ترجمہ و تفسیر — سورۃ المؤمنون (23) — آیت 2
الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو نماز میں عجزو نیاز کرتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 2) ➊ {الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ:} طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے {خٰشِعُوْنَ } کی تفسیر {خَائِفُوْنَ سَاكِنُوْنَ} روایت کی ہے۔ (طبری: ۲۵۶۲۷) یعنی وہ نماز میں دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور اس خوف کا ان کے جسم پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ نماز کے منافی کسی بھی حرکت سے اجتناب کرتے ہیں، نہ ادھر ادھر نگاہ پھیرتے ہیں، نہ اپنے کپڑے یا ڈاڑھی سے کھیلتے ہیں اور نہ انگلیاں چٹخاتے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر ادھر جھانکنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ] [بخاري، الأذان، باب الالتفات في الصلاۃ: ۷۵۱] یہ شیطان کا آدمی کی نماز سے اچک کر لے جانا ہے، جو شیطان بندے کی نماز سے اچک کر لے جاتا ہے۔
➋ اس آیت کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نمازمیں اپنی ڈاڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اگر اس کا دل خشوع کرتا تو اس کے دوسرے اعضا بھی خشوع کرتے۔ شیخ البانی نے {سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة(۱۱۰)} میں اس کا موضوع (خود بنائی ہوئی) ہونا دلائل سے ذکر فرمایا ہے۔
تنبیہ: نماز میں ڈاڑھی، کپڑے یا کسی بھی چیز سے کھیلنے اور بے مقصد حرکت کرنے کا خشوع، یعنی دل کے خوف اور جسم کے سکون کے منافی ہونا واضح بات ہے، مگر یہ ہرگز جائز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے وہ الفاظ لگائے جائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ] [بخاري، العلم، باب إثم من کذب…: ۱۱۰۔ مسلم: ۳]جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔
➌ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک باب باندھا ہے: نماز میں ہاتھ سے مدد لینے کا باب، جب وہ کام نماز ہی سے متعلق ہو۔ پھر اس عنوان کے تحت ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: آدمی نماز میں اپنے جسم سے جس طرح چاہے مدد حاصل کرے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ابو اسحاق نے نماز میں اپنی ٹوپی نیچے رکھی اور اسے اٹھایا اور علی رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی اپنی بائیں کلائی کے جوڑ پر رکھے رکھی، سوائے اس کے کہ اپنی جلد کو کھجلی کریں یا اپنا کپڑا درست کریں۔ اس کے بعد امام صاحب نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے وہ حدیث نقل کی ہے جس میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو کر رات کی نماز پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے (یعنی مجھے کان سے پکڑ کر دائیں طرف کیا)۔ [بخاري، العمل في الصلاۃ، باب استعانۃ الید في الصلاۃ إذا کان من أمر الصلاۃ: ۱۱۹۸]

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

2-1خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

دس آیتیں اور جنت کی ضمانت ٭٭
نسائی، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی، بھینی بھینی، ہلکی ہلکی سی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمارا اکرام کر، اہانت نہ کر، ہمیں انعام عطا فرما، محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں کے مقابلے میں فضیلت دے، ہم پر دوسروں کو پسند نہ فرما، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں۔ دعا «الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا» پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہو گیا۔ پھر آپ نے سورۃ المومنوں کی ابتدائی دس آیتیں تلاوت فرمائیں۔ [مسند احمد:34/1:ضعیف]‏‏‏‏
امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں۔ نسائی میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا، پھر ان آیتوں کی «وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ» [23-المؤمنون: 9]‏‏‏‏۔ تک تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے۔
مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا۔ [مسند بزار،3508:ضعیف]‏‏‏‏
اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی دل میں سمائیں۔ [طبرانی کبیر:11439:ضعیف]‏‏‏‏
اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا۔ [طبرانی:12723:ضعیف]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز ذمرد کی۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت «وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ» [59- الحشر: 9]‏‏‏‏ پڑھی۔[صفۃ الجنۃ لابن ابی الدنیا:20:ضعیف]‏‏‏‏
الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے، وہ سعادت پا گئے، انہوں نے نجات پالی۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ دل حاضر رکھتے ہیں، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہو گئیں، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کر لے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:25425:مرسل]‏‏‏‏
پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے، جس کا دل فارغ ہو، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچسپی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے [مسند احمد:128/3:حسن]‏‏‏‏
ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ۔
مومنوں کے اوصاف ٭٭
پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل، شرک، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بے فائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے «وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا» [25- الفرقان: 72]‏‏‏‏ وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اس کا بیان کیسے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے۔ دیکھئیے سورۃ الانعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے «‏‏‏‏وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلَا تُسْرِفُوا» ‏‏‏‏۔یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰۃ ادا کر دیا کرو۔[6-الأنعام:141]‏‏‏‏
ہاں یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک و کفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت «قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا» [91-الشمس:9-10]‏‏‏‏، جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اس نے فلاح پالی۔ اور جس نے اسے خراب کر لیا وہ نامراد ہوا۔
یہی ایک قول «و قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ» [41- فصلت: 7-6]‏‏‏‏ میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے «واللہ اعلم» ۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل