ترجمہ و تفسیر — سورۃ السجدة (32) — آیت 16
تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اُن کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے اور جو (مال) ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه خرچ کرتے ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 16) ➊ {تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ …:} یعنی وہ نماز اور ذکر الٰہی کی خاطر اپنے آرام دہ بستر اور لذیذ نیند چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا اعلیٰ درجہ تہجد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ (15) اٰخِذِيْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِيْنَ (16) كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ (17) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ» [الذاریات: ۱۵ تا ۱۸] بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ لینے والے ہوں گے جو ان کا رب انھیں دے گا، یقینا وہ اس سے پہلے نیکی کرنے والے تھے۔ وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے۔ اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی قیام اللیل کی فضیلت میں بہت سی آیات و احادیث آئی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے:
{يَبِيْتُ يُجَافِيْ جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ
إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِيْنَ الْمَضَاجِعُ}
وہ رات اس حال میں گزارتا ہے کہ اپنا پہلو اپنے بستر سے الگ رکھتا ہے، جب مشرکین کے بستر انھیں نہایت بوجھل کیے ہوتے ہیں۔ [بخاري، التھجد، باب فضل من تعار من اللیل فصلّی: ۱۱۵۵]
مگر یہاں ایک سوال ہے کہ یہ جو فرمایا کہ ہماری آیات پر ایمان صرف وہی لوگ لاتے ہیں جن میں یہ صفات پائی جائیں، تو کیا جو شخص تہجد نہ پڑھے اس کا اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بے شک ایمان کا اعلیٰ مرتبہ انھی لوگوں کا ہے جو فرائض کے علاوہ نفل قیام اللیل کا اہتمام کرتے ہیں، مگر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ جو شخص مغرب کے بعد عشاء کے انتظار میں نہیں سوتا بلکہ عشاء جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے، پھر فجر کے وقت آرام دہ بستر اور میٹھی نیند چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے، وہ بھی اس فضیلت سے محروم نہیں رہتا۔ کیونکہ اس کا پہلو بھی نماز کی خاطر بستر سے جدا رہا ہے اور وہ سویا ہے تب بھی اس کے انتظار میں سویا ہے۔ عبدالرحمن بن ابی عمرہ کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں داخل ہوئے اور اکیلے بیٹھ گئے، میں ان کے پاس جا بیٹھا تو انھوں نے کہا، بھتیجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: [مَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِيْ جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِيْ جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّی اللَّيْلَ كُلَّهُ] [مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العشاء و الصبح في جماعۃ: ۶۵۶] جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو شخص صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ زیر تفسیر آیت: «{ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ کے بارے میں فرماتے ہیں: [نَزَلَتْ فِي انْتِظَارِ هٰذِهِ الصَّلَاةِ الَّتِيْ تُدْعَی الْعَتَمَةَ] [ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ السجدۃ: ۳۱۹۶، و صححہ الألباني]یہ آیت اس نماز کے بارے میں اتری جسے عتمہ (عشاء) کہا جاتا ہے۔ اور ابو برزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيْثَ بَعْدَهَا] [بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء: ۵۶۸] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔
➋ { يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا:} یعنی وہ اپنے رب کی گرفت کے خوف اور اس کی رحمت کی امید کے ساتھ اسے پکارتے ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ ان کے اعمال رد نہ کر دیے جائیں اور امید بھی کہ وہ قبولیت کا شرف حاصل کر لیں گے۔ (دیکھیے مومنون: ۵۷ تا ۶۱) نہ بے جا امید، جو بے عمل یا بد عمل بنا دیتی ہے اور نہ اتنا خوف جو اللہ کی رحمت سے مایوس کر دے اور آدمی کو کفر تک پہنچا دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض صوفیوں نے جو کہا: میرا دل چاہتا ہے کہ میں جہنم کو بجھادوں اور جنت کو جلا دوں، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کسی ڈر یا لالچ سے نہ کریں بلکہ محض اس کی رضا کے لیے کریں۔ اور بعض نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے، پھر خواہ مجھے جنت میں بھیج دے خواہ جہنم میں پھینک دے۔ یہ فضول باتیں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی صفت ہی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، پھر یہ بھی ان لوگوں کی جہالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو جنت اور جہنم سے الگ کر دیا، حالانکہ جنت اسے ملے گی جس پر وہ راضی ہو گا اور جہنم میں وہ جائے گا جس پر وہ ناراض ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا: [كَيْفَ تَقُوْلُ فِي الصَّلاَةِ؟] تم نماز میں کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: [أَ تَشَهَّدُ وَ أَقُوْلُ، أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، أَمَا إِنِّيْ لَا أُحْسِنُ دَنْدَنَتَكَ وَلَا دَنْدَنَةَ مُعَاذٍ] میں تشہد پڑھتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ہاں! میں آپ جیسی اچھی گنگناہٹ نہیں کر سکتا اور نہ معاذ جیسی گنگناہٹ کر سکتا ہوں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [حَوْلَهَا نُدَنْدِنُ] [أبوداوٗد، الصلاۃ، باب تخفیف الصلاۃ: ۷۹۲، و صححہ الألباني] ہم بھی اسی کے گرد گنگنا رہے ہیں۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی ساری تگ و دو جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے ہے، تو پھر ان سے بڑھ کر اللہ کی رضا چاہنے والا کون ہو گا۔ ہمارے ایک شاعر نے جو کہا ہے:
واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
او بے خبر، جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
تو یہ اسی تصوف سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے جس کی تعلیمات بنیادی طور پر اسلام ہی کے خلاف ہیں۔ اسلام نے تو { رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ} کہنے کی تعلیم دی ہے۔ مسلمانوں نے جہاد چھوڑ کر دنیا کفار کے سپرد کر دی اور غلامی پر قانع ہو گئے، پھر عیش و عشرت میں پڑ کر عقبیٰ سے بھی گئے اور کچھ بے چارے راہبوں کی طرح رب کو راضی کرنے کے لیے دنیا کو چھوڑ کر خانقاہوں، جنگلوں اور کٹیاؤں میں ہُو، حق کے ورد کرتے رہے اور کفر کی یلغار اسلام اور مسلمانوں کو محکوم بناتی چلی گئی۔ [إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ]
➌ { وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ:} اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۳) کی تفسیر۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

16-1یعنی راتوں کو اٹھ کر نوافل (تہجد) پڑھتے توبہ استغفار، تسبیح تحمید اور دعا الحاح وزاری کرتے ہیں۔ 16-2یعنی اس کی رحمت اور فضل و کرم کی امید بھی رکھتے ہیں اور اس کے عتاب و غضب اور مؤاخذہ و عذاب سے ڈرتے بھی ہیں۔ محض امید ہی امید نہیں رکھتے کہ عمل سے بےپرواہ ہوجائیں جیسے بےعمل اور بدعمل لوگوں کا شیوہ ہے اور نہ عذاب کا اتنا خوف طاری کرلیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے ہی مایوس ہوجائیں کہ یہ مایوسی بھی کفر و ضلالت ہے۔ 16-3یعنی انفاق میں صدقات واجبہ (زکوٰۃ) اور عام صدقہ و خیرات دونوں شامل ہیں، اہل ایمان دونوں کا حسب استطاعت اہتمام کرتے ہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

ایماندار وہی ہے جس کے اعمال تابع قرآن ہوں! ٭٭
’ سچے ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ دل کے کانوں سے ہماری آیتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ زبانی حق مانتے ہیں اور دل سے بھی برحق جانتے ہیں۔ سجدہ کرتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں۔ اور اتباع حق سے جی نہیں چراتے۔ نہ اکڑتے ضد کرتے ہیں۔ یہ بدعات کافروں کی ہے ‘۔
جیسے فرمایا آیت «اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ» ۱؎ [40-غافر:60]‏‏‏‏ یعنی ’ میری عبادت سے تکبر کرنے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے ‘۔
’ ان سچے ایمانداروں کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ راتوں کو نیند چھوڑ کر اپنے بستروں سے الگ ہو کر نمازیں ادا کرتے ہیں، تہجد پڑھتے ہیں ‘۔ مغرب عشاء کے درمیان کی نماز بھی بعض نے مراد لی ہیں۔ کوئی کہتا ہے مراد اس سے عشاء کی نماز کا انتظار ہے۔ اور قول ہے کہ عشاء کی اور صبح کی نمازیں باجماعت اس سے مراد ہے، وہ اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اس کے عذابوں سے نجات کے لیے اور اس کی نعمتیں حاصل کرنے کے لیے ساتھ ہی صدقہ خیرات بھی کرتے رہتے ہیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق راہ اللہ میں دیتے رہتے ہیں۔ وہ نیکیاں بھی کرتے ہیں جن کا تعلق انہی کی ذات سے ہے۔ اور وہ نیکیاں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جن کا تعلق دوسروں سے ہے۔ ان بہترین نیکیوں میں سب سے بڑھے ہوئے وہ ہیں جو درجات میں بھی سب سے آگے ہیں۔ یعنی سید اولاد آدم فخر دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔
جیسے کہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے شعروں میں ہے
؎ «وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ يَتْلُو كِتَابَهُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ الصُّبْحِ سَاطِعُ» «أَرَانَا الْهُدَى بَعْدَ الْعَمَى فَقُلُوبُنَا بِهِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ» «يَبِيتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ الْمَضَاجِعُ»
یعنی ہم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو صبح ہوتے ہی اللہ کی پاک کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، راتوں کو جبکہ مشرکین گہری نیند میں سوتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کروٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر سے الگ ہوتی ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ دو شخصوں سے بہت ہی خوش ہوتا ہے ایک تو وہ جو رات کو میٹھی نیند سویا ہوا ہے لیکن دفعۃً اپنے رب کی نعمتیں اور اس کی سزائیں یاد کرکے اٹھ بیٹھتا ہے اپنے نرم وگرم بسترے کو چھوڑ کر میرے سامنے کھڑا ہو کر نماز شروع کر دیتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو ایک غزوے میں ہے کافروں سے لڑتے لڑتے مسلمانوں کا پانسہ کمزور پڑ جاتا ہے لیکن یہ شخص یہ سمجھ کر کہ بھاگنے میں اللہ کی ناراضگی ہے اور اگے بڑھنے میں رب کی رضا مندی ہے میدان کی طرف لوٹتا ہے اور کافروں سے جہاد کرتا ہے یہاں تک کہ اپنا سر اس کے نام پر قربان کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فخر سے اپنے فرشتوں کو اسے دکھاتا ہے اور اس کے سامنے اس کے عمل کی تعریف کرتا ہے } }۔ ۱؎ [سنن ابوداود:3536، قال الشيخ الألباني:حسن]‏‏‏‏
مسند احمد میں ہے { سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا صبح کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہی چل رہا تھا میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور جہنم سے الگ کر دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { تو نے سوال تو بڑے کام کا کیا ہے لیکن اللہ جس پر آسان کردے اس پر بڑا سہل ہے۔ سن تو اللہ کی عبادت کرتا رہ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر نمازوں کی پابندی کر رمضان کے روزے رکھ بیت اللہ کا حج کر زکوٰۃ ادا کرتا رہ۔ آ اب میں تجھے بھلائیوں کے دروازے بتلاؤں۔ روزہ ڈھال ہے اور انسان کی آدھی رات کی نماز، صدقہ گناہوں کو معاف کرا دیتا ہے }۔
{ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ» ۱؎ [32-السجدة:16-17]‏‏‏‏ کی تلاوت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { آ اب میں تجھے اس امر کے سر اس کے ستون اور اس کی کوہان کی بلندی بتاؤں۔ اس تمام کا سر تو اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اس کے کوہان کی بلندی اللہ کی راہ کا جہاد ہے }۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اب میں تجھے تمام کاموں کے سردار کی خبردوں؟ } پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: { اسے روک رکھ }۔ میں نے کہا کیا ہم اپنی بات چیت پر بھی پکڑے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اے معاذ! افسوس تجھے معلوم نہیں انسان کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالنے والی چیز تو اس کے زبان کے کنارے ہیں } }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:2616، قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
یہی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے ایک میں یہ بھی ہے کہ { اس آیت «تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ» إلخ ۱؎ [32-السجدة:16-17]‏‏‏‏ کو پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { اس سے مراد بندے کا رات کی نماز پڑھنا ہے } }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28240:ضعیف و منقطع]‏‏‏‏
اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ { انسان کا آدھی رات کو قیام کرنا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی آیت کو تلاوت کرنا مروی ہے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:27237:ضعیف و منقطع]‏‏‏‏
ایک حدیث میں ہے کہ { قیامت کے دن جبکہ اول و آخر سب لوگ میدان محشر میں جمع ہوں گے تو ایک منادی فرشتہ آواز بلند کرے گا جسے تمام مخلوق سنے گی۔ وہ کہے گا کہ آج سب کو معلوم ہو جائے گا کہ سب سے زیادہ ذی عزت اللہ کے نزدیک کون ہے؟ پھر لوٹ کر آواز لگائے گا کہ تہجد گزار لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور اس آیت کی تلاوت فرمائے گا تو یہ لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور گنتی میں بہت کم ہوں گے }۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو ہم لوگ مجلس میں بیٹھے تھے۔ اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم مغرب کے بعد سے لے کر عشاء تک نماز میں مشغول رہتے تھے پس یہ آیت نازل ہوئی۔‏‏‏‏ ۱؎ [مسند بزار:2250:ضعیف]‏‏‏‏ اس حدیث کی یہی ایک سند ہے۔
پھر فرماتا ہے ان کے لیے جنت میں کیا کیا نعمتیں اور لذتیں پوشیدہ پوشیدہ بنا کر رکھی ہیں، اسی کا کسی کو علم نہیں چونکہ یہ لوگ بھی پوشیدہ طور پر عبادت کرتے تھے اسی طرح ہم نے بھی پوشیدہ طور پر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا سکھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال آیا ‘۔
بخاری کی حدیث قدسی میں ہے { میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ رحمتیں اور نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ کے دیکھنے میں آئیں نہ کسی کان کے سننے میں نہ کسی کے دل کے سوچنے میں آئے ہوں }۔ اس حدیث کو بیان فرما کر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث نے کہا قرآن کی اس آیت کو پڑھ لو «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» ۱؎ [32-السجدة:17]‏‏‏‏، اس روایت میں «قُرَّةِ» کے بجائے «قُرَّاتِ» پڑھنا بھی مروی ہے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4779]‏‏‏‏
اور روایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { جنت کی نعمتیں جسے ملیں وہ کبھی بھی واپس نہیں ہونگی۔ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے ان کی جوانی ڈھلے گی نہیں ان کے لیے جنت میں وہ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل پر ان کا وہم و گمان آیا }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:3836]‏‏‏‏
ایک حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا وصف بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی فرمایا اور پھر یہ آیت «تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ» ۱؎ [32-السجدة:16-17]‏‏‏‏ تک تلاوت فرمائی }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2825]‏‏‏‏
حدیث قدسی میں ہے { میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھی ہیں نہ کانوں نے سنی ہیں بلکہ اندازہ میں بھی نہیں آسکتیں }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28256:صحیح بالشواهد]‏‏‏‏
صحیح مسلم شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ رب العالمین عزوجل سے عرض کیا کہ اے باری تعالیٰ ادنٰی جنتی کا درجہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ ’ ادنٰی جنتی وہ شخص ہے جو کل جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہو جاؤ ‘ وہ کہے گا یا اللہ کہاں جاؤں ہر ایک نے اپنی جگہ پر قبضہ کرلیا ہے اور اپنی چیزیں سنھبال لی ہیں۔
اس سے کہا جائے گا کہ ’ کیا تو اس پر خوش ہے؟ کہ تیرے لیے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا؟ ‘ وہ کہے گا پروردگار میں اس پر بہت خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ تیرے لیے اتنا ہی اور اتنا ہی اور اتنا ہی اور پانچ گناہ ‘۔ یہ کہے گا بس بس اے رب میں راضی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور بھی جس چیز کو تیرا دل چاہے اور جس چیز سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں ‘۔ یہ کہے گا میرے پروردگار میری تو باچھیں کھل گئیں جی خوش ہو گیا۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کے جنتی کی کیا کیفیت ہے؟ فرمایا ’ یہ وہ لوگ ہیں جن کی خاطر و مدارت کی کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی اور اس پر اپنی مہر لگا دی ہے پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی نہ کسی کے سننے میں نہ کسی کے خیال میں ‘۔ اس کا مصداق اللہ کی کتاب کی آیت «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» ۱؎ [32-السجدة:17]‏‏‏‏، ہے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:189]‏‏‏‏
حضرت عباس بن عبدالواحد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ایک جنتی اپنی حور کے ساتھ محبت پیار میں ستر سال تک مشغول رہے گا کسی دوسری چیز کی طرف اس کا التفات ہی نہیں ہو گا۔ پھر جو دوسری طرف التفات ہوگا تو دیکھے گا کہ پہلی سے بہت زیادہ خوبصورت اور نوارنی شکل کی ایک اور حور ہے۔ وہ اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر خوش ہو کر کہے گی کہ اب میری مراد بھی پوری ہوگی یہ کہے گا تو کون ہے؟ وہ کہے گی میں اللہ کی مزید نعمتوں میں سے ہوں۔ اب یہ سراپا اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا پھر ستر سال کے بعد دوسری طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھی ایک اور حور ہے وہ کہے گی اب وقت آ گیا کہ آپ میں میرا حصہ بھی ہو یہ پوچھے گا تم کون ہو؟ وہ جواب دے گی میں ان میں سے ہوں جن کی نسبت جناب باری تعالیٰ نے فرمایا ہے ’ کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کی کیا کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے ‘۔
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرشتے جنتیوں کے پاس دنیا کے اندازے سے ہر دن میں تین تین بار جنت عدن کے اللہ کے تحفے لے کر جائیں گے جو ان کی جنت میں نہیں اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ وہ فرشتے ان سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے۔‏‏‏‏
ابوالیمان فزاری یا کسی اور سے مروی ہے کہ جنت کے سو درجے ہیں پہلا درجہ چاندی کا ہے اس کی زمین بھی چاندی کی ہے اس کے محلات بھی چاندی کے اس کی مٹی مشک کی ہے، تیسری موتی کی، زمین بھی موتی کی گھر بھی موتی کے برتن بھی موتی کے اور مٹی مشک کی، اور باقی ستانوے تو وہ ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سنیں نہ کسی انسان کے دل میں گزریں، پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔
ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روح الامین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انسان کی نیکیاں بدیاں لائی جائی گی۔ بعض بعض سے کم کی جائیں گی پھر اگر ایک نیکی بھی باقی بچ گئی تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا دے گا اور جنت میں کشادگی عطا فرمائے گا۔ راوی نے یزداد سے پوچھا کہ نیکیاں کہاں چلی گئیں؟ تو انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی «اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَـيِّاٰتِهِمْ فِيْٓ اَصْحٰبِ الْجَــنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ» ۱؎ [46-الأحقاف:16]‏‏‏‏، یعنی ’ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اچھے اعمال ہم نے قبول فرمالئے اور ان کی برائیوں سے ہم نے در گزر فرما لیا ‘۔
{ راوی نے کہا پھر اس آیت کے کیا معنی ہیں؟ «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» [32-السجدة:17]‏‏‏‏، فرمایا { بندہ جب کوئی نیکی لوگوں سے چھپا کر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کے آرام کی خبریں جو اس کے لیے پوشیدہ رکھ چھوڑی تھیں عطا فرمائے گا }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28255:ضعیف]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل