ترجمہ و تفسیر — سورۃ الفرقان (25) — آیت 31
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ؕ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّ نَصِیۡرًا ﴿۳۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے کوئی نہ کوئی دشمن بنایا اور تیرا رب ہدایت دینے والا اور مدد کرنے والا کافی ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اسی طرح ہم نے گنہگاروں میں سے ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا۔ اور تمہارا پروردگار ہدایت دینے اور مدد کرنے کو کافی ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بعض گناه گاروں کو بنادیا ہے اور تیرا رب ہی ہدایت کرنے واﻻ اور مدد کرنے واﻻ کافی ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی

(آیت 31) ➊ { وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ:} چونکہ اس شکایت میں دل کی جلن اور شدید غم کا اظہار تھا، اس لیے اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو تسلی دی کہ قرآن کو چھوڑنے والوں کا یہ طرز عمل صرف تمھارے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ پہلے انبیاء کے ساتھ بھی ایسے ہی رہا ہے۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۱۲، ۱۲۳)۔
➋ { وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّ نَصِيْرًا:} اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو بشارتیں دی ہیں، ایک یہ کہ جو لوگ اب اعراض کر رہے ہیں ان میں سے کئی ہدایت قبول کریں گے، یا ان کی پشتوں سے آنے والے ہدایت قبول کریں گے، جیسا کہ پہاڑوں کے فرشتے نے اللہ کے حکم سے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کش کی کہ اگر آپ چاہیں تو میں ان پر مکہ کے دو پہاڑوں کو آپس میں ملا دوں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا ] [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین …: ۳۲۳۱ ] بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے۔ اور دوسری بشارت نصرتِ الٰہی کی ہے۔ { وَ كَفٰى بِرَبِّكَ هَادِيًا وَّ نَصِيْرًا } میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اپنے سارے کام اس کے سپرد کر دو، کیونکہ ہدایت و نصرت کے لیے کفایت کرنے والا وہی ہے۔ (ابن عاشور)

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

31-1یعنی جس طرح اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہگار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے (مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ) 6۔ الانعام:112) میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ 31-2یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

شکایت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ٭٭
قیامت والے دن اللہ کے سچے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ نہ یہ لوگ قرآن کی طرف مائل تھے، نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے۔ جیسے کہ کفار کا مقولہ خود قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے «وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ» ۱؎ [41-فصلت:26] ‏‏‏‏ ’ اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور و غل کرو۔ ‘
یہی اس کا چھوڑ رکھنا تھا۔ نہ اس پر ایمان لاتے تھے، نہ اسے سچا جانتے تھے، نہ اس پر غور و فکر کرتے تھے، نہ ہی اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ نہ اس پر عمل تھا، نہ اس کے احکام کو بجا لاتے تھے، نہ اس کے منع کردہ کاموں سے رکتے تھے بلکہ اس کے سوا اور کاموں میں مشغول و منہمک رہتے تھے جیسے شعر، اشعار، غزلیات، باجے، گانے، راگ، راگنیاں، اسی طرح اور لوگوں کے کلام سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے، یہی اسے چھوڑ دینا تھا۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم و منان، جو ہر چیز پر قادر ہے، ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے ناپسندیدہ کاموں سے دست بردار ہو جائیں اور اس کے پسندیدہ کاموں کی طرف جھک جائیں۔ وہ ہمیں اپنے کلام کی سمجھ دے اور دن رات اس پر عمل کرنے کی ہدایت دے، جس سے وہ خوش ہو۔ وہ کریم و وہاب ہے۔
پھر فرمایا: جس طرح اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم میں قرآن کو نظر انداز کر دینے والے لوگ ہیں۔ اسی طرح اگلی امتوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو خود کفر کر کے دوسروں کو اپنے کفر میں شریک کار کرتے تھے اور اپنی گمراہی کے پھیلانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔
جیسے فرمان ہے «وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ» ۱؎ [6-الأنعام:112] ‏‏‏‏ یعنی ’ اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیاطین و انسان بنا دئیے ہیں۔ ‘
پھر فرمایا: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرے، کتاب اللہ پر ایمان لائے، اللہ کی وحی پر یقین کرے، اس کا ہادی اور ناصر خود اللہ تعالیٰ ہے۔
مشرکوں کی جو خصلت اوپر بیان ہوئی، اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کو ہدایت پر نہ آنے دیں اور آپ مسلمانوں پر غالب رہیں۔ اس لیے قرآن نے فیصلہ کیا کہ یہ نامراد ہی رہیں گے۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو خود ہدایت کرے گا اور مسلمان کی خود مدد کرے گا۔ یہ معاملہ اور ایسوں کا مقابلہ کچھ تجھ سے ہی نہیں، تمام اگلے نبیوں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل