اَفَمَنۡ کَانَ مُؤۡمِنًا کَمَنۡ کَانَ فَاسِقًا ؕؔ لَا یَسۡتَوٗنَ ﴿۱۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو؟ برابر نہیں ہوتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 18){ اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا …: ”فِسْقٌ“} کا لفظ {”فَسَقَتِ الثَّمَرَةُ“} سے نکلا ہے، جب پھل پھٹ کر چھلکے سے نکل جائے، پھر اطاعت سے نکل جانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ یہ لفظ نافرمان مومن پر بھی بولا جاتا ہے اور کافر پر بھی، جیسا کہ فرمایا: «{ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ }» [النور: ۵۵] ”جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔“ اس آیت میں فاسق سے مراد کافر و مشرک ہے، کیونکہ مومن کے مقابلے میں آ رہا ہے۔ کفار کے لیے عذاب کی وعید اور مومنوں کے لیے نعمتوں کی نوید کا ذکر آیا تو اس پر کوئی کج بحث کہہ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کیا کمی ہے، وہ چاہے تو جس طرح دنیا میں اس نے مومن و کافر سبھی کو اپنی نعمتیں دے رکھی ہیں، آخرت میں بھی دونوں کو نواز دے۔ فرمایا، یہ تو عدل و حکمت ہی کے خلاف ہے، بھلا ایک ماننے والا اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نہ ماننے والا ہے؟ ایک مطیع و فرماں بردار شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نافرمان اور باغی ہے؟ دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے، نہ دنیا میں ان کی زندگی کا انداز ایک ہے، نہ موت کے وقت اور نہ آخر ت میں ایک ہو گا۔ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ صٓ (۲۸)، حشر (۲۰) اور جاثیہ (۲۱) یہ آخرت کے ثواب و عقاب کی نہایت عمدہ دلیل ہے، کیونکہ اگر اس دنیا کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو تو نیک و بد سب یکساں ہو جائیں اور نیک و بد کا یکساں ہو جانا پروردگار عالم کی حکمت کے بالکل خلاف ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
18-1یہ استفہام انکاری ہے یعنی اللہ کے ہاں مومن اور کافر برابر نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان بڑا فرق و تفاوت ہوگا مومن اللہ کے مہمان ہوں گے۔ اور اعزازو کرام کے مستحق اور فاسق و کافر تعزیر و عقوبت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے جہنم کی آگ میں جھلسیں گے۔ اس مضمون کو دوسرے مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً (اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۭ سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ) 45۔ الجاثیہ:21) (اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ) 38۔ ص:28) (لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ) 59۔ الحشر:20) وغیرہ۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
نیک و بد دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے ٭٭
اللہ تعالیٰ کے عدل و کرم کا بیان ان آیتوں میں ہے کہ اس کے نزدیک نیک کار اور بدکار برابر نہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُوْنَ» ۱؎ [45-الجاثية:21]، یعنی ’ کیا ان لوگوں نے جو برائیاں کر رہے ہیں یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ایمان اور نیک عمل والوں کی مانند کر دیں گے؟ ان کی موت زیست برابر ہے۔ یہ کیسے برے منصوبے بنا رہے ہیں ‘۔
اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ» ۱؎ [38-ص:28]، یعنی ’ ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں؟ ‘
اور آیت «لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاىِٕزُوْنَ» ۱؎ [59-الحشر:20] ’ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے ‘۔
یہاں بھی فرمایا کہ ’ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے ‘۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اور آیت میں ہے «اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ» ۱؎ [38-ص:28]، یعنی ’ ایماندار نیک عمل لوگوں کو کیا ہم زمین کے فسادیوں کے ہم پلہ کر دیں؟ پرہیزگاروں کو گنہگاروں کے برابر کر دیں؟ ‘
اور آیت «لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاىِٕزُوْنَ» ۱؎ [59-الحشر:20] ’ دوزخی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے ‘۔
یہاں بھی فرمایا کہ ’ مومن اور فاسق قیامت کے دن ایک مرتبہ کے نہیں ہوں گے ‘۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
پھر ان دونوں قسموں کا تفصیلی بیان فرمایا کہ ’ جس نے اپنے دل سے کلام اللہ کی تصدیق کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو انہیں وہ جنتیں ملیں گی جن میں مکانات ہیں بلند بالاخانے ہیں اور رہائش آرام کے تمام سامان ہیں۔ یہ ان کی نیک اعمالی کے بدلے میں مہمانداری ہو گی۔ اور جن لوگوں نے اطاعت چھوڑی ان کی جگہ جہنم میں ہو گی جس میں سے وہ نکل نہ سکیں گے ‘۔
جیسے اور آیت میں ہے «كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ» ۱؎ [22-الحج:22] یعنی ’ جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ‘۔
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں ”واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے۔“
جیسے اور آیت میں ہے «كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِيْدُوْا فِيْهَا ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ» ۱؎ [22-الحج:22] یعنی ’ جب کبھی وہاں کے غم سے چھٹکارا چاہیں گے دوبارہ وہیں جھونک دئیے جائیں گے ‘۔
فضیل بن عیاض فرماتے ہیں ”واللہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہونگے آگ شعلے انہیں اوپر نیچے لے جا رہے ہونگے فرشتے انہیں سزائیں کررہے ہونگے اور جھڑک کر فرماتے ہونگے کہ اس جہنم کے عذاب کا لطف اٹھاؤ جسے تم جھوٹا جانتے تھے۔“
عذاب ادنی سے مراد دنیوی مصیبتیں آفتیں دکھ درد اور بیماریاں ہیں یہ اس لیے ہوتی ہیں کہ انسان ہوشیار ہو جائے اور اللہ کی طرف جھک جائے اور بڑے عذابوں سے نجات حاصل کرے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی وہ مقرر کردہ سزائیں ہیں جو دنیا میں دی جاتی ہیں جنہیں شرعی اصطلاح میں حدود کہتے ہیں۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔
نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”چاند کا شق ہو جانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔“ ۱؎ [مسند احمد:128/5:صحیح] کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔
نسائی میں ہے کہ اس سے مراد قحط سالیاں ہیں۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”چاند کا شق ہو جانا دھویں کا آنا اور پکڑنا اور برباد کن عذاب اور بدر والے دن ان کفار کا قید ہونا اور قتل کیا جانا ہے۔“ ۱؎ [مسند احمد:128/5:صحیح] کیونکہ بدر کی اس شکست نے مکے کے گھر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا تھا۔ ان عذابوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔
پھر فرماتا ہے ’ جو اللہ کی آیتیں سن کر اس کی وضاحت کو پاکر ان سے منہ موڑلے بلکہ ان کا انکار کر جائے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا؟ ‘
قتادۃرحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بے عزت بے وقعت اور بڑے گنہگار ہیں۔“
یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ’ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے ‘۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا۔ جس نے بے وجہ کوئی جھنڈا باندھا، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ’ ہم مجرموں سے بازپرس کریں گے اور ان سے پورا بدلہ لیں گے ‘۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28298:ضعیف]
قتادۃرحمہ اللہ فرماتے ہیں ”اللہ کے ذکر سے اعراض نہ کرو ایسا کرنے والے بے عزت بے وقعت اور بڑے گنہگار ہیں۔“
یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ ’ ایسے گنہگاروں سے ہم ضرور انتقام لیں گے ‘۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے { تین کام جس نے کئے وہ مجرم ہوگیا۔ جس نے بے وجہ کوئی جھنڈا باندھا، جس نے ماں باپ کا نافرمانی کی، جس نے ظالم کے ظلم میں اس کا ساتھ دیا۔ یہ مجرم لوگ ہیں اور اللہ کا فرمان ہے کہ ’ ہم مجرموں سے بازپرس کریں گے اور ان سے پورا بدلہ لیں گے ‘۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28298:ضعیف]