ترجمہ و تفسیر — سورۃ المؤمنون (23) — آیت 1
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
یقینا کامیاب ہوگئے مومن۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
بےشک ایمان والے رستگار ہوگئے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

یزید بن بابنوس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا: [يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ! كَيْفَ كَانَ خُلُقُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ؟ قَالَتْ كَانَ خُلُقُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ قَالَتْ تَقْرَأُ سُوْرَةَ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ اقْرَأْ: «قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ» حَتّٰی بَلَغَ الْعَشْرَ، فَقَالَتْ هٰكَذَا كَانَ خُلْقُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ] [مستدرک حاکم: 392/2، ح: ۳۴۸۱، قال الحاکم صحیح الإسناد۔ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل و من نام عنہ أو مرض: ۷۴۶]اے ام المومنین! ہمیں بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق کیا تھا؟ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا۔ پھر انھوں نے فرمایا: سورۂ مومنون پڑھتے ہو؟ پڑھو: «قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ» ‏‏‏‏ دس آیات تک تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق ایسے ہی تھا۔ ذہبی نے حاکم کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے {صحيح الأدب المفرد (۲۳۴)} میں اسے صحیح کہا ہے۔ خلق کا معنی ایسی عادت ہے جو آدمی کی پیدائشی اور طبعی عادت بن جائے اور کسی مشقت کے بغیر خود بخود ادا ہوتی رہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا کا مطلب یہ ہے کہ پورا قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت بن چکا تھا اور سورۂ مومنون کے شروع کی دس آیات میں جو اوصاف بیان ہوئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اس طرح آراستہ تھے کہ وہ آپ کی طبیعت بن چکے تھے۔
(آیت 1) ➊ {قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ: قَدْ } حرف { لَمَّا } کی نقیض ہے۔ { لَمَّا } کا مفہوم یہ ہے کہ متوقع کام ماضی میں ابھی تک نہیں ہوا، جیسا کہ فرمایا: «{ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَاۤ اَمَرَهٗ [عبس: ۲۳] ہر گز نہیں، ابھی تک اس (انسان) نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا تھا۔ جب کہ { قَدْ } ماضی کو حال کے قریب کر دیتا ہے اور جملہ فعلیہ میں تاکید کا وہی فائدہ دیتا ہے جو جملہ اسمیہ میں {إِنَّ} اور لام تاکید دیتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس کام کی توقع تھی وہ ماضی قریب میں یقینا واقع ہو چکا ہے۔ یعنی آگے ذکر کردہ صفات والے مومن یقینا فلاح پا چکے ہیں۔ مستقبل میں حاصل ہونے والی کامیابی کو یقینی ہونے کی وجہ سے { قَدْ } اور ماضی کے صیغہ { اَفْلَحَ } کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ (بقاعی وابن عاشور)
{ قَدْ } کے ساتھ تاکید کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بہت سی آیات میں ایمان والوں کو فلاح کی امید دلائی گئی تھی، جیسا کہ پچھلی سورت کے آخر میں فرمایا: «{ وَ افْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ [الحج: ۷۷] اور نیکی کرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ تو اس توقع کے پورا کرنے کی خوش خبری { قَدْ اَفْلَحَ } کے ساتھ بیان فرمائی۔ شاید نماز کی اقامت { قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ } میں حرف { قَدْ } اسی وجہ سے ہے کہ نمازی شوق سے جماعت کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ { قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ} اسی انتظار کا اثبات میں جواب ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يَا بِلَالُ! أَقِمِ الصَّلَاةَ أَرِحْنَا بِهَا] [أبو داوٗد، الأدب، باب في صلاۃ العتمۃ: ۴۹۸۵] بلال! نماز کھڑی کرو، ہمیں اس کے ساتھ راحت دلاؤ۔ (ابن عاشور)
➋ { اَفْلَحَ: اَلْفَلَحُ} لام کے فتحہ کے ساتھ اور {اَلْفَلَاحُ} کا معنی بھلائی کے کام میں کامیابی ہے اور {اَلْفَلْحُ} لام کے سکون کے ساتھ پھاڑنا۔ دونوں باب {مَنَعَ} سے آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے: {اَلْحَدِيْدُ بِالْحَدِيْدِ يُفْلَحُ} لوہا، لوہے کے ساتھ کاٹا جاتا ہے۔ کسان کو اسی لیے {اَلْفَلَّاحُ} کہتے ہیں کہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے۔ گویا فلاح وہ کامیابی ہے جو محنت و مشقت کے نتیجے میں حاصل ہو۔ کامیابی دنیا کی بھی ہے اور آخرت کی بھی۔
➌ { قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ } میں یہ بتایا ہے کہ بعد میں ذکر کردہ صفات والے مومن یقینا کامیاب ہو گئے، مگر یہ نہیں بتایا کہ کس چیز میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بات ان آیات کے آخر میں بیان فرمائی ہے، فرمایا: «{ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ (10) الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ [المؤمنون: ۱۰، ۱۱] یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے۔ یعنی کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی ہے، کیونکہ حقیقی زندگی وہی ہے، فرمایا: «{ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ [العنکبوت: ۶۴] اور بے شک آخری گھر، یقینا وہی اصل زندگی ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔ دنیا کی زندگی نہ حقیقی زندگی ہے اور نہ اس کی کامیابی حقیقی کامیابی، فرمایا: «{ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ [آل عمران: ۱۸۵] پھر جو شخص آگ سے دور کر دیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔
➍ کامیاب ہونے والوں کے اوصاف میں سب سے پہلے ایمان کا ذکر فرمایا، کیونکہ ایمان ہی کامیابی کا اصل سبب ہے، پھر بعد کی آیات میں اہلِ ایمان کی چند مزید صفات بیان فرمائیں جو ایمان کے درست اور پختہ ہونے کی دلیل ہیں اور جن کے بغیر ایمان بے معنی ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی 1

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

دس آیتیں اور جنت کی ضمانت ٭٭
نسائی، ترمذی اور مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو ایک ایسی میٹھی میٹھی، بھینی بھینی، ہلکی ہلکی سی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سنی جاتی جیسے شہد کی مکھیوں کے اڑنے کی بھنبھناہٹ کی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ یہی حالت طاری ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھی کہ اے اللہ تو ہمیں زیادہ کر، کم نہ کر، ہمارا اکرام کر، اہانت نہ کر، ہمیں انعام عطا فرما، محروم نہ رکھ، ہمیں دوسروں کے مقابلے میں فضیلت دے، ہم پر دوسروں کو پسند نہ فرما، ہم سے خوش ہو جا اور ہمیں خوش کر دے۔ عربی کے الفاظ یہ ہیں۔ دعا «الہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولاتہنا واعطنا ولاتحرمنا واثرنا ولاتوثرعلینا وارض عناوارضنا» پھر فرمایا مجھ پر دس آیتیں اتری ہیں، جو ان پر جم گیا وہ جنتی ہو گیا۔ پھر آپ نے سورۃ المومنوں کی ابتدائی دس آیتیں تلاوت فرمائیں۔ [مسند احمد:34/1:ضعیف]‏‏‏‏
امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو منکر بتاتے ہیں، کیونکہ اس کا راوی صرف یونس بن سلیم ہے جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں۔ نسائی میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کی بابت سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا، پھر ان آیتوں کی «وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ» [23-المؤمنون: 9]‏‏‏‏۔ تک تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تھے۔
مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن پیدا کی اور اس میں درخت وغیرہ اپنے ہاتھ سے لگائے تو اسے دیکھ کر فرمایا کچھ بول۔ اس نے یہی آیتیں تلاوت کیں جو قرآن میں نازل ہوئیں۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہے۔ فرشتے اس میں جب داخل ہوئے، کہنے لگے واہ واہ یہ تو بادشاہوں کی جگہ ہے۔ اور روایت میں ہے اس کا گارہ مشک کا تھا۔ [مسند بزار،3508:ضعیف]‏‏‏‏
اور روایت میں ہے کہ اس میں وہ وہ چیزیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی دل میں سمائیں۔ [طبرانی کبیر:11439:ضعیف]‏‏‏‏
اور روایت میں ہے کہ جنت نے جب ان آیتوں کی تلاوت کی تو جناب باری نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی اور جلال کی قسم تجھ میں بخیل ہرگز داخل نہیں ہوسکتا۔ [طبرانی:12723:ضعیف]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے کہ اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے اور دوسری سرخ یاقوت کی اور تیسری سبز ذمرد کی۔ اس کا گارہ مشک کا ہے اس کی گھاس زعفران ہے۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ اس حدیث کو بیان فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت «وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ» [59- الحشر: 9]‏‏‏‏ پڑھی۔[صفۃ الجنۃ لابن ابی الدنیا:20:ضعیف]‏‏‏‏
الغرض فرمان ہے کہ مومن مراد کو پہنچ گئے، وہ سعادت پا گئے، انہوں نے نجات پالی۔ ان مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں خشوع اور سکون کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ دل حاضر رکھتے ہیں، نگاہیں نیچی ہوتی ہیں، بازو جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان کی نگاہیں نیچی ہو گئیں، سجدے کی جگہ سے اپنی نگاہ نہیں ہٹاتے تھے۔ اور یہ بھی مروی ہے کہ جائے نماز سے ادھر ادھر ان کی نظر نہیں جاتی تھی اگر کسی کو اس کے سوا عادت پڑگئی ہو تو اسے چاہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کر لے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:25425:مرسل]‏‏‏‏
پس یہ خضوع و خشوع اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے، جس کا دل فارغ ہو، خلوص حاصل ہو اور نماز میں پوری دلچسپی ہو اور تمام کاموں سے زیادہ اسی میں دل لگتا ہو۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے خوشبو اور عورتیں زیادہ پسند ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے [مسند احمد:128/3:حسن]‏‏‏‏
ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ نے نماز کے وقت اپنی لونڈی سے کہا کہ پانی لاؤ، نماز پڑھ کر راحت حاصل کروں تو سننے والوں کو ان کی یہ بات گراں گزری۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے۔ اے بلال اٹھو اور نماز کے ساتھ ہمیں راحت پہنچاؤ۔
مومنوں کے اوصاف ٭٭
پھر اور وصف بیان ہوا کہ وہ باطل، شرک، گناہ اور ہر ایک بیہودہ اور بے فائدہ قول وعمل سے بچتے ہیں۔ جیسے فرمان ہے «وَاِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا» [25- الفرقان: 72]‏‏‏‏ وہ لغو بات سے بزرگانہ گزر جاتے ہیں وہ برائی اور بےسود کاموں سے اللہ کی روک کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔ اور انکا یہ وصف ہے کہ یہ مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں لیکن اس میں ایک بات یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال میں ہوتی ہے پھر مکی آیت میں اس کا بیان کیسے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل زکوٰۃ تو مکہ میں واجب ہو چکی تھی ہاں اس کی مقدار، مال کا نصاب وغیرہ یہ سب احکام مدینے میں مقرر ہوئے۔ دیکھئیے سورۃ الانعام بھی مکی ہے اور اس میں یہی زکوٰۃ کا حکم موجود ہے «‏‏‏‏وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلَا تُسْرِفُوا» ‏‏‏‏۔یعنی کھیتی کے کٹنے والے دن اس کی زکوٰۃ ادا کر دیا کرو۔[6-الأنعام:141]‏‏‏‏
ہاں یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ مراد زکوٰۃ سے یہاں نفس کو شرک و کفر کے میل کچیل سے پاک کرنا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت «قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا» [91-الشمس:9-10]‏‏‏‏، جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اس نے فلاح پالی۔ اور جس نے اسے خراب کر لیا وہ نامراد ہوا۔
یہی ایک قول «و قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ» [41- فصلت: 7-6]‏‏‏‏ میں بھی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں دونوں زکاتیں ایک ساتھ مراد لی جائیں۔ یعنی زکوٰۃ نفس بھی اور زکوٰۃ مال بھی۔ فی الواقع مومن کامل وہی ہے جو اپنے نفس کو بھی پاک رکھے اور اپنے مال کی بھی زکوٰۃ دے «واللہ اعلم» ۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل