ترجمہ و تفسیر — سورۃ الفرقان (25) — آیت 29
لَقَدۡ اَضَلَّنِیۡ عَنِ الذِّکۡرِ بَعۡدَ اِذۡ جَآءَنِیۡ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِلۡاِنۡسَانِ خَذُوۡلًا ﴿۲۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک اس نے تو مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا، اس کے بعد کہ میرے پاس آئی اور شیطان ہمیشہ انسان کو چھوڑ جانے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس نے مجھ کو (کتاب) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا۔ اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراه کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو (وقت پر) دغا دینے واﻻ ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد بھٹوی

(آیت 29) ➊ { لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِيْ:} اس میں اس تمنا کی وجہ بیان کی ہے کہ کاش! میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ وہ یہ کہ میرے پاس ({الذِّكْرِ}) کامل نصیحت آئی، مگر اس دوست نے مجھے اس کو قبول کرنے سے بے راہ کر دیا۔ { الذِّكْرِ } سے مراد کے لیے دیکھیے سورۂ حجر (۶، ۹)۔
➋ {وَ كَانَ الشَّيْطٰنُ …: الشَّيْطٰنُ شَطْنٌ} سے مشتق ہے، جس کا معنی دوری بھی ہے اور خباثت بھی۔ شیطان ہر وہ خبیث شخص ہے جو حق سے دور ہو، خواہ انسان ہو یا جن، کیونکہ شیطان دونوں ہی میں پائے جاتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ انعام (۱۱۲) {خَذُوْلًا } چھوڑ جانے والا، { كَانَ } کی وجہ سے ہمیشہ چھوڑ جانے والا ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی شیطان آدمی کو پہلے برے کام کی ترغیب دیتا ہے، جب آدمی وہ کام کر لیتا ہے اور مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اس کو چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۲۱، ۲۲) رہے دوست، تو قیامت کے دن متقی دوستوں کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ دیکھیے سورۂ زخرف (۶۷)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کے لیے تفسیر ابن کثیر دستیاب نہیں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل