ترجمہ و تفسیر — سورۃ الفرقان (25) — آیت 51
وَ لَوۡ شِئۡنَا لَبَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ نَّذِیۡرًا ﴿۫ۖ۵۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اگر ہم چاہتے تو ضرور ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ڈرانے والا بھیج دیتے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر ہم چاہتے تو ہر ہر بستی میں ایک ایک ڈرانے واﻻ بھیج دیتے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی

(آیت 51) ➊ { وَ لَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيْرًا:} یعنی جس طرح ہم نے بارش کو مختلف شہروں اور ملکوں میں بانٹ دیا، اگر ہم چاہتے تو اسی طرح ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے، مگر ہم نے ایسا نہیں چاہا، کیونکہ اس سے الگ الگ امتیں وجود میں آتیں، جن کا آپس میں اختلاف ہوتا، اس لیے ہم نے ساری زمین کے لیے ایک آفتاب کی طرح سب کے لیے ایک ہی ڈرانے والا مقرر فرمایا کہ سب اس کی اطاعت کریں اور ان کے انکار کی صورت میں وہ سب کے ساتھ قتال کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیامت تک کے تمام لوگوں کے لیے نذیر ہونے کا ذکر اسی سورت کے شروع میں بھی ہے: «{ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا }» مزید حوالہ جات کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۱۵۸)۔
➋ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کمال قوت اور بے نیازی کا اظہار بھی ہے اور اس کی حکمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال نعمت کا بھی۔ فرمایا اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے اور جس شان کا چاہتے بھیج دیتے، کسی کی جرأت نہ تھی کہ ہمیں روک سکتا، مگر ہم نے یہ نہیں چاہا، بلکہ یہ چاہا ہے کہ یہ عزت و رفعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے، فرمایا: «{ وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ }» [ الم نشرح: ۴ ] اور ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا۔ اور فرمایا: «{ عَسٰۤى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا }» [ بني إسرائیل: ۷۹ ] قریب ہے کہ تیر ارب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

51-1لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور صرف آپ کو ہی تمام بستیوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

النبی کل عالم علیہ السلام ٭٭
اگر رب چاہتا تو ہر ہر بستی میں ایک ایک نبی بھیج دیتا۔ اس نے تمام دنیا کی طرف صرف ایک ہی نبی بھیجا ہے اور پھر اسے حکم دے دیا کہ قرآن کا وعظ سب کو سنا دے۔ جیسے فرمان ہے کہ میں اس قرآن سے تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ہوشیار کر دوں اور ان تمام جماعتوں میں سے جو بھی کفر کرے، اس کے ٹھہرنے کی جگہ جہنم ہے۔ اور فرمان ہے کہ ’ تو مکے والوں کو اور چاروں طرف کے لوگوں کو آگاہ کر دے۔ ‘ ۱؎ [6-الأنعام:92] ‏‏‏‏
اور آیت میں ہے کہ ’ اے نبی! آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بن کر آیا ہوں۔ ‘ ۱؎ [7-الأعراف:158] ‏‏‏‏
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے: { میں سرخ و سیاہ سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ } ۱؎ [صحیح مسلم:3] ‏‏‏‏
بخاری و مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ { تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:335] ‏‏‏‏
پھر فرمایا: کافروں کا کہنا نہ ماننا اور اس قرآن کے ساتھ ان سے بہت بڑا جہاد کرنا۔ جیسے ارشاد ہے «يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ» ۱؎ [9-التوبة:73] ‏‏‏‏ یعنی ’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کافروں سے اور منافقوں سے جہاد کرتے رہو۔
اسی رب نے پانی کو دو طرح کا کر دیا ہے، میٹھا اور کھاری۔ نہروں، چشموں اور کنوؤں کا پانی عموماً شیریں، صاف اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ بعض ٹھہرے ہوئے سمندروں کا پانی کھاری اور بدمزہ ہوتا ہے۔
اللہ کی اس نعمت پر بھی شکر کرنا چاہیے کہ اس نے میٹھے پانی کی چاروں طرف ریل پیل کر دی تاکہ لوگوں کو نہانے دھونے اور اپنے کھیت اور باغات کو پانی دینے میں آسانی رہے۔ مشرقوں اور مغربوں میں محیط سمندر کھاری پانی کے اس نے بہا دیئے جو ٹھہرے ہوئے ہیں، ادھر ادھر بہتے نہیں لیکن موجیں مار رہے ہیں، تلاطم پیدا کر رہے ہیں، بعض میں مدوجزر ہے،۔ ہر مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں تو ان میں زیادتی اور بہاؤ ہوتا ہے پھر چاند کے گھٹنے کے ساتھ وہ گھٹتا جاتا ہے یہاں تک آخر میں اپنی حالت پر آ جاتا ہے پھر جہاں چاند چڑھا، یہ بھی چڑھنے لگا۔ چودہ تاریخ تک برابر چاند کے ساتھ چڑھتا رہا، پھر اترنا شروع ہوا۔ ان تمام سمندروں کو اسی اللہ نے پیدا کیا ہے، وہ پوری اور زبردست قدرت والا ہے۔
کھاری اور گرم پانی گو پینے کے کام نہیں آتا لیکن ہواؤں کو صاف کر دیتا ہے۔ جس سے انسانی زندگی ہلاکت میں نہ پڑے۔ اس میں جو جانور مر جاتے ہیں، ان کی بدبو دنیا والوں کو ستا نہیں سکتی اور کھاری پانی کے سبب سے اس کی ہوا صحت بخش اور اس کا مردہ پاک، طیب ہوتا ہے۔
{ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب سمندر کے پانی کی نسبت سوال ہوا کہ کیا ہم اس سے وضو کر لیں؟ تو آپ نے فرمایا: اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔ } ۱؎ [سنن ابوداود:83،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ مالک، شافعی رحمۃ اللہ علیہما اور اہل سنن رحمۃ اللہ علیہم نے اسے روایت کیا ہے اور اسناد بھی صحیح ہے۔
پھر اس کی قدرت دیکھو کہ محض اپنی طاقت سے اور اپنے حکم سے ایک دوسرے سے جدا رکھا ہے۔ نہ کھاری میٹھے میں مل سکے، نہ میٹھا کھاری میں مل سکے۔ جیسے فرمان ہے «مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ» ۱؎ [55-الرحمن:19-21] ‏‏‏‏ ’ اس نے دونوں سمندر جاری کر دئیے ہیں کہ دونوں مل جائیں اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب قائم کر دیا ہے کہ حد سے نہ بڑھیں۔ پھر تم اپنے رب کی کس نعمت کے منکر ہو؟ ‘
اور آیت میں ہے: ’ کون ہے وہ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس میں جگہ جگہ دریا جاری کر دئیے، اس پر پہاڑ قائم کر دئیے اور سمندروں کے درمیان اوٹ کر دی۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بات یہ ہے کہ ان مشرکوں کے اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ ‘ ۱؎ [27-النمل:61] ‏‏‏‏
اس نے انسان کو ضعیف نطفے سے پیدا کیا ہے پھر ٹھیک ٹھاک اور برابر بنایا ہے۔ اور اچھی پیدائش میں پیدا کر کے پھر اسے مرد یا عورت بنایا۔ پھر اس کے لیے نسب کے رشتےدار بنا دئیے پھر کچھ مدت بعد سسرالی رشتے قائم کر دئیے۔ اتنے بڑے قادر اللہ کی قدرتیں تمہارے سامنے ہیں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل