اَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ جَنّٰتُ الۡمَاۡوٰی ۫ نُزُلًۢا بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے رہنے کے باغات ہیں، مہمانی اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اُن کے (رہنے کے) لئے باغ ہیں یہ مہمانی اُن کاموں کی جزا ہے جو وہ کرتے تھے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 19) ➊ {اَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰى: ” الْمَاْوٰى “ ”أَوٰي يَأْوِيْ “} (ض) (جگہ پکڑنا، پناہ لینا، رہنا) سے ظرف یا مصدر میمی ہے، رہنے کی جگہ یا رہائش۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے صالح عمل کیے ان کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں، دنیا کی طرح نہیں جو دارِ زوال ہے اور نہ ہی جہنم کی طرح جو جائے فرار ہے۔
➋ {نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ: ” نُزُلًا“} مہمان کی آمد پر اس کی خاطر تواضع کے لیے جو کچھ پیش کیا جائے۔ جب مہمانی کا یہ عالم ہے تو مزید عنایتوں کا کیا حال ہو گا۔ ان کا کچھ اندازہ اس سے پہلی آیت: «{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ }» اور حدیثِ رسول: [مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ] [مسلم: ۲۸۲۴] سے ہو سکتا ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ کسی کے نیک اعمال کو اس کے لیے جنت کی مہمانی کا سبب بنا دے، ورنہ کسی کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا، فَإِنَّهُ لَا يُدْخِلُ أَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ، قَالُوْا وَلَا أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِمَغْفِرَةٍ وَ رَحْمَةٍ] [بخاري، الرقاق، باب القصد و المداومۃ علی العمل: ۶۴۶۷]”سیدھے رہو، قریب رہو اور خوش خبری سنو، کیونکہ کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔“ لوگوں نے کہا: ”یا رسول اللہ! کیا آپ کو بھی نہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے مغفرت اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔“
➋ {نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ: ” نُزُلًا“} مہمان کی آمد پر اس کی خاطر تواضع کے لیے جو کچھ پیش کیا جائے۔ جب مہمانی کا یہ عالم ہے تو مزید عنایتوں کا کیا حال ہو گا۔ ان کا کچھ اندازہ اس سے پہلی آیت: «{ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ }» اور حدیثِ رسول: [مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ] [مسلم: ۲۸۲۴] سے ہو سکتا ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ کسی کے نیک اعمال کو اس کے لیے جنت کی مہمانی کا سبب بنا دے، ورنہ کسی کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا، فَإِنَّهُ لَا يُدْخِلُ أَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ، قَالُوْا وَلَا أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِمَغْفِرَةٍ وَ رَحْمَةٍ] [بخاري، الرقاق، باب القصد و المداومۃ علی العمل: ۶۴۶۷]”سیدھے رہو، قریب رہو اور خوش خبری سنو، کیونکہ کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔“ لوگوں نے کہا: ”یا رسول اللہ! کیا آپ کو بھی نہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے مغفرت اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
نیک و بد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے ٭٭
اللہ تعالیٰ کے عدل و کرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکار برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُوْنَ» ۱؎ [45-الجاثية:21]، یعنی ’ کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کر رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کر دیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں ‘۔
اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ» ۱؎ [38-ص:28]، یعنی ’ ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں؟ ‘
اور آیت «لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاىِٕزُوْنَ» ۱؎ [59-الحشر:20] ’ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے ‘۔
یہاں بھی فرمایا کہ ’ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے ‘۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ» ۱؎ [38-ص:28]، یعنی ’ ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں؟ ‘
اور آیت «لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاىِٕزُوْنَ» ۱؎ [59-الحشر:20] ’ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے ‘۔
یہاں بھی فرمایا کہ ’ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے ‘۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ ’ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالاخانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہو گی۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہو گی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے ‘۔
جیسے اور آیت میں ہے «كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ» ۱؎ [22-الحج:22] یعنی ’ جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ‘۔
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں ”واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے۔“
جیسے اور آیت میں ہے «كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ» ۱؎ [22-الحج:22] یعنی ’ جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ‘۔
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں ”واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے۔“
عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لیے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہو جائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔
نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”چاند کا شق ہو جانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔“ ۱؎ [مسند احمد:128/5:صحیح] کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔
نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”چاند کا شق ہو جانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔“ ۱؎ [مسند احمد:128/5:صحیح] کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔
پھر فرماتا ہے ’ جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کر جائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا؟ ‘
قتادۃرحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بے عزت بے وقعت اور بڑے گنہگار ہیں۔“
یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ’ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے ‘۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا۔ جس نے بے وجہ کوئی جھنڈا باندھا، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ’ ہم مجرموں سے بازپرس کریں گے اور ان سے پورا بدلہ لیں گے ‘۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28298:ضعیف]
قتادۃرحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بے عزت بے وقعت اور بڑے گنہگار ہیں۔“
یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ’ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے ‘۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا۔ جس نے بے وجہ کوئی جھنڈا باندھا، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ’ ہم مجرموں سے بازپرس کریں گے اور ان سے پورا بدلہ لیں گے ‘۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28298:ضعیف]