ترجمہ و تفسیر — سورۃ الفرقان (25) — آیت 65
وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ﴿٭ۖ۶۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے۔ بے شک اس کا عذاب ہمیشہ چمٹ جانے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے واﻻ ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی

(آیت 65) ➊ { وَ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا …:} مخلوق اور خالق کے ساتھ اپنا معاملہ درست کرنے کے باوجود ان میں غرور یا خود پسندی کا شائبہ تک نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق سمجھتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور عفو کے طلب گار اور عذاب جہنم سے بچنے کے خواست گار رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون کی آیت (۶۰): «{ وَ الَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ }» (اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں) میں ان کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے اور سورۂ ذاریات کی آیت (۱۷، ۱۸): «{ كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ (17) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ}» (وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے) میں مذکور ساری رات قیام کے بعد سحریوں کے وقت استغفار کا باعث بھی ان کا یہی احساس ہوتا ہے۔
➋ {اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا: غَرَامًا } چمٹ جانے والا جس طرح مقروض جب تک قرض ادا نہ کرے غریم (قرض خواہ) اس کی جان نہیں چھوڑتا، جیسے شاعر نے کہا ہے:
{سَتَعْلَمُ لَيْلٰي أَيَّ دَيْنٍ تَدَانَيَتْ
وَ أَيَّ غَرِيْمٍ فِي التَّقَاضِيْ غَرِيْمُهَا}
لیلیٰ جان لے گی کہ اس نے کون سا قرض اٹھا لیا ہے اور تقاضا کرنے میں اس کا قرض خواہ کیسا قرض خواہ ہے؟
یہ جملہ عباد الرحمان کا قول بھی ہو سکتا ہے اور رب رحمان کا فرمان بھی۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

65-1اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آجائیں، اس لئے وہ عذاب جہنم سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کے باوجود اللہ کے عذاب اور اس کے مؤاخذے سے انسان کو بےخوف اور اپنی عبادت و اطاعت الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ (وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ) 23۔ المومنون:60) اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انھیں بارگاہ الہی میں حاضر ہونا ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا بھی کہ ان کا صدقہ و خیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انھیں اے ابوبکر ؓ کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نا مقبول نہ ہوجائیں۔ الترمذی۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کے لیے تفسیر ابن کثیر دستیاب نہیں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل