ترجمہ و تفسیر — سورۃ الفرقان (25) — آیت 76
خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ حَسُنَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۷۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں۔ وہ ٹھہرنے اور رہنے کی اچھی جگہ ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور وہ ٹھیرنے اور رہنے کی بہت ہی عمدہ جگہ ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وه بہت ہی اچھی جگہ اور عمده مقام ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی

(آیت 77،76) ➊ { قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ: مَا } یہاں نافیہ بھی ہو سکتا ہے اور استفہامیہ بھی، یعنی میرا رب تمھاری پروا نہیں کرتا، یا میرا رب تمھاری کیا پروا کرے گا؟ میرا رب اس لیے فرمایا کہ خطاب کفار سے ہے، جو کما حقہ اسے رب نہیں مانتے۔
➋ { لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ:} یہ خطاب کفار سے ہے، کیونکہ آگے فرمایا ہے: «{ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ }» سو بے شک تم نے جھٹلا دیا۔ {دُعَآؤُكُمْ } کا معنی ابن عباس رضی اللہ عنھما نے {إِيْمَانُكُمْ} کیا ہے۔ [ طبري بطریق علي بن أبي طلحۃ و ذکرہ البخاري ] یعنی میرا رب تمھیں مہلت اس لیے دے رہا ہے کہ تم اس پر ایمان لے آؤ، اس کی عبادت کرو اور اس سے دعا کرو، کیونکہ اس نے جنّ و انس کو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا ہے، سو اگر تم ایمان لا کر اس کی عبادت نہ کرو اور اس کے حضور دعائیں نہ کرو تو اسے تمھاری کچھ پروا نہیں ہے۔
ایک تفسیر اس کی یہ بھی ہے کہ کفار بھی شدید مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے ان کی التجا سن کر مصیبت دور بھی کر دیتا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۴۰، ۴۱)، یونس (۲۲)، عنکبوت (۶۵)، روم (۳۳) اور لقمان (۳۲) فرمایا، اللہ تعالیٰ جو تمھیں مہلت دے رہا ہے اور تمھاری پکار پر مشکلات بھی دور کر دیتا ہے، یہ صرف تمھارے اس کو پکارنے کی وجہ سے ہے، اس کے باوجود تم نے جھٹلا دیا ہے تو سن لو کہ اس کا عذاب تمھیں پہنچ کر رہے گا۔ چنانچہ دنیا ہی میں جنگِ بدر اور دوسرے موقعوں پر انھوں نے وہ عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور قیامت بھی کچھ دور نہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

مومنوں کے اعمال اور اللہ کے انعامات ٭٭
مومنوں کی پاک صفتیں، ان کے بھلے اقوال، عمدہ افعال بیان فرما کر ان کا بدلہ بیان ہو رہا ہے کہ انہیں جنت ملے گی جو بلند تر جگہ ہے۔ اس وجہ سے کہ یہ ان کے اوصاف پر جمے رہے۔ وہاں ان کی عزت ہو گی، اکرام ہو گا، ادب و تعظیم ہو گی، احترام اور توقیر ہو گی۔ ان کے لیے سلامتی ہے، ان پر سلامتی ہے، ہر دروازہ جنت سے فرشتے حاضر خدمت ہوتے ہیں اور سلام کر کے کہتے ہیں کہ تمہارا انجام بہتر ہو گیا کیونکہ تم صبر کرنے والے تھے۔
یہ وہاں ہمیشہ رہیں گے، نہ نکلیں، نہ نکالے جائیں، نہ نعمتیں کم ہوں، نہ راحتیں فنا ہوں۔ یہ سعید بخت ہیں۔ جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے رہنے سہنے، راحت و آرام کرنے کی جگہ بڑی سہانی و پاک، صاف، طیب و طاہر ہے۔ دیکھنے میں خوش منظر، رہنے میں آرام دہ۔
اللہ نے اپنی مخلوق کو اپنی عبادت اور تسبیح و تہلیل کے لیے پیدا کیا ہے۔ اگر مخلوق یہ نہ بجا لائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہایت حقیر ہے۔ ایمان کے بغیر انسان ناکارہ محض ہے۔ اگر اللہ کو کافروں کی چاہت ہوتی تو وہ انہیں بھی اپنی عبادت کی طرف جھکا دیتا لیکن اللہ کے نزدیک یہ کسی گنتی میں ہی نہیں۔
کافرو! تم نے جھٹلایا۔ اب تم نہ سمجھو کہ بس معاملہ ختم ہو گیا۔ نہیں اس کا وبال تمہارے ساتھ ہی ساتھ ہے، دنیا اور آخرت میں تم برباد ہو گے اور عذاب اللہ تم سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی بدر کے دن کی کفار کی ہزیمت اور شکست تھی جیسے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی ہے: قیامت کے دن کی سزا ابھی باقی ہے۔
الحمدللہ کہ سورۃ الفرقان کی تفسیر ختم ہوئی۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل