وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ غُدُوُّہَا شَہۡرٌ وَّ رَوَاحُہَا شَہۡرٌ ۚ وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ ؕ وَ مِنَ الۡجِنِّ مَنۡ یَّعۡمَلُ بَیۡنَ یَدَیۡہِ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّزِغۡ مِنۡہُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡہُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِیۡرِ ﴿۱۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور سلیمان کے لیے ہوا کو (تابع کردیا)، اس کا صبح کا چلنا ایک ماہ کا اور شام کا چلنا ایک ماہ کا تھا اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہایا، اور جنوں میں سے کچھ وہ تھے جو اس کے سامنے اس کے رب کے اذن سے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرتا ہم اسے بھڑکتی آگ کا کچھ عذاب چکھاتے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہوا کو (ہم نے) سلیمان کا تابع کردیا تھا اس کی صبح کی منزل ایک مہینے کی راہ ہوتی اور شام کی منزل بھی مہینے بھر کی ہوتی۔ اور ان کے لئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا اور جِنّوں میں سے ایسے تھے جو ان کے پروردگار کے حکم سے ان کے آگے کام کرتے تھے۔ اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم سے پھرے گا اس کو ہم (جہنم کی) آگ کا مزہ چکھائیں گے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کردیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا۔ اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کی ماتحتی میں اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا مزه چکھائیں گے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 12) ➊ {وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ …:} اللہ تعالیٰ کی طرف انابت کرنے والے بندوں میں سے داؤد علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند ارجمند سلیمان علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا۔ وہ ایک مہینے کی راہ دن کے پہلے پہر اور ایک مہینے کی راہ دن کے پچھلے پہر طے کر لیتی تھی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں بحری جہاز موافق ہواؤں کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ آیت میں {”غُدُوٌّ“} سے مراد جانا ہے اور {”رَوَاحٌ“} سے مراد واپسی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک ماہ تک موافق ہوا سلیمان علیہ السلام کے پایۂ تخت سے مشرق کی طرف چلتی تھی، جس کے ذریعے سے ان کے بحری جہاز تجارتی اور دوسرے مقاصد کے لیے مشرق کی طرف روانہ ہوتے تھے، پھر ایک ماہ کے لیے واپسی کے سفر کے لیے مغرب کی طرف چلتی تھی جس سے وہ جہاز واپس فلسطین کی طرف آ جاتے اور یہ مطلب ہے اس آیت کا: «تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا وَ كُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ» [الأنبیاء: ۸۱] ”اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی اور ہم ہر چیز کو جاننے والے تھے۔“ یہ اور اس جیسی تفسیروں کی حقیقت کے لیے دیکھیے سورۂ انبیاء (۸۱)۔
ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ ان میں اس شخصیت کو عطا ہونے والی چیزوں کا ذکر ہے، جس نے یہ دعا کی تھی: «رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ» [صٓ: ۳۵] ”اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔“ اور جس کی فوجوں کے ایک صاحبِ علم نے یمن سے آنکھ جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت لا حاضر کیا تھا۔ موجودہ زمانے میں جتنی ترقی ہوئی ہے، یا آئندہ ہو گی سلیمان علیہ السلام کو عطا کردہ قوتوں کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، پھر اگر ہوا ان کے حکم سے انھیں ایک ماہ کا سفر پہلے پہر اور ایک ماہ کا سفر پچھلے پہر میں طے کروا دے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ رہی اس کی کیفیت کہ ہوا انھیں یہ فاصلہ کیسے طے کرواتی تھی تو وہ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائی اور جو بات معلوم نہ ہو اس کے متعلق تکلّف نہیں کرنا چاہیے۔ سورۂ ص میں فرمایا: «قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ» [صٓ: ۸۶] ”کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔“ مزید دیکھیے سورۂ انبیاء (۸۱)۔
➋ { وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ: ”سَالَ يَسِيْلُ سَيْلًا“} (ض) بہنا۔ {”أَسَالَ يُسِيْلُ إِسَالَةً“} (افعال) بہانا، جاری کرنا۔ {” اَسَلْنَا “} باب افعال کے ماضی معلوم سے جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا، سلیمان علیہ السلام کو وہ نعمت وراثت میں ملی، مزید ان کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا، تاکہ وہ انھیں وافر مقدار میں دستیاب رہے اور ان کے زیرِ فرمان انسان اور جنّ اس سے ان کی اور ان کی افواج کی ضرورت کی ہر چیز، مثلاً ہر قسم کے چھوٹے بڑے برتن اور گھروں کے اندر اور باہر استعمال ہونے والا سامان تیار کرتے رہیں۔ ایک اخبار کے مطابق اب بھی اسرائیل میں یہودی تانبے کے اس مقام کی تلاش میں ہیں۔
➌ { وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ:} سورۂ انبیاء میں ان جنّات کا تذکرہ ”شیاطین“ کے لفظ سے کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سورۂ انبیاء میں مذکورہ شیاطین سے مراد انسانی شیاطین نہیں، بلکہ جنّی شیاطین ہیں۔ وہ جنّات جو کام کرتے تھے ان کا تذکرہ اس مقام کے علاوہ سورۂ انبیاء (۸۲) اور سورۂ ص (۳۷، ۳۸) میں ملاحظہ کریں۔
➍ { وَ مَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا …:} اس کی تفسیر سورۂ انبیاء (۸۲) میں ملاحظہ کریں۔
ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ ان میں اس شخصیت کو عطا ہونے والی چیزوں کا ذکر ہے، جس نے یہ دعا کی تھی: «رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ» [صٓ: ۳۵] ”اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔“ اور جس کی فوجوں کے ایک صاحبِ علم نے یمن سے آنکھ جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت لا حاضر کیا تھا۔ موجودہ زمانے میں جتنی ترقی ہوئی ہے، یا آئندہ ہو گی سلیمان علیہ السلام کو عطا کردہ قوتوں کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، پھر اگر ہوا ان کے حکم سے انھیں ایک ماہ کا سفر پہلے پہر اور ایک ماہ کا سفر پچھلے پہر میں طے کروا دے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ رہی اس کی کیفیت کہ ہوا انھیں یہ فاصلہ کیسے طے کرواتی تھی تو وہ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائی اور جو بات معلوم نہ ہو اس کے متعلق تکلّف نہیں کرنا چاہیے۔ سورۂ ص میں فرمایا: «قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ» [صٓ: ۸۶] ”کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔“ مزید دیکھیے سورۂ انبیاء (۸۱)۔
➋ { وَ اَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ: ”سَالَ يَسِيْلُ سَيْلًا“} (ض) بہنا۔ {”أَسَالَ يُسِيْلُ إِسَالَةً“} (افعال) بہانا، جاری کرنا۔ {” اَسَلْنَا “} باب افعال کے ماضی معلوم سے جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا، سلیمان علیہ السلام کو وہ نعمت وراثت میں ملی، مزید ان کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا، تاکہ وہ انھیں وافر مقدار میں دستیاب رہے اور ان کے زیرِ فرمان انسان اور جنّ اس سے ان کی اور ان کی افواج کی ضرورت کی ہر چیز، مثلاً ہر قسم کے چھوٹے بڑے برتن اور گھروں کے اندر اور باہر استعمال ہونے والا سامان تیار کرتے رہیں۔ ایک اخبار کے مطابق اب بھی اسرائیل میں یہودی تانبے کے اس مقام کی تلاش میں ہیں۔
➌ { وَ مِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖ:} سورۂ انبیاء میں ان جنّات کا تذکرہ ”شیاطین“ کے لفظ سے کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ سورۂ انبیاء میں مذکورہ شیاطین سے مراد انسانی شیاطین نہیں، بلکہ جنّی شیاطین ہیں۔ وہ جنّات جو کام کرتے تھے ان کا تذکرہ اس مقام کے علاوہ سورۂ انبیاء (۸۲) اور سورۂ ص (۳۷، ۳۸) میں ملاحظہ کریں۔
➍ { وَ مَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا …:} اس کی تفسیر سورۂ انبیاء (۸۲) میں ملاحظہ کریں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
12۔ 1 یعنی حضرت سلیمان ؑ مع اعیان سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپ کا حکم ہوتا کہ ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہوجاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے رات تک ایک مہینے جتنی مسافت طے ہوجاتی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوجاتی۔ 12۔ 2 یعنی جس طرح حضرت داؤد ؑ کے لئے لوہا نرم کردیا تھا، حضرت سلیمان ؑ کے لئے تانبے کا چشمہ ہم نے جاری کردیا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں بنائیں۔ 12۔ 3 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سزا قیامت والے دن دی جائے گی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ دنیاوی سزا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کی لاٹھی تھی۔ جو جن حضرت سلیمان ؑ کے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ وہ لاٹھی اسے مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا (فتح القدیر
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اللہ کی نعمتیں اور سلیمان علیہ السلام ٭٭
داؤد علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کو بیان کر کے پھر آپ کے فرزند سلیمان علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کے لئے ہوا کو تابع فرمان بنا دیا۔
مہینے کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی تھی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچا دیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کابل پہنچ گیا۔ تانبے کو بطور پانی کے کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلا دقت لے لیا کریں۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے۔
سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کر دیا وہ جو چاہتے تھے اپنے سامنے ان سے کام لیتے۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان علیہ السلام کی تعمیل سے جی چراتا تھا فوراً آگ میں جلا دیا جاتا۔
ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ } ۱؎ [طبرانی کبیر:214/22:صحیح]۔ یہ حدیث بہت غریب ہے۔
ابن نعیم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کے لئے تو عذاب و ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر۔ اور تیسری قسم انسانی صورتوں میں شیطانی دل رکھنے والے۔
مہینے کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی تھی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچا دیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کابل پہنچ گیا۔ تانبے کو بطور پانی کے کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلا دقت لے لیا کریں۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے۔
سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کر دیا وہ جو چاہتے تھے اپنے سامنے ان سے کام لیتے۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان علیہ السلام کی تعمیل سے جی چراتا تھا فوراً آگ میں جلا دیا جاتا۔
ابن ابی حاتم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ } ۱؎ [طبرانی کبیر:214/22:صحیح]۔ یہ حدیث بہت غریب ہے۔
ابن نعیم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کے لئے تو عذاب و ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر۔ اور تیسری قسم انسانی صورتوں میں شیطانی دل رکھنے والے۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جن ابلیس کی اولاد میں سے ہیں اور انسان آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں دونوں میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ہیں عذاب ثواب میں دونوں شریک ہیں دونوں کے ایمان دار ولی ہیں اور دونوں کے بے ایمان شیطان ہیں،
«محاریب» کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو، گھر کے بہترین حصے کو، مجلس کی صدارت کی جگہ کو۔ بقول مجاہد رحمہ اللہ ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسجدوں کو۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو۔ ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں گھروں کو۔
«تماثیل» تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں۔ بقول قتادہ رحمہ اللہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں۔ «جواب» جمع ہے «جابیہ» کی۔ «جابیہ» اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہے۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ سلیمان علیہ السلام کی بڑی فوج کے لئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہو سکے اور ان کے سامنے لایا جا سکے۔
اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پنے کے ادھر ادھر نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے
«افادتکم النعماء منی ثلاثہ» «یدی ولسانی والضمیر المحجبا»
اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے، زبان سے اور دل سے۔ عبدالرحمٰن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کے لئے کرے۔ شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے۔
«محاریب» کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو، گھر کے بہترین حصے کو، مجلس کی صدارت کی جگہ کو۔ بقول مجاہد رحمہ اللہ ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں۔ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں مسجدوں کو۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو۔ ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں گھروں کو۔
«تماثیل» تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں۔ بقول قتادہ رحمہ اللہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں۔ «جواب» جمع ہے «جابیہ» کی۔ «جابیہ» اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہے۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ سلیمان علیہ السلام کی بڑی فوج کے لئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہو سکے اور ان کے سامنے لایا جا سکے۔
اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پنے کے ادھر ادھر نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے
«افادتکم النعماء منی ثلاثہ» «یدی ولسانی والضمیر المحجبا»
اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے، زبان سے اور دل سے۔ عبدالرحمٰن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کے لئے کرے۔ شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے۔
محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے اور نیک عمل ہے۔ آل داؤد دونوں طرح شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ ثابت بنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں داؤد علیہ السلام نے اپنی اہل و عیال، اولاد اور عورتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا تھا۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند داؤد علیہ السلام کی نماز تھی۔ آپ آدھی رات سوتے تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے۔ آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بے روزہ ایک خوبی آپ میں یہ تھی کہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:1131]
ابن ماجہ میں ہے کہ { سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے۔ } ۱؎ [سنن ابن ماجہ:1332،قال الشيخ الألباني:۔ضعیف]
ابن ابی حاتم میں ہے اس موقعہ پر داؤد علیہ السلام کی ایک معطول حدیث مروی ہے۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جناب باری سے عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہو گا؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کر لی جب کہ تو نے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں۔
پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں۔
ابن ماجہ میں ہے کہ { سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے۔ } ۱؎ [سنن ابن ماجہ:1332،قال الشيخ الألباني:۔ضعیف]
ابن ابی حاتم میں ہے اس موقعہ پر داؤد علیہ السلام کی ایک معطول حدیث مروی ہے۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے جناب باری سے عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہو گا؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کر لی جب کہ تو نے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں۔
پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں۔