وَّ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ۙ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اس کی پیروی کر جو تیرے رب کی جانب سے تیری طرف وحی کی جاتی ہے۔ یقینا اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ پورا باخبر ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو (کتاب) تم کو تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اُسی کی پیروی کئے جانا۔ بےشک خدا تمہارے سب عملوں سے خبردار ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی تابعداری کریں (یقین مانو) کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2) ➊ { وَ اتَّبِعْ مَا يُوْحٰۤى اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ:} یعنی منہ بولے بیٹوں کے متعلق، جاہلیت کی کسی رسم کے متعلق، یا دنیا و آخرت کی کسی بھی بات کے متعلق آپ کسی کافر یا منافق کی بات ماننے کے بجائے اس حکم کی پیروی کریں جو آپ کو آپ کے پروردگار کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے۔
➋ { اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا:} تم اللہ کی وحی یعنی قرآن و سنت کی پیروی کے بارے میں جو کچھ بھی کرتے ہو، وہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ تم اس کے احکام پر خوش دلی سے عمل کرو یا تنگ دلی سے، یا عمل نہ کرو، وہ تمھیں تمھارے عمل کے مطابق جزا دے گا۔
➌ یہاں جمع کے ساتھ خطاب ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تمام خطاب بھی دراصل پوری امت کے لیے ہیں۔
➋ { اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا:} تم اللہ کی وحی یعنی قرآن و سنت کی پیروی کے بارے میں جو کچھ بھی کرتے ہو، وہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ تم اس کے احکام پر خوش دلی سے عمل کرو یا تنگ دلی سے، یا عمل نہ کرو، وہ تمھیں تمھارے عمل کے مطابق جزا دے گا۔
➌ یہاں جمع کے ساتھ خطاب ہے، اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تمام خطاب بھی دراصل پوری امت کے لیے ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
2-1یعنی قرآن کی اور احادیث کی بھی، اس لئے کہ احادیث کے الفاظ گو نبی کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے معانی و مفہوم من جانب اللہ ہی ہیں۔ اس لئے ان کو وحی خفی کہا یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اللہ پر توکل رکھو ٭٭
تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنا ہو جائے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی بات تاکید سے کہے تو ظاہر ہے کہ اوروں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے۔
تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے۔ اور فرمان باری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لیے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں۔
کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا۔ علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کے طلب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے۔ اور فرمان باری کے مطابق اس کے عذابوں سے بچنے کے لیے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں۔
کافروں اور منافقوں کی باتیں نہ ماننا نہ ان کے مشوروں پر کاربند ہونا نہ ان کی باتیں قبولیت کے ارادے سے سننا۔ علم وحکمت کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
چونکہ وہ اپنے وسیع علم سے ہر کام کا نتیجہ جانتا ہے اور اپنی بے پایاں حکمت سے اس کی کوئی بات، کوئی فعل غیر حکیمانہ نہیں ہوتا تو، تو اسی کی اطاعت کرتا رہ تاکہ بد انجام سے اور بگاڑ سے بچا رہے۔
جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں۔ اپنے تمام امور واحوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے۔
جو قرآن وسنت تیری طرف وحی ہو رہا ہے اس کی پیروی کر اللہ پر کسی کا کوئی فعل مخفی نہیں۔ اپنے تمام امور واحوال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی بھروسہ رکھ۔ اس پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ کافی ہے۔ کیونکہ تمام کارسازی پر وہ قادر ہے اس کی طرف جھکنے والا کامیاب ہی کامیاب ہے۔