علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کے لئے ہوا کو تابع فرمان بنا دیا۔
مہینے کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی تھی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچا دیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کابل پہنچ گیا۔ تانبے کو بطور پانی کے کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلا دقت لے لیا کریں۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے۔
سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کر دیا وہ جو چاہتے تھے اپنے سامنے ان سے کام لیتے۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان علیہ السلام کی تعمیل سے جی چراتا تھا فوراً آگ میں جلا دیا جاتا۔
ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ } ۱؎ [طبرانی کبیر:214/22:صحیح]۔ یہ حدیث بہت غریب ہے۔
ابن نعیم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کے لئے تو عذاب و ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر۔ اور تیسری قسم انسانی صورتوں میں شیطانی دل رکھنے والے۔
مہینے کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی تھی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچا دیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کابل پہنچ گیا۔ تانبے کو بطور پانی کے کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلا دقت لے لیا کریں۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے۔
سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کر دیا وہ جو چاہتے تھے اپنے سامنے ان سے کام لیتے۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان علیہ السلام کی تعمیل سے جی چراتا تھا فوراً آگ میں جلا دیا جاتا۔
ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ } ۱؎ [طبرانی کبیر:214/22:صحیح]۔ یہ حدیث بہت غریب ہے۔
ابن نعیم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کے لئے تو عذاب و ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر۔ اور تیسری قسم انسانی صورتوں میں شیطانی دل رکھنے والے۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جن ابلیس کی اولاد میں سے ہیں اور انسان آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں دونوں میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں عذاب ثواب میں دونوں شریک ہیں دونوں کے ایمان دار ولی ہیں اور دونوں کے بے ایمان شیطان ہیں،
«محاریب» کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو، گھر کے بہترین حصے کو، مجلس کی صدارت کی جگہ کو۔ بقول مجاہد رحمہ اللہ ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسجدوں کو۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو۔ ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں گھروں کو۔
«تماثیل» تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں۔ بقول قتادہ رحمہ اللہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں۔ «جواب» جمع ہے «جابیہ» کی۔ «جابیہ» اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہے۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ سلیمان علیہ السلام کی بڑی فوج کے لئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہو سکے اور ان کے سامنے لایا جا سکے۔
اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پنے کے ادھر ادھر نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے
«افادتکم النعماء منی ثلاثہ» «یدی ولسانی والضمیر المحجبا»
اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے، زبان سے اور دل سے۔ عبدالرحمٰن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کے لئے کرے۔ شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے۔
«محاریب» کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو، گھر کے بہترین حصے کو، مجلس کی صدارت کی جگہ کو۔ بقول مجاہد رحمہ اللہ ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسجدوں کو۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو۔ ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں گھروں کو۔
«تماثیل» تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں۔ بقول قتادہ رحمہ اللہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں۔ «جواب» جمع ہے «جابیہ» کی۔ «جابیہ» اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہے۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ سلیمان علیہ السلام کی بڑی فوج کے لئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہو سکے اور ان کے سامنے لایا جا سکے۔
اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پنے کے ادھر ادھر نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے
«افادتکم النعماء منی ثلاثہ» «یدی ولسانی والضمیر المحجبا»
اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے، زبان سے اور دل سے۔ عبدالرحمٰن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کے لئے کرے۔ شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے۔
محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے اور نیک عمل ہے۔ آل داؤد دونوں طرح شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ ثابت بنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں داؤد علیہ السلام نے اپنی اہل و عیال، اولاد اور عورتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا تھا۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند داؤد علیہ السلام کی نماز تھی۔ آپ آدھی رات سوتے تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے۔ آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بے روزہ ایک خوبی آپ میں یہ تھی کہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:1131]
ابن ماجہ میں ہے کہ { سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے۔ } ۱؎ [سنن ابن ماجہ:1332،قال الشيخ الألباني:۔ضعیف]
ابن ابی حاتم میں ہے اس موقعہ پر داؤد علیہ السلام کی ایک معطول حدیث مروی ہے۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جناب باری سے عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہو گا؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کر لی جب کہ تو نے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں۔
پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں۔
ابن ماجہ میں ہے کہ { سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے۔ } ۱؎ [سنن ابن ماجہ:1332،قال الشيخ الألباني:۔ضعیف]
ابن ابی حاتم میں ہے اس موقعہ پر داؤد علیہ السلام کی ایک معطول حدیث مروی ہے۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جناب باری سے عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہو گا؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کر لی جب کہ تو نے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں۔
پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں۔