ترجمہ و تفسیر — سورۃ الروم (30) — آیت 1
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
الم۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
الٓمٓ
ترجمہ محمد جوناگڑھی
الم

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 1تا5) ➊ {الٓمّٓ (1) غُلِبَتِ الرُّوْمُ (2) فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ …: الٓمّٓ} کے متعلق سورۂ بقرہ کی ابتدا ملاحظہ فرمائیں۔ سورۂ روم کی ان ابتدائی آیات میں دو ایسی پیش گوئیاں کی گئی ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی رسالت کے حق ہونے پر زبردست دلیل ہیں۔ ان میں سے پہلی پیش گوئی یہ تھی کہ اگر آج روم شکست کھا گیا ہے تو چند ہی سالوں میں روم پھر ایران پر غالب آ جائے گا اور دوسری پیش گوئی یہ تھی کہ اگر آج مسلمان مشرکینِ مکہ کے ہاتھوں مظلوم و مقہور ہیں تو ان کو بھی اسی دن مشرکینِ مکہ پر غلبہ حاصل ہو گا جس دن روم ایران پر غالب آئے گا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا ہوئی تو اس وقت عرب کے اطراف میں دو بڑی طاقتیں موجود تھیں۔ ایک روم کی عیسائی حکومت، جو دو باتوں میں مسلمانوں سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ دونوں اہلِ کتاب تھے، دوسرے دونوں آخرت پر یقین رکھتے تھے، لہٰذا مسلمانوں کی ہمدردیاں انھی کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی عیسائی حکومت سے ہمدردی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریشیوں کی مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کے باوجود حبشہ کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور قریش کی سفارت بری طرح ناکام ہوئی اور انھیں خالی ہاتھ وہاں سے آنا پڑا تھا۔ دوسری بڑی طاقت ایران کی تھی، جو دو وجہوں سے مشرکین مکہ سے قریب تھے۔ ایک یہ کہ ایرانی دو خداؤں کے قائل اور آتش پرست تھے اور مشرکین بت پرست تھے اور دوسرے یہ کہ دونوں آخرت کے منکر تھے۔ انھی وجوہ کی بنا پر مشرکینِ مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان چھ سو برس کا وقفہ تھا۔ [دیکھیے بخاري، مناقب الأنصار، باب إسلام سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ: ۳۹۴۸] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی تو اس وقت روم و ایران میں جنگ شروع تھی اور اس کی خبریں مکہ میں بھی پہنچتی رہتی تھیں۔ جب ایران کی فتح کی کوئی خبر آتی تو مشرکینِ مکہ بغلیں بجاتے اور اس خبر کو اپنے حق میں نیک فال قرار دیتے اور کہتے کہ جس طرح ایران نے روم کا سر کچلا ہے، ایسے ہی ہم بھی کسی وقت مسلمانوں کا سر کچل دیں گے۔ اس جنگ میں ایرانیوں نے رومیوں کو فیصلہ کن شکست دی، جس کے نتیجے میں عرب کے ساتھ ملنے والے علاقوں میں روم کا اقتدار بالکل ختم ہو گیا۔ یہ خبر مشرکین کے لیے بڑی خوش کن اور مسلمانوں کے لیے بہت صدمے کا باعث تھی۔ مشرکین نے انھیں یہ کہہ کر چھیڑنا شروع کردیا کہ جس طرح ایران نے روم کو ختم کر دیا ہے، ایسے ہی ہم بھی تمھیں مٹا ڈالیں گے۔ ایسے حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ اگرچہ بظاہر اہلِ روم کی فتح کے کوئی آثار نہیں تھے مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی آیات پر پورا یقین تھا۔ اسی یقین کی بنیاد پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشرکین کے ساتھ شرط بھی باندھ لی، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ مفسر ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس واقعہ کی تفصیل کے لیے بہت سی روایات نقل فرمائی ہیں، جن میں سے اکثر کی سند کمزور ہے۔ صرف دو روایتوں کی سند اچھی ہے، وہ یہاں نقل کی جاتی ہیں۔
پہلی روایت یہ کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان { الٓمّٓ (1) غُلِبَتِ الرُّوْمُ (2) فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ } کےمتعلق فرمایا: [غُلِبَتْ وَ غَلَبَتْ] رومی مغلوب ہو گئے اور (پھر) غالب آگئے۔ اور فرمایا، مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہلِ فارس رومیوں پر غالب آئیں، کیونکہ مشرکین اور اہلِ فارس دونوں بت پرست تھے اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ رومی فارس والوں پر غالب آئیں، کیونکہ وہ (رومی) اہلِ کتاب تھے۔ لوگوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اس بات کا ذکر کیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَمَا إِنَّهُمْ سَيَغْلِبُوْنَ] سن لو! یقینا وہ (رومی) غالب آئیں گے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات مشرکین کو بتائی تو وہ کہنے لگے: ہمارے اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کر لو، اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں یہ کچھ ملے گا اور اگر تم غالب آگئے تو تمھیں یہ کچھ ملے گا۔ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پانچ سال مدت مقرر کر لی۔ مگر رومی غالب نہ آئے، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ مدت دس سے کم تک کیوں مقرر نہ کی۔ ابوسعید نے کہا {اَلْبِضْعُ} کا لفظ دس سے کم تک ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا، پھر بعد میں رومی غالب آ گئے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے: «{ الٓمّٓ (1) غُلِبَتِ الرُّوْمُ (2) فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ (3) فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُ وَ يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (4) بِنَصْرِ اللّٰهِ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُ سفیان نے فرمایا: میں نے سنا ہے کہ وہ ان پر بدر کے دن غالب آئے۔ [ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ الروم: ۳۱۹۳، و قال حسن صحیح غریب] احمد شاکر نے مسند احمد (۲۴۹۵) کی تحقیق میں اسے صحیح کہا ہے اور شیخ البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔
دوسری روایت یہ کہ نیار بن مکرم الاسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیات اتریں: «{ الٓمّٓ (1) غُلِبَتِ الرُّوْمُ (2) فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ (3) فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ تو ان دنوں فارس کے لوگ رومیوں پر پوری طرح غالب تھے، لیکن مسلمان ان پر رومیوں کے غلبے کو پسند کرتے تھے، کیونکہ رومی اور مسلمان اہلِ کتاب تھے اور اللہ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے: «{ وَ يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (4) بِنَصْرِ اللّٰهِ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ جبکہ قریش فارس کے غلبے کو پسند کرتے تھے، کیونکہ مشرکین اور فارس والے اہلِ کتاب نہیں تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نکلے اور مکہ کے کناروں میں چیخ چیخ کر یہ آیات سنانے لگے: «{ الٓمّٓ (1) غُلِبَتِ الرُّوْمُ (2) فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ (3) فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ قریش کے کچھ لوگوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا، ہمارے تمھارے درمیان یہ بات طے ہو گئی، تمھارے ساتھی کا گمان ہے کہ روم فارس پر { بِضْعِ سِنِيْنَ } (چند سالوں) میں غالب آ جائیں گے، تو کیا ہم اس پر تمھارے ساتھ شرط نہ رکھ لیں؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا، کیوں نہیں! اور یہ جوئے کی شرط حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور مشرکین نے شرط باندھ لی اور شرط کی مقدار طے کر لی۔ انھوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا، بتاؤ کتنی مدت مقرر کرتے ہو۔{بِضْعٌ} تین سال سے نو سال تک ہوتا ہے، تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک اوسط وقت مقرر کر لو جہاں مدت پوری ہو جائے، تو انھوں نے چھ سال کی مدت مقرر کر لی۔ پھر یہ ہوا کہ رومیوں کے غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے، تو مشرکین نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے طے شدہ شرط وصول کر لی۔ لیکن جب ساتواں سال شروع ہوا تو رومی اہلِ فارس پر غالب آ گئے، تو اس پر مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا چھ سال مقرر کرنا ان کا قصور قرار دیا کہ انھوں نے چھ سال کی مدت کیوں مقرر کی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو { فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ } کا لفظ فرمایا ہے، جو نو(۹) سال تک پر بولا جاتا ہے اور اس وقت بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ [ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ الروم: ۳۱۹۴، و قال حدیث حسن صحیح غریب وقال الألباني حسن]
ان دونوں صحیح حدیثوں سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں، پہلی یہ کہ جس وقت یہ آیات نازل ہوئیں رومی اس وقت بری طرح سے مغلوب تھے کہ تمام لوگوں کی نگاہوں میں چند سالوں کے اندر ان کا غالب آنا ممکن نہیں تھا۔ دوسری یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اللہ تعالیٰ کی آیات پر اتنا مضبوط ایمان تھا کہ ظاہری اسباب کے بالکل مخالف ہونے کے باوجود انھوں نے ان کے سچا ہونے پر مشرکین کے ساتھ شرط طے کرلی۔ تیسری یہ کہ امت کے بڑے سے بڑے شخص سے بھی اجتہاد میں خطا ہو سکتی ہے۔ امتِ مسلمہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ سے عظیم شخصیت کوئی نہیں، لیکن یہاں ان سے مدت کی تعیین میں خطا ہو گئی، مگر اپنے اجتہاد کے خطا ثابت ہونے پر بھی ان کے اللہ کی آیات پر ایمان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رضی اللہ عنہ نے ایک مقام پر فرمایا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی درست رائے سے نوازا تھا کہ ان کی خطا پکڑنا بہت ہی مشکل ہے، مگر ان سے بھی خطا ہو جاتی تھی، پھر انھوں نے ان کی خطا کی مثال کے لیے صحیح بخاری سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت بیان کی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: آج رات میں نے خواب میں ایک سائبان دیکھا، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے، میں لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اسے اپنی ہتھیلیوں میں لے رہے ہیں، کوئی زیادہ لینے والا ہے اور کوئی کم لینے والا۔ پھر اچانک ایک رسی آسمان سے زمین تک آ ملی، تو میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ نے اسے پکڑا اور اوپر چڑھ گئے۔ پھر اسے ایک اور آدمی نے پکڑا، وہ اس کے ساتھ چڑھ گیا، پھر اسے ایک اور آدمی نے پکڑا وہ بھی اوپر چڑھ گیا۔ پھر وہ کٹ گئی، پھر دوبارہ مل گئی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرا باپ آپ پر قربان، آپ کو اللہ کی قسم! مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی تعبیر کروں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تعبیر کرو۔ انھوں نے کہا: وہ سائبان تو اسلام ہے اور جو شہد اور گھی ٹپک رہا ہے وہ قرآن کی حلاوت ہے، جو ٹپک رہی ہے۔ پھر کوئی قرآن سے زیادہ حاصل کرنے والا ہے اور کوئی کم حاصل کرنے والا ہے۔ رہی وہ رسی جو آسمان سے زمین تک ملی ہوئی ہے، تو اس سے مراد وہ حق ہے جس پر آپ قائم ہیں، آپ اسے پکڑے رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو بلند کرے گا، پھر آپ کے بعد اسے ایک اور آدمی پکڑے گا اور اس کے ساتھ بلند ہو جائے گا، پھر ایک اور آدمی اسے پکڑے گا اور اس کے ساتھ بلند ہو جائے گا، پھر ایک اور آدمی اسے پکڑے گا تو اس کے ساتھ وہ کٹ جائے گی، پھر اس کے لیے ملا دی جائے گی اور وہ اس کے ساتھ بلند ہو جائے گا۔ یا رسول اللہ! میرا باپ آپ پر قربان، مجھے بتائیے! میں نے درست کہا یا خطا کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کچھ درست کہا، کچھ خطا کی۔ انھوں نے کہا: آپ کو اللہ کی قسم ہے! آپ مجھے وہ ضرور بتائیں جو میں نے خطا کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم مت ڈالو۔ [بخاري، التعبیر، باب من لم یر الرؤیا الأوّل عابر إذا لم یصب: ۷۰۴۶]
زیر تفسیر آیت میں { بِضْعِ } کی تعیین میں بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے خطا ہو گئی۔ جب امت کے سب سے بڑے شخص سے خطا ہو سکتی ہے تو ان ائمہ سے خطا کیوں نہیں ہو سکتی جن کی تقلید میں لوگوں نے اسلام میں چار فرقے بنا رکھے ہیں، جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر تو کجا صحابی یا تابعی بھی نہیں ہیں اور جن کی بہت سی اجتہادی خطائیں ان کے شاگردوں نے بھی بیان کی ہیں اور جو وحی کے شرف کے حامل بھی نہ تھے کہ وحی کے ذریعے سے ان کی خطا کی اصلاح ہو جاتی ہو۔ اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ امتیوں کے اجتہادات و آراء کو دین سمجھنے کے بجائے صرف کتاب و سنت کو لازم پکڑیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جو خطا سے پاک ہیں، فرمایا: «{ اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِيَآءَ [الأعراف: ۳] اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ چوتھی بات یہ کہ ان دونوں روایتوں میں سے ایک میں پانچ سال کی مدت مقرر کرنے کا ذکر ہے اور دوسری میں چھ سال کا۔ اس کے باوجود ائمہ حدیث نے دونوں کو صحیح کہا ہے اور اس اختلاف کو روایتوں کے ضعف کا باعث نہیں سمجھا، کیونکہ اصل مقصود دونوں کا ایک ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جو مدت طے کی تھی وہ { بِضْعِ } کی اصل مراد سے کم تھی۔
➋ ابن کثیر رضی اللہ عنہ نے ابن ابی حاتم اور ابن جریر سے دو روایتیں نقل کی ہیں، جن میں ذکر ہے کہ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طے کردہ مدت میں رومی غالب نہ آئے اور مشرکین نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شرط کی رقم لے لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر کہ {بِضْعٌ} سے مراد نو(۹) سال تک ہوتے ہیں، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ مشرکین سے شرط لگائی، جس میں مدت زیادہ کی اور شرط کی رقم بھی زیادہ کی۔ چنانچہ نو سال پورے ہونے سے پہلے رومی فارسیوں پر غالب آگئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے شرط کی رقم وصول کر لی۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہو، کیونکہ صحیح روایات میں اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔ مگر سند کی رو سے یہ روایات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔ اس مقام پر ابن کثیر رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے فارسیوں پر غالب آنے کے واقعات کی مزید کچھ تفصیل بیان کی ہے، مگر اسے غریب ترین قرار دیا ہے۔ ہمارے بعض اردو مفسرین نے بعض انگریز مؤرخین سے لمبی تفصیل ذکر کی ہے، مگر ان تمام تفصیلات کی کوئی پکی سند ہے نہ کوئی معتبر ذریعہ۔ قرآن کی تفسیر کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے جو قرآن مجید اور صحیح روایات سے ثابت ہے۔ اور یہ کوئی کم عجیب نہیں کہ وہ بات جس کا ہونا لوگوں کی نگاہ میں ممکن ہی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اس کی پیش گوئی فرما دی اور ظاہری اسباب میں سے کوئی سبب موجود نہ ہونے کے باوجود چند ہی سالوں میں وہ رومی دوبارہ غالب آگئے جو بری طرح مغلوب تھے۔
➌ { فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ:} سب سے قریب زمین سے مراد جزیرۂ عرب کی قریب ترین زمین ہے۔ یہ اذرعات اور بصريٰ کے درمیان کا خطہ ہے، جو شام کی سرحد پر حجاز سے ملتا ہوا مکہ کے قریب واقع ہے۔
➍ { فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ:} یہاں ایک سوال ہے کہ متعین وقت بتانے کے بجائے { بِضْعِ } کا لفظ بولنے میں کیا حکمت ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ کو وہ سال، وہ مہینا اور وہ وقت معلوم تھا جس میں روم نے فارس پر غالب آنا تھا مگر اس وقت خبروں کا دوسرے مقامات پر پہنچنا اس طرح تیز رفتار نہ تھا جس طرح آج کل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ متعین وقت بتا دیتا، پھر کسی مقام پر اطلاع پہنچنے میں دیر ہو جاتی تو وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی کتاب پر طعن کا موقع مل سکتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مدت کی تعیین کے لیے ایسا لفظ استعمال فرمایا جس سے اس بات کا امکان ہی نہ رہا اور ہر شخص کو قرآن کی پیش گوئی کا حق ہونا ثابت ہو گیا۔ اس کے علاوہ وہ وقت تھوڑا مخفی رکھنے میں یہ حکمت بھی تھی کہ اس غلبے کے انتظار میں مسلمانوں کے حوصلے بلند رہیں کہ اب غلبہ ہوا اور اب ہوا۔ اگر متعین وقت بتا دیا جاتا تو اتنی مدت تک حوصلے ٹوٹے رہتے۔
➎ { لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُ: الْاَمْرُ } سے مراد اللہ کا تکوینی امر ہے، یعنی اس کا {كُنْ} کہنا، جس سے ہر کام ہو جاتا ہے۔ یعنی روم کے مغلوب ہونے سے پہلے بھی ہر کام صرف اللہ تعالیٰ کے اختیارمیں تھا اور رومیوں کے چند سالوں میں غالب آنے کے بعد بھی ہر کام اسی کے اختیار میں ہے۔ اس میں یہ بھی سبق ہے کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ فلاں کی تدبیر کی وجہ سے اسے فتح ہوئی اور فلاں کی کوتاہی کی وجہ سے اسے شکست ہوئی۔ نہیں! وہ تدبیر یا کوتاہی بھی اسی کی تقدیر میں طے شدہ ہے۔ اسی طرح کوئی یہ نہ سمجھے کہ آسمان کی گردش یا سورج، چاند یا کسی ستارے کی تاثیر سے ایسا ہوا، نہیں! جو ہوا پہلے بھی اللہ کے حکم سے ہوا اور بعد میں بھی اسی کے حکم سے ہوگا۔ سورج، چاند، ستاروں یا آسمان کی گردش کا کسی واقعہ سے کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، وَلٰكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللّٰهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمَا فَصَلُّوْا] [بخاري، الکسوف، باب لا تنکسف الشمس لموت أحد ولا لحیاتہ: ۱۰۵۷] سورج اور چاند نہ کسی کی موت کی وجہ سے گرہن ہوتے ہیں اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے، بلکہ وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، تو جب ان دونوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔
➏ { وَ يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (4) بِنَصْرِ اللّٰهِ:} ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب بدر کا دن ہوا تو رومی فارس پر غالب ہوئے اور مسلمانوں کو اس سے خوشی ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں: «{ الٓمّٓ (1) غُلِبَتِ الرُّوْمُ (2) فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ (3) فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُ وَ يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (4) بِنَصْرِ اللّٰهِ (ابو سعید رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: تو مسلمان روم کے فارس پر غالب آنے سے خوش ہوئے۔ [ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الروم: ۳۱۹۲، و قال حسن غریب و قال الألباني صحیح لغیرہ] ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی اس روایت اور سفیان ثوری اور بہت سے اہلِ علم کے قول کے مطابق روم کو فارس پر یہ غلبہ اس روز حاصل ہوا جس روز مسلمان بدر میں مشرکین پر فتح یاب ہوئے۔ مفسر رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان { وَ يَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (4) بِنَصْرِ اللّٰهِ } (اور اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے) سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس دن مومن روم کی فارس پر فتح کی خبر سے خوش ہوں گے اور یہ بھی کہ اس دن مومن مشرکین کے خلاف اللہ کی نصرت اور بدر کی فتح پر خوش ہوں گے۔ مگر راجح یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس دن اہلِ روم فارس پر غالب آئیں گے اس دن مسلمان مشرکین پر فتح یابی اور اللہ کی نصرت سے خوش ہوں گے، کیونکہ بدر کے دن مسلمانوں کو اپنی فتح پر خوشی ہوئی تھی اور کسی روایت میں ذکر نہیں کہ روم کی فتح یابی کی خبر عین بدر کے دن پہنچی تھی۔ گویا اس آیت میں دو خوش خبریاں ہیں، ایک روم کا چند سالوں میں فارس پر غالب آنا اور ایک اس دن مسلمانوں کا مشرکین پر غلبے سے خوش ہونا اور سب جانتے ہیں کہ دونوں بشارتیں پوری ہوئیں۔
بعض تابعین کا خیال ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر فتح صلح حدیبیہ کے بعد ہوئی۔ ان کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ قیصر روم نے منت مانی تھی کہ جب وہ فتح یاب ہوگا تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) جائے گا۔ چنانچہ جب وہ ایلیا آیا تو ابھی واپس نہیں ہوا تھا کہ اسے دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط ملا جو آپ نے اس کے نام صلح حدیبیہ کے بعد لکھا تھا۔ اس کے بعد اس نے ابو سفیان کو بلایا (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور شام میں تجارت کی غرض سے آئے ہوئے تھے) اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مختلف سوالات کیے، جیسا کہ صحیح بخاری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر فتح بھی اسی سال ہوئی، لیکن اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ رومیوں کو پہلی فتح تو بدر کے دن ہوئی، مگر دشمن کی فوجوں کی مکمل صفائی اور تمام علاقوں کے مکمل بندوبست کے بعد منت پوری کرنے کی نوبت چار سال بعد صلح حدیبیہ کے سال آئی۔ (واللہ اعلم)
➐ { يَنْصُرُ مَنْ يَّشَآءُ:} آپس میں لڑنے والے کفار میں سے جس کی چاہتا ہے مدد کر دیتا ہے اور مسلمانوں اور کافروں کی لڑائی میں بھی جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ نہ فتح یاب کرنا اس کے راضی ہونے کی دلیل ہے اور نہ شکست دینا اس کی ناراضی کی دلیل ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ آدمی کو آزماتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «{ وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَ لِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ يَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ [آل عمران: ۱۴۰] اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور تاکہ اللہ ان لوگوں کو جان لے جو ایمان لائے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے۔ اور فرمایا: «{ قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ [آل عمران: ۲۶] کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بے شک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
➑ { وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ:} اور وہی عزیز (سب پر غالب) ہے، جسے وہ نصرت سے نواز دے پھر کوئی اس پر فتح نہیں پا سکتا، مگر اس کا غلبہ بے رحم نہیں، بلکہ وہ رحیم (بے حد رحم والا) ہے، جب چاہتا ہے مغلوب اور شکست خوردہ لوگوں کو پھر فتح سے ہمکنار کر دیتا ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

الم

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

معرکہ روم و فارس کا انجام ٭٭
یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جبکہ نیشاپور کا شاہ فارس بلاد شام اور جزیرہ کے آس پاس کے شہروں پر غالب آ گیا اور روم کا بادشاہ ہرقل تنگ آ کر قسطنطیہ میں محصور ہو گیا۔ مدتوں محاصرہ رہا آخر پانسہ پلٹا اور ہرقل کی فتح ہوگئی۔ مفصل بیان آگے آ رہا ہے۔
مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ { رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی اور مشرکین نے اس پر بہت خوشیاں منائیں۔ اس لیے کہ جیسے یہ بت پرست تھے ایسے ہی فارس والے بھی ان سے ملتے جلتے تھے اور مسلمانوں کی چاہت تھی کہ رومی غالب آئیں اس لیے کم از کم وہ اہل کتاب تو تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے جب یہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { رومی عنقریب پھر غالب آ جائیں گے }۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مشرکین کو جب یہ خبر پہنچائی تو انہوں نے کہا آؤ کچھ شرط بدلو اور مدت مقرر کر لو اگر رومی اس مدت میں غالب نہ آئیں تو تم ہمیں اتنا اتنا دینار دینا اور اگر تم سچے نکلے تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ پانچ سال کی مدت مقرر ہوئی وہ مدت پوری ہوگئی اور رومی غالب نہ آئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ خبر پہنچائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے دس سال کی مدت مقرر کیوں نہ کی۔‏‏‏‏ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قرآن میں مدت کے لیے لفظ «بِضْعٌ» استعمال ہوا ہے اور یہ دس سے کم پر اطلاق کیا جاتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ دس سال کے اندر اندر رومی پھر غالب آ گئے۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3193،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏ امام ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے۔ سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کے بعد رومی بھی فارسیوں پر غالب آ گئے۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ { پانچ چیزیں گزرچکی ہیں دخان اور لزام اور بطشہ اور شق قمر کا معجزہ اور رومیوں کا غالب آنا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4767]‏‏‏‏۔
اور روایت میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شرط سات سال کی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ { «بِضْعٌ» کے کیا معنی تم میں ہوتے ہیں؟ } جواب دیا کہ دس سے کم۔ فرمایا: { پھر جاؤ مدت میں دو سال بڑھا دو } چنانچہ اسی مدت کے اندر اندر رومیوں کے غالب آجانے کی خبریں عرب میں پہنچ گئی۔ اور مسلمان خوشیاں منانے لگے۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:27876:مرسل]‏‏‏‏۔
اور روایت میں ہے کہ { مشرکوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے یہ آیت سن کر کہا کہ کیا تم اس میں بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مانتے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں اس پر شرط ٹھہری اور مدت گزر چکی اور رومی غالب نہ آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس شرط کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ ہوئے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ جواب ملا کہ اللہ اور اس کے رسول کی سچائی پر بھروسہ کر کے۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جاؤ اور مدت میں دس سال مقرر کر لو خواہ چیز بھی بڑھانی پڑے۔‏‏‏‏ آپ گئے مشرکین نے دوبارہ یہ مدت بڑھا کر شرط منظور کر لی۔ ابھی دس سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ رومی فارس پر غالب آ گئے اور مدائن میں ان کے لشکر پہنچ گئے۔ اور رومیہ کی بناء انہوں نے ڈال لی۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قریش سے شرط کا مال لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے صدقہ کر دو۱؎ [ابو یعلی فی المسند الکبیر کما فی المطالب:5/9:ضعیف]‏‏‏‏
اور روایت میں ہے کہ { یہ واقعہ ایسی شرط بد نے کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے۔ اس میں ہےکہ مدت چھ سال مقرر ہوئی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ پیشن گوئی پوری ہوئی اور رومی غالب ہوئے تو بہت سے مشرکین ایمان بھی لے آئے }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3194،قال الشيخ الألباني:حسن]‏‏‏‏۔
ایک بہت عجیب وغریب قصہ امام سنید ابن داؤد نے اپنی تفیسر میں وارد کیا ہے کہ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فارس میں ایک عورت تھی جس کے بچے زبردست پہلوان اور بادشاہ ہی ہوتے تھے۔ کسریٰ نے ایک مرتبہ اسے بلوایا اور اس سے کہا کہ میں رومیوں پر ایک لشکر بھیجنا چاہتا ہوں اور تیری اولاد میں سے کسی کو اس لشکر کا سردار بنانا چاہتا ہوں۔ اب تم مشورہ کر لو کہ کسے سردار بناؤں؟ اس نے کہا کہ میرا فلاں لڑکا تو لومڑی سے زیادہ مکار اور شکرے سے زیادہ ہوشیار ہے۔ دوسرا لڑکا فرخان تیر جیسا ہے۔ تیسرا لڑکا شہربراز سب سے زیادہ حلیم الطبع ہے۔ اب تم جسے چاہو سرداری دو۔‏‏‏‏
بادشاہ نے سوچ سمجھ کر شہربراز کو سردار بنایا۔ یہ لشکروں کو لے کر چلا رومیوں سے لڑا بھڑا اور ان پر غالب آگیا۔ ان کے لشکر کاٹ ڈالے ان کے شہر اجاڑ دئیے۔ ان کے باغات برباد کر دئیے اس سرسبز وشاداب ملک کو ویران وغارت کر دیا۔ اور اذرعات اور بصرہ میں جو عرب کی حدود سے ملتے ہیں ایک زبردست معرکہ ہوا۔ اور وہاں فارسی رومیوں پر غالب آ گئے۔ جس سے قریش خوشیاں منانے لگے اور مسلمان ناخوش ہوئے۔‏‏‏‏
کفار قریش مسلمانوں کو طعنے دینے لگے کہ دیکھو تم اور نصرانی اہل کتاب ہو اور ہم اور فارسی ان پڑھ ہیں ہمارے والے تمہارے والوں پر غالب آگئے۔ اسی طرح ہم بھی تم پر غالب آئیں گے اور اگر لڑائی ہوئی تم ہم بتلادیں گے کہ تم ان اہل کتاب کی طرح ہمارے ہاتھوں شکست اٹھاؤ گے۔ اس پر قرآن کی یہ آیتیں اتریں۔‏‏‏‏
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان آیتوں کو سن کر مشرکین کے پاس آئے اور فرمانے لگے اپنی اس فتح پر نہ اتراؤ یہ عنقریب شکست سے بدل جائے گی اور ہمارے بھائی اہل کتاب تمہارے بھائیوں پر غالب آئیں گے۔ اس بات کا یقین کر لو اس لیے کہ یہ میری بات نہیں بلکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی ہے۔‏‏‏‏
یہ سن کر ابی بن خلف کھڑا ہو کر کہنے لگا اے ابوالفضل تم جھوٹ کہتے ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے۔ اس نے کہا اچھا میں دس دس اونٹنیوں کی شرط باندھتا ہوں۔ اگر تین سال تک رومی فارسیوں پر غالب آ گئے تو میں تمہیں دس اونٹنیاں دونگا ورنہ تم مجھے دینا۔ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے یہ شرط قبول کر لی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر اس کا ذکر کیا تو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا { میں نے تم سے تین سال کا نہیں کہا تھا «بِضْعٌ» کا لفظ قرآن میں ہے اور تین سے نو تک بولاجاتا ہے۔ جاؤ اونٹنیاں بھی بڑھا دو اور مدت بھی بڑھا دو }۔
سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ چلے جب ابی کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا شاید تمہیں پچھتاوا ہوا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو! میں تو پہلے سے بھی زیادہ تیار ہو کر آیا ہوں۔ آؤ مدت بھی بڑھاؤ اور شرط کا مال بھی زیادہ کرو۔ چنانچہ ایک سو اونٹ مقرر ہوئے اور نو سال کی مدت ٹھہری اسی مدت میں رومی فارس پر غالب آ گئے اور مسلمان قریش پر چھا گئے۔
رومیوں کے غلبے کا واقعہ یوں ہوا کہ جب فارس غالب آگئے تو شہربراز کا بھائی فرخان شراب نوشی کرتے ہوئے کہنے لگا میں نے دیکھا ہے کہ گویا میں کسریٰ کے تخت پر آ گیا ہوں اور فارس کا بادشاہ بن گیا ہوں۔
یہ خبر کسریٰ کو بھی پہنچ گئی۔ کسریٰ نے شہربراز کو لکھا کہ میرا یہ خط پاتے ہی اپنے اس بھائی کو قتل کر کے اس کا سر میرے پاس بھیج دو۔ شہر برازنے لکھا کہ اے بادشاہ! تم اتنی جلدی نہ کرو۔ فرخان جیسا بہادر شیر اور جرات مند، دشمنوں کے جمگھٹے میں گھسنے والا کسی کو تم نہ پاؤ گے۔
بادشاہ نے پھر جواب لکھا کہ اس سے بہت زیادہ اور شیر دل پہلوان میرے دربار میں ایک سے بہتر ایک موجود ہیں تم اس کا غم نہ کرو اور میرے حکم کی فوراً تعمیل کرو۔ شہربراز نے پھر اس کا جواب لکھ اور دوبارہ بادشاہ کسریٰ کو سمجھایا اس پر بادشاہ آگ بگولا ہو گیا اس نے اعلان کر دیا کہ شہربراز سے میں نے سرداری چھین لی اور اس کی جگہ اس کے بھائی فرخان کو اپنے لشکر کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔
اسی مضمون کا ایک خط لکھ کر قاصد کے ہمراہ شہربزار کو بھیج دیا کہ تم آج سے معزول ہو اور تم اپنا عہدہ فرخان کو دے دو۔ ساتھ ہی قاصد کو ایک پوشیدہ خط دیا کہ شہربراز جب اپنے عہدے سے اترجائے اور فرخان اس عہدے پر آ جائے تو تم اسے میرا یہ فرمان دے دینا۔ قاصد جب وہاں پہنچا تو شہر براز نے خط پڑھتے ہی کہا کہ مجھے بادشاہ کا حکم منظور ہے، میں بخوشی اپنا عہدہ فرخان کو دے رہا ہوں۔
چنانچہ وہ تخت سے اتر گیا اور فرخان کو قبضہ دے دیا۔ فرخان جب تخت سلطنت پر بیٹھ گیا اور لشکر نے اس کی اطاعت قبول کر لی تو قاصد نے وہ دوسرا خط فرخان کے سامنے پیش کیا جس میں شہربراز کے قتل کا اور اس کا سر دربار شاہی میں بھیجنے کا فرمان تھا۔ فرخان نے اسے پڑھ کر شہر براز کو بلایا اور اس کی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔ شہربراز نے کہا بادشاہ جلدی نہ کر مجھے وصیت تو لکھ لینے دے۔ اس نے منظور کر لیا تو شہربراز نے اپنا دفتر منگوایا اور اس میں وہ کاغذات جو شاہ کسریٰ نے فرخان کے قتل کے لیے اسے لکھے تھے وہ سب نکالے اور فرخان کے سامنے پیش کئے اور کہا دیکھ اتنے سوال و جواب میرے اور بادشاہ کے درمیان تیرے بارے میں ہوئے۔ لیکن میں نے اپنی عقلمندی سے کام لیا اور عجلت نہ کی تو ایک خط دیکھتے ہی میرے قتل پر آمادہ ہو گیا ذرا سوچ لے، ان خطوط کو دیکھ کر فرخان کی آنکھیں کھل گئیں وہ فوراً تخت سے نیچے اترگیا اور اپنے بھائی شہربراز کو پھر سے مالک کل بنا دیا۔
شہربراز نے اسی وقت شاہ روم ہرقل کو خط لکھا کہ مجھے تم سے خفیہ ملاقات کرنی ہے اور ایک ضروری امر میں مشورہ کرنا ہے اسے میں نہ تو کسی قاصد کی معرفت آپ کو کہلوا سکتا ہوں نہ خط میں لکھ سکتا ہوں۔ بلکہ میں خود ہی آمنے سامنے پیش کرونگا۔ پچاس آدمی اپنے ساتھ لے کر خود آ جائے اور پچاس ہی میرے ساتھ ہونگے۔
قیصر کو جب یہ پیغام پہنچا تو وہ اس سے ملاقات کے لیے چل پڑا۔ لیکن احتیاطاً اپنے ساتھ پانچ ہزار سوار لے لیے، اور آگے آگے جاسوسوں کو بھیج دیا تاکہ کوئی مکر یا فریب ہو تو کھل جائے۔ جاسوسوں نے آ کر خبر دی کہ کوئی بات نہیں اور شہربراز تنہا اپنے ساتھ صرف پچاس سواروں کو لے کر آیا ہے اس کے ساتھ کوئی اور نہیں۔ چنانچہ قیصر نے بھی مطمئن ہو کر اپنے سواروں کو لوٹادیا اور اپنے ساتھ صرف پچاس آدمی رکھ لیے۔ جو جگہ ملاقات کی مقرر ہوئی تھی وہاں پہنچ گئے۔
وہاں ایک ریشمی قبہ تھا اس میں جا کر دونوں تنہا بیٹھ گئے پچاس پچاس آدمی الگ چھوڑ دئے گئے دونوں وہاں بے ہتھیار تھے صرف چھریاں پاس تھیں اور دونوں کی طرف سے ایک ترجمان ساتھ تھا۔ خیمہ میں پہنچ کر شہربراز نے کہا اے بادشاہ روم! بات یہ ہے کہ تمہارے ملک کو ویران کرنے والے اور تمہارے لشکروں کو شکست دینے والے ہم دونوں بھائی ہیں ہم نے اپنی چالاکیوں اور شجاعت سے یہ ملک اپنے قبضہ میں کر لیا ہے۔ لیکن اب ہمارا بادشاہ کسریٰ ہم سے حسد کرتا ہے اور ہمارا مخالف بن بیٹھا ہے مجھے اس نے میرے بھائی کو قتل کرنے کا فرمان بھیجا، میں نے فرمان کو نہ مانا تو اس نے اب یہ طے کر لیا ہے کہ ہم آپ کے لشکر میں آ جائیں اور کسریٰ کے لشکروں سے آپ کے ساتھ ہو کر لڑیں۔
قیصر نے یہ بات بڑی خوشی سے منظور کر لی۔ پھر ان دونوں میں آپس میں اشاروں کنایوں سے باتیں ہوئیں جن کامطلب یہ تھا کہ یہ دونوں ترجمان قتل کر دئیے جائیں ایسانہ ہو کہ یہ راز ان کی وجہ سے کھل جائے کیونکہ جہاں دو کے سوا تیسرے کے کان میں کوئی بات پہنچی تو پھر وہ پھیل جاتی ہے۔ دونوں اس پر اتفاق کر کے کھڑے ہو گئے اور ہر ایک نے اپنی چھری سے اپنے ترجمان کا کام تمام کر دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے کسریٰ کو ہلاک کر دیا اور حدیبیہ والے دن اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہت خوش ہوئے۔ یہ سیاق عجیب ہے اور یہ خبر غریب ہے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:27873:مرسل]‏‏‏‏
اب آیت کے الفاظ کے متعلق سنئے۔ حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں ہوتے ہیں ان کی بحث تو ہم کر چکے ہیں سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں دیکھ لیجئے۔ رومی سب کے سب عیص بن اسحاق بن ابراہیم کی نسل سے ہیں بنو اسرائیل کے چچا زاد بھائی ہیں۔ رومیوں کو بنو اصفر بھی کہتے ہیں یہ یونانیوں کے مذہب پر تھے یونانی یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں ترکوں کے چچا زاد بھائی ہوتے ہیں، یہ ستارہ پرست تھے ساتوں ستاروں کو مانتے اور پوجتے تھے۔ انہیں متحیرہ بھی کہا جاتا ہے یہ قطب شمالی کو قبلہ مانتے تھے۔
دمشق کی بنا انہی کے ہاتھوں پڑی ہے وہیں انہوں نے اپنی عبادت گاہ بنائی جس کے محراب شمال کی طرف ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے بعد بھی تین سو سال تک رومی اپنے پرانے خیالات پر ہی رہے ان میں سے جو کوئی شام کا اور جزیرے کا بادشاہ ہو جاتا اسے قیصر کہا جاتا تھا۔ سب سے پہلے رومیوں کا بادشاہ قسطنطین بن قسطس نے نصرانی مذہب قبول کیا۔ اس کی ماں کا نام مریم تھا۔ ہیلانیہ غندقانیہ تھی حران کی رہنے والی۔ پہلے اسی نے نصرانیت قبول کی تھی پھر اس کے کہنے سننے سے اس کے بیٹے نے بھی یہی مذہب اختیار کر لیا۔ یہ بڑا فلفسی عقلمند اور مکار آدمی تھا۔
یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے دراصل دل سے اس مذہب کو نہیں مانا تھا۔ اس کے زمانے میں نصرانی جمع ہوگئے۔ ان میں آپس میں مذہبی چھیڑ چھاڑ اور اختلاف اور مناظرے چھڑگئے۔ عبداللہ بن اویوس سے بڑے بڑے مناظرے ہوئے اور اس قدر انتشار اور تفریق ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ تین سو اٹھارہ پادریوں نے مل کر ایک کتاب لکھی جو بادشاہ کو دی گئی اور وہ شاہی عقیدہ تسلیم کی گئی۔ اسی کو امانت کبریٰ کہا جاتا ہے۔ جو درحقیقت خیانت صغریٰ ہے۔
یہیں فقہی کتابیں اسی کے زمانے میں لکھی گئیں، ان میں حلال حرام کے مسائل بیان کئے گئے اور ان علماء نے دل کھول کر جو چاہا ان میں لکھا۔ جس قدر جی میں آئی کمی یا زیادتی اصل دین مسیح میں کی۔ اور اصل مذہب محرف و مبدل ہوگیا مشرق کی جانب نمازیں پڑھنے لگے۔ بجائے ہفتہ کے اتوار کو بڑا دن بنایا۔ صلیب کی پرستش شروع ہو گئی۔ خنزیر کو حلال کر لیا گیا اور بہت سے تہوار ایجاد کر لیے جیسے عید صلیب،عید قدرس،عید غطاس وغیرہ وغیرہ۔
پھر ان علماء کے سلسلے قائم کئے گئے ایک تو بڑا پادری ہوتا تھا پھر اس کے نیچے درجہ بدرجہ اور محکمے ہوتے تھے۔ رہبانیت اور ترک دنیا کی بدعت بھی ایجاد کرلی۔ کلیسا اور گرجے بہت سارے بنالئے گئے اور شہر قسطنطیہ کی بنارکھی گئی۔ اور اس بڑے شہر کو اسی بادشاہ کے نام پر نامزد کیا گیا۔ اس بادشاہ نے بارہ ہزار (‏‏‏‏۱۲۰۰۰)‏‏‏‏‏‏‏‏ گرجے بنادئیے۔ تین محرابوں سے بیت لحم بنا۔ اس کی ماں نے بھی قمامہ بنایا۔ ان لوگوں کو ملکیہ کہتے ہیں اس لیے کہ یہ لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر تھے۔ ان کے بعد یعقوبہ پھر نسطوریہ۔ یہ سب نسطور کے مقلد تھے۔
پھر ان کے بہت سے گروہ تھے جیسے حدیث میں ہے کہ ان کے بہتر (‏‏‏‏٧٢)‏‏‏‏‏‏‏‏ فرقے ہوگئے۔ ان کی سلطنت برابر چلی آتی تھی ایک کے بعد ایک قیصر ہونا آتا تھا یہاں تک کہ آخر میں قیصر ہرقل ہوا۔ یہ تمام بادشاہوں سے زیادہ عقلمند تھا،بہت بڑا عالم تھا، دانائی زیرکی، دوراندیشی اور دور بینی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اس نے سلطنت بہت وسیع کر لی اور مملکت دوردراز تک پھیلادی۔
اس کے مقابلے میں فارس کا بادشاہ کسریٰ کھڑا ہوا اور چھوٹی چھوٹی سلطنتوں نے بھی اس کا ساتھ دیا اس کی سلطنت قیصر سے بھی زیادہ بڑی تھی۔ یہ مجوسی لوگ تھے آگ کو پوجتے تھے۔ مندرجہ بالا روایت میں تو ہے کہ اس کا سپہ سالار مقابلہ پر گیا۔
لیکن مشہور بات یہ ہے کہ خود کسریٰ اس کے مقابلے پر گیا۔ قیصر کو شکست ہوئی یہاں تک کہ وہ قسطنطیہ میں گھر گیا۔ نصرانی اس کی بڑی عزت اور تعظیم کرتے تھے گو کسریٰ لمبی مدت تک محاصرہ کئے پڑا رہا لیکن دارالسلطنت کو فتح نہ کر سکا۔
ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کا ملک نصف حصہ سمندر کی طرف تھا اور نصف خشکی کی طرف تھا۔ تو شاہ قیصر کو کمک اور رسد تری کے راستے سے برابر پہنچتی رہی آخر میں قیصر نے ایک چال چلی اس نے کسریٰ کو کہلوا بھیجا کہ آپ جو چاہیں مجھ سے تسلی لے لیجئے اور جن شرائط پر چاہیں مجھ سے صلح کر لیجئے۔ کسریٰ اس پر راضی ہو گیا اور اتنا مال طلب کیا کہ وہ اور یہ مل کر بھی جمع کرنا چاہے تو ناممکن تھا۔
قیصر نے اسے قبول کر لیا کیونکہ اس نے اس سے کسریٰ کی بیوقوبی کا پتہ چلا لیا کہ یہ وہ چیز مانگتا ہے جس کا جمع کرنا دنیا کے اختیار سے باہر ہے بلکہ ساری دنیا مل کر اس کا دسواں حصہ بھی جمع نہیں کر سکتی۔ قیصر نے کسرٰی سے کہلوا بھیجا کہ مجھے اجازت دے کہ میں اپنے ملک سے باہر چل پھر کر اس دولت کو جمع کر لوں اور آپ کو سونپ دو۔ اس نے یہ درخواست منظور کرلی۔
اب شاہ روم نے اپنے لشکر کو جمع کیا اور ان سے کہا میں ایک ضروری اور اہم کام کے لیے اپنے مخصوص احباب کے ساتھ جا رہا ہوں۔ اگر ایک سال کے اندر اندر آ جاؤں تو یہ ملک میرا ہے ورنہ تمہیں اختیار ہے جسے چاہو اپنا بادشاہ تسلیم کر لینا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے بادشاہ تو آپ ہی ہیں خواہ دس سال تک بھی آپ نہ لوٹے تو کیا ہوا۔ یہ یہاں سے مختصر سی جانباز جماعت لے کر چپ چاپ چل کھڑا ہوا۔ پوشیدہ راستوں سے نہایت ہوشیاری احتیاط اور چالاکی سے بہت جلد فارس کے شہروں تک پہنچ گیا اور یکایک دھاوا بول دیا چونکہ یہاں کی فوجیں تو روم پہنچ چکی تھیں عوام کہاں تک مقابلہ کرتے۔
اس نے قتل عام شروع کیا۔ جو سامنے آیا تلوار کے کام آیا یونہی بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ مدائن پہنچ گیا جو کسرٰی کی سلطنت کی کرسی تھی وہاں کی محافظ فوج پر بھی غالب آیا انہیں بھی قتل کر دیا اور چاروں طرف سے مال جمع کیا۔ ان کی تمام عورتوں کو قید کر لیا اور تمام لڑنے والوں کو قتل کر ڈالا۔ کسریٰ کے لڑکے کو زندہ گرفتار کیا اس محل سرائے کی عورتوں کو زندہ گرفتار کیا۔ اس کی دربارداری عورتیں وغیرہ بھی پکڑی گئیں اس کے لشکر کا سر منڈوا کر گدھے پر بٹھا کر عورتوں سمیت کسریٰ کی طرف بھیجا کہ لیجئے جو مال اور عورتیں اور غلام تو نے مانگے تھے وہ سب حاضر ہیں۔
جب یہ قافلہ کسریٰ کے پاس پہنچا کسریٰ کو سخت صدمہ ہوا یہ ابھی تک قسطنطیہ کا محاصرہ کئے پڑا تھا اور قیصر کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کے پاس اس کا کل خاندان اور ساری حرم سرا اس ذلت کی حالت میں پہنچی۔ یہ سخت غضبناک ہوا اور شہر پر بہت سخت حملہ کر دیا لیکن اس میں کوئی کامیابی نہ ہوئی اب یہ نہر جیحون کی طرف چلا کہ قیصر کو وہاں روک لے کیونکہ قیصر کا فارس سے قسطنطیہ آنے کا راستہ یہی تھا۔
قیصر نے اسے سن کر پہلے سے بھی زبردست حیلہ کیا یعنی اس نے اپنے لشکر کو تو دریا کے اس دہانے چھوڑا اور خود تھوڑے سے آدمی لے کر سوار ہو کر پانی کے بہاؤ کی طرف چل دیا کوئی ایک دن رات کا راستہ چلنے کے بعد اپنے ساتھ جو کٹی چارہ لید گوبر وغیرہ لے گیا تھا اسے پانی میں بہادیا۔ یہ چیزیں پانی میں بہتی ہوئی کسریٰ کے لشکر کے پاس سے گزریں تو وہ سمجھ گئے کہ قیصر یہاں سے گزر گیا ہے۔ یہ اس کے لشکروں کے جانوروں کے آثار ہیں۔
اب قیصر واپس اپنے لشکر میں پہنچ گیا ادھر کسریٰ اس کی تلاش میں آگے چلا گیا۔ قیصر اپنے لشکروں سمیت جیحون کا دہانہ عبور کر کے راستہ بدل کر قسطنطیہ پہنچ گیا۔ جس دن یہ اپنے دارالسلطنت میں پہنچا نصرانیوں میں بڑی خوشیاں منائی گئیں۔
کسریٰ کو جب یہ اطلاع ہوئی تو اس کا عجب حال ہوا کہ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن نہ تو روم ہی فتح ہوا اور نہ فارس ہی رہا رومی غالب آ گئے۔ فارس کی عورتیں اور وہاں کے مال ان کے قبضے میں آئے۔ یہ کل امور نو سال میں ہوئے اور رومیوں نے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت فارسیوں سے دوبارہ لے لی اور مغلوب ہو کر غالب آ گئے۔
اذراعات اور بصرہ کے معرکے میں اہل فارس غالب آ گئے تھے اور یہ ملک شام کا وہ حصہ تھا جو حجاز سے ملتا تھا یہ بھی قول ہے کہ یہ ہزیمت جزیرہ میں ہوئی تھی جو رومیوں کی سرحد کا مقام ہے اور فارس سے ملتا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ پھر نو سال کے اندر اندر رومی فارسیوں پر غالب آ گئے۔
قرآن کریم میں لفظ «بِضْعٌ» کا ہے اور اس کا اطلاق بھی نو تک ہوتا ہے اور یہی تفسیر اس لفظ کی ترمذی اور ابن جریر والی حدیث میں ہے۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ { تمہیں احیتاطاً دس سال تک رکھنے چاہیئے تھے کیونکہ «بِضْعٌ» کے لفظ کا اطلاق تین سے نو تک ہوتا ہے } }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3191،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏
اس کے بعد «قَبْلُ» اور «بَعْدُ» پر پیش اضافت ہٹادینے کی وجہ سے ہے کہ اس کے بعد حکم اللہ ہی کا ہے اس دن جب کہ روم فارس پر غالب آ جائے گا تو مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ بدر کی لڑائی والے دن رومی فارسیوں پر غالب آ گئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، سدی، ثوری اور ابوسعید رحمہ اللہ علیہم یہی فرماتے ہیں ۱؎ [سنن ترمذي:3192،قال الشيخ الألباني:صحیح لغیرہ]‏‏‏‏
ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ غلبہ حدیبیہ والے سال ہوا تھا عکرمہ، زہری اور قتادۃ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی قول ہے۔ بعض نے اس کی توجیہہ یہ بیان کی کہ قیصر روم نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے فارس پر غالب کرے گا تو وہ اس کے شکر میں پیادہ بیت المقدس تک جائے گا چنانچہ اس نے اپنی نذر پوری کی اور بیت المقدس پہنچا۔
یہ یہیں تھا اور اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی معرفت بصریٰ کے گورنر کو بھیجا تھا اور اس نے ہرقل کو پہنچایا تھا ہرقل نے نامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاتے ہی شام میں جو حجازی عرب تھے انہیں اپنے پاس بلایا ان میں ابوسفیان صخر بن حرب اموی بھی تھا اور دوسرے بھی قریش کے ذی عزت بڑے بڑے لوگ تھے۔ اس نے ان سب کو اپنے سامنے بٹھا کر ان سے پوچھا کہ تم میں سے اس کا سب زیادہ قریبی رشتہ دار کون ہے؟ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ ابوسفیان نے کہا میں ہوں۔ بادشاہ نے انہیں آگے بٹھا لیا اور ان کے ساتھیوں کو پیچھے بٹھا لیا اور ان سے کہا کہ دیکھو میں اس شخص سے چند سوالات کرونگا اگریہ کسی سوال کا غلط جواب دے تو تم اس کو جھٹلادینا۔
ابوسفیان کا قول ہے کہ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ اگر میں جھوٹ بولوں گا تو لوگ اس کو ظاہر کر دیں گے اور پھر اس جھوٹ کو میری طرف نسبت کریں گے تو یقیناً میں جھوٹ بولتا۔ اب ہرقل نے بہت سے سوالات کئے۔ مثلا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حسب نسب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و عادات کے متعلق وغیرہ وغیرہ۔
ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا وہ غداری کرتا ہے؟ ابوسفیان نے کہا کہ آج تک تو کبھی بد عہدی، وعدہ شکنی اور غداری کی نہیں۔ اس وقت ہم میں اس میں ایک معاہدہ ہے نہ جانے اس میں وہ کیا کرے؟ ابوسفیان کے اس قول سے مراد صلح حدیبیہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان یہ بات ٹھہری تھی کہ آپس میں دس سال تک کوئی لڑائی نہ ہوگی۔ یہ واقعہ اس قول کی پوری دلیل بن سکتا ہے کہ رومی فارس پر حدیبیہ والے سال غالب آئے تھے۔ اس لیے کہ قیصر نے اپنی نذر حدیبیہ کے بعد پوری کی تھی «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
لیکن اس کا جواب وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ غلبہ روم فارس پر بدر والے سال ہوا تھا یہ دے سکتے ہیں کہ چونکہ ملک کی اقتصادی اور مالی حالت خراب ہو چکی تھی ویرانی غیر آبادی وتنگ حالی بہت بڑھ گئی تھی، اس لیے چار سال تک ہرقل نے اپنی پوری توجہ ملک کی خوشحالی اور آبادی پر رکھی۔ اس کے بعد اس طرف سے اطمینان حاصل کر کے نذر کو پوری کرنے کے لیے روانہ ہوا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
یہ اختلاف کوئی ایسا اہم امر نہیں۔ ہاں مسلمان رومیوں کے غلبہ سے خوش ہوئے اس لیے کہ وہ کیسے ہی ہوں تاہم تھے اہل کتاب۔ اور ان کے مقابلے مجوسیوں کی جماعت تھی جنہیں کتاب سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ تو لازمی امر تھا کہ مسلمان ان کے غلبے سے ناخوش ہوں اور رومیوں کے غلبے سے خوش ہوں۔
خود قرآن میں موجود ہے کہ «لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ» ’ ایمان والوں کے سب سے زیادہ دشمن یہود اور مشرک ہیں اور ان سے دوستیاں رکھنے میں سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس لیے کہ ان میں علماء اور درویش لوگ ہیں اور یہ متکبر نہیں۔ قرآن سن کر یہ رو دیتے ہیں کیونکہ حق کو جان لیتے ہیں پھر اقرار کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم ایمان لائے تو ہمیں بھی ماننے والوں میں کر لے ‘۔ ۱؎ [5-المائدة:82-83]‏‏‏‏
پس یہاں بھی یہی فرمایا کہ ’ مسلمان اس دن خوش ہونگے جس دن اللہ تعالیٰ رومیوں کی مدد کرے گا وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے وہ بڑا غالب اور بہت مہربان ہے ‘۔
زبیر کلابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے فارسیوں کا رومیوں پر غالب آنا پھر رومیوں کا فارسیوں پر غالب آنا پھر روم اور فارس دونوں پر مسلمانوں کا غالب آنا اپنی آنکھوں سے پندرہ سال کے اندر دیکھا لیا۔
آخر آیت میں فرمایا ’ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں سے بدلہ اور انتقام لینے پر قادر اور اپنے دوستوں کی خطاؤں اور لغزشوں سے در گزر فرمانے والا ہے۔ جو خبر تمہیں دی ہے کہ رومی عنقریب فارسیوں پر غالب آ جائیں گے یہ اللہ کی خبر ہے رب کا وعدہ ہے پرودگار کا فیصلہ ہے۔ ناممکن ہے کہ غلط نکلے ٹل جائے یاخلاف ہو جائے۔ جو حق کے قریب ہو اسے بھی رب حق سے بہت دور والوں پر غالب رکھتے ہیں ہاں اللہ کی حکمتوں کو کم علم نہیں جان سکتے ‘۔
اکثر لوگ دنیا کا علم تو خوب رکھتے ہیں اس کی گھتیاں منٹوں میں سلجھا دیتے ہیں اس میں خوب دماغ دوڑاتے ہیں۔ اس کے برے بھلے نقصان کو پہچان لیتے ہیں بہ یک نگاہ اس کی اونچ نیچ دیکھ لیتے ہیں۔ دنیا کمانے کا پیسے جوڑنے کا خوب سلیقہ رکھتے ہیں لیکن امور دین میں اخروی کاموں میں محض جاہل غبی اور کم فہم ہوتے ہیں۔ یہاں نہ ذہن کام کرے نہ سمجھ پہنچ سکے نہ غورو فکر کی عادت۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں کہ نماز تک تو ٹھیک پڑھ نہیں سکتے لیکن درہم چٹکی میں لیتے ہی وزن بتا دیا کرتے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں دنیا کی آبادی اور رونق کی تو بیسیوں صورتیں ان کا ذہن گھڑ لیتا ہے۔ لیکن دین میں محض جاہل اور آخرت سے بالکل غافل ہیں۔‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل