یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ کہ قیامت کا زلزلہ ایک حادثہٴ عظیم ہوگا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2،1) ➊ { يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ:” النَّاسُ “} کے ساتھ مسلم و کافر اور آیت کے نزول کے وقت موجود یا بعد میں قیامت تک آنے والے تمام لوگ مخاطب ہیں۔ بعض لوگ {” يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ “} کے ساتھ سورت کے آغاز کو اس کے مکی ہونے کی دلیل بناتے ہیں مگر یہ قاعدہ کلی نہیں، کیونکہ مدنی سورتوں میں بھی {” يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ “} کے ساتھ خطاب آیا ہے، مثلاً سورۂ بقرہ میں ہے: «{ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ }» [البقرۃ: ۲۱] مفسرین کے مطابق اس سورت میں مدنی آیات بھی ہیں، مثلاً آیت (۳۹): «{ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ }» اور مکی بھی، مگر وہ ملی جلی ہیں، الگ الگ ہر ایک کے مکی یا مدنی ہونے کی تعیین معلوم نہیں۔ (قرطبی)
➋ { اتَّقُوْا رَبَّكُمْ:} تقویٰ کا معنی بچنا بھی ہے اور ڈرنا بھی، کیونکہ آدمی جس سے ڈرتا ہے اس سے بچتا ہے، یعنی اپنے اس محسن کے عذاب سے بچو جو پیدا کرنے سے لے کر اب تک تمھاری پرورش کر رہا ہے اور تم پر بے شمار احسان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر اس چیز سے بچو جو تمھیں اس کی سزا کا حق دار بنا سکتی ہے، خواہ وہ اس کے فرائض کا ترک ہو یا اس کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب، ان دونوں سے بچنا ہی اس کا تقویٰ ہے۔
➌ { اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ:” زَلْزَلَةَ “ ”زَلْزَلَ يُزَلْزِلُ“} سے {” فَعْلَلَةٌ “} کے وزن پر مصدر ہے، بہت سخت ہلانا۔ {” السَّاعَةِ “} کا لفظی معنی گھڑی اور لمحہ ہے۔ قیامت کو {” السَّاعَةِ “} اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک لمحے میں برپا ہو جائے گی۔ {” اِنَّ “} ایسے موقع پر اس سے پہلے والی بات کی وجہ بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اپنے رب سے اس لیے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس میں مزید خوف کی بات یہ ہے کہ وہ صرف انسانی پیمانے کے مطابق عظیم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اسے عظیم فرما رہے ہیں، اب اس کی عظمت اور ہولناکی کا کوئی اندازہ ہو سکتا ہے؟
➍ {يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ: ” تَرَوْنَهَا “} میں{ ”هَا“} کی ضمیر {” زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “} میں {” زَلْزَلَةَ “} کی طرف بھی جا سکتی ہے، معنی یہ ہو گا کہ جس دن تم اس زلزلے کو دیکھو گے اور {” السَّاعَةِ “ } کی طرف بھی، اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ جس دن تم اس قیامت کو دیکھو گے۔ {” ذُهُوْلٌ “} کا معنی ہے ایسی غفلت جس کے ساتھ دہشت یا خوف بھی ہو۔ {”مُرْضِعَةٍ “} عورت جس وقت بچے کو دودھ پلا رہی ہو اس وقت اسے {”مُرْضِعَةٌ“ } کہتے ہیں۔ وہ صفات جو صرف عورتوں میں پائی جاتی ہیں ان کے ساتھ ”تاء“ نہیں لگائی جاتی، مثلاً {”حَائِضٌ، حَامِلٌ، مُرْضِعٌ“} ان کے ساتھ ”تاء“ اس وقت لگائی جاتی ہے جب وہ اس کام میں مصروف ہوں، مثلاً کوئی بھی عورت جو کسی بھی وقت دودھ پلاتی ہے {” مُرْضِعٌ “} کہلائے گی، {” مُرْضِعَةٌ “} اس وقت ہو گی جس وقت وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہو۔ مطلب اس وقت کی ہولناکی بیان کرنا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، جسے اپنے بچے سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی، اس زلزلہ کی وجہ سے عین دودھ پلاتے ہوئے ایسی دہشت زدہ ہو گی کہ اسے اپنے بچے تک کی ہوش نہیں ہو گی۔
➎ {وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا:} حاملہ عورت کو {”حَامِلٌ“} کہتے ہیں، مگر یہ لفظ بوجھ اٹھانے والے کسی بھی شخص پر بولا جا سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے {”حَامِلٌ“} کی جگہ {” ذَاتِ حَمْلٍ “} (حمل والی) کا لفظ استعمال فرمایا۔ دوسری جگہ فرمایا: «{ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ }» [الطلاق: ۴] ”حمل والی (عورتوں کو طلاق ہو جائے) تو ان کی عدت یہ ہے کہ وہ حمل وضع کر لیں۔“ مراد قیامت یا قیامت کے زلزلے کی شدت کا بیان ہے کہ ہر حمل والی اپنا حمل (جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق {” فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ “} بہت محفوظ ٹھکانے میں ہے) اس دن کی شدت کی وجہ سے گرا دے گی۔
➏ {وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى …: ” سُكٰرٰى “ ”سَكْرَانُ“} یا {”سَكِرٌ“} کی جمع ہے، جیسے {”كَسْلَانٌ“} کی جمع {”كُسَالٰي“} ہے، یعنی تم لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ نشے میں ہیں، انھیں کچھ ہوش نہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے جس کی وجہ سے انھیں کوئی ہوش نہیں رہے گا۔ مفسر قاسمی رحمہ اللہ نے {” سُكٰرٰى “} کو مجاز کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے، وہ فرماتے ہیں، مجاز وہ ہوتا ہے جو کسی چیز پر بولا بھی جا سکے اور اس کی نفی بھی ہو سکے، مثلاً حمزہ، سعد اور علی شیر تھے، یہ بھی درست ہے اور یہ بھی درست ہے کہ وہ شیر نہیں تھے۔ اسی طرح کسی کو بے سمجھی کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ فلاں گدھا ہے، جب کہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ گدھا نہیں ہے۔
➐ {زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ:} مفسرین میں اختلاف ہے کہ قیامت کے اس زلزلے سے کیا مراد ہے؟ اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید کی سب سے معتبر تفسیر وہ ہے جو خود قرآن میں آئی ہو، اس کے بعد وہ جو صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس زلزلے کا موقع جو صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے، وہ ہے جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، اے آدم! وہ عرض کریں گے، لبیک و سعدیک! بار بار حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں اور بھلائی ساری تیرے ہاتھ میں ہے۔اللہ فرمائیں گے، آگ والی جماعت نکال کر الگ کر دو۔ وہ کہیں گے، اور آگ والی جماعت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ تو اس وقت بچہ بوڑھا ہو جائے گا: «{ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ }» ”اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے والے دیکھے گا، حالانکہ وہ نشے والے نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔“ تو یہ بات صحابہ پر بہت سخت گزری، انھوں نے کہا: ”یا رسول اللہ! وہ آدمی ہم میں سے کون ہو گا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار ہوں گے اور تم میں سے ایک ہو گا۔“ پھر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تو امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو گے۔“ راوی نے کہا، یہ سن کر ہم نے اللہ کی حمد کی اور تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے۔ دوسری امتوں کے مقابلے میں تمھاری مثال سیاہ بیل کی جلد میں ایک سفید بال کی سی ہے یا جس طرح گدھے کے بازو کے اندرونی جانب ایک گول نشان ہوتا ہے۔“ [بخاري، الرقاق، باب «ان زلزلۃ الساعۃ شیء عظیم» …: ۶۵۳۰۔مسلم، الإیمان، باب قولہ: یقول اللہ لآدم أخرج بعث النار…: ۲۲۲]
یہ صحیح حدیث دلیل ہے کہ اس آیت میں مذکور زلزلے سے مراد وہ وقت ہے جب آدم علیہ السلام کو ایک ہزار میں سے نو سو نناوے آدمی جہنم کے لیے نکال کر الگ کرنے کا حکم ہو گا۔ اس وقت لوگوں پر ایسا زلزلہ طاری ہو گا، وہ ایسے شدید ہلائے جائیں گے اور اس قدر خوف زدہ ہوں گے کہ جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کو آیت کا مصداق قرار دینے پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس وقت نہ کوئی حاملہ ہو گی اور نہ دودھ پلانے والی، تو حاملہ حمل کیسے گرائے گی اور دودھ پلانے والی اپنے بچے سے کیسے غافل ہو گی؟ اس لیے اس آیت سے وہ وقت مراد نہیں، بلکہ ایک صاحب نے تسلیم کرکے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، اسے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ کوئی ایسے حضرات کو سمجھائے کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم نہیں تھا، پھر انھوں نے یہ کیوں فرمایا؟ دراصل ایسے حضرات نے کلام کے اسلوب کو سمجھا ہی نہیں، یہ تو اس وقت کی ہولناکی اور شدت سے استعارہ ہے کہ اگر اس وقت حاملہ عورتیں ہوں تو سب کا حمل گر جائے گا اور اگر دودھ پلانے والیاں ہوں تو وہ اپنے بچے سے غافل ہو جائیں گی۔ اس سوال کا اس سے بھی مضبوط جواب یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: [يُبْعَثُ كُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَيْهِ] [مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب الأمر بحسن الظن باللہ…: ۲۸۷۸] ”ہر بندہ اس حالت پر اٹھے گا جس پر فوت ہوا تھا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والیاں اور حمل والیاں صرف پہلے نفخہ کے وقت ہی اس حال میں نہیں ہوں گی بلکہ قیامت والے دن اٹھتے وقت بھی ان کی یہی حالت ہو گی۔ اس سے منکرین حدیث کا سوال سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ ابن جریر، بقاعی اور بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ صحیح حدیث کے بعد کوئی اور تفسیر معتبر نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا مصداق قیامت کا پہلا نفخہ لیا ہے اور صور میں تین نفخے بتائے ہیں، ایک نفخۂ فزع، ایک نفخۂ صعق اور ایک نفخۂ بعث۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے وہ زلزلہ مراد ہے جو پہلے نفخہ یعنی نفخۂ فزع سے پیدا ہو گا، کیونکہ قیامت کو تو نہ کوئی حاملہ ہو گی اور نہ دودھ پلانے والی۔ اس نفخے سے ہر چیز درہم برہم ہو جائے گی، اس وقت جو بھی دودھ پلانے والی عورت ہو گی وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے سے غافل ہو جائے گی۔ علقمہ اور شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ طبری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس قول پر مشتمل مرفوع حدیث یہ کہہ کر نقل کی ہے کہ اس کی اسناد میں نظر ہے (کیونکہ اس میں دو راوی مجہول ہیں)۔ طبری فرماتے ہیں: ”یہ قول ہی اصل قول ہوتا اگر صحیح احادیث اس کے خلاف نہ آتیں، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحی اور قرآن کے معانی کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔“ علاوہ ازیں تحقیق یہی ہے کہ نفخے دو ہی ہیں، تین نفخوں والی یہ روایت ثابت نہیں۔ امام بقاعی اور صاحب احسن التفسیر نے ایک بہت اچھی بات فرمائی ہے: ”عین ممکن ہے کہ {” زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “} سے یہ زلزلہ بھی مراد ہو جو آدم علیہ السلام کو اہل نار کے الگ نکالنے کے حکم کے وقت پیدا ہو گا اور اس سے پہلے کے زلزلے بھی (یعنی صور میں پہلی پھونک کا زلزلہ اور دوبارہ پھونک کا زلزلہ، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر محشر کی طرف دوڑیں گے) کیونکہ قیامت کا دن بہت لمبا (پچاس ہزار سال کا) ہے تو ہر زلزلے کی نسبت قیامت کی طرف درست ہے۔“ اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس طویل دن میں کتنے زلزلے برپا ہوں گے جو سب کے سب {” زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “} ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اپنی پناہ میں رکھے۔
➋ { اتَّقُوْا رَبَّكُمْ:} تقویٰ کا معنی بچنا بھی ہے اور ڈرنا بھی، کیونکہ آدمی جس سے ڈرتا ہے اس سے بچتا ہے، یعنی اپنے اس محسن کے عذاب سے بچو جو پیدا کرنے سے لے کر اب تک تمھاری پرورش کر رہا ہے اور تم پر بے شمار احسان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر اس چیز سے بچو جو تمھیں اس کی سزا کا حق دار بنا سکتی ہے، خواہ وہ اس کے فرائض کا ترک ہو یا اس کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب، ان دونوں سے بچنا ہی اس کا تقویٰ ہے۔
➌ { اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ:” زَلْزَلَةَ “ ”زَلْزَلَ يُزَلْزِلُ“} سے {” فَعْلَلَةٌ “} کے وزن پر مصدر ہے، بہت سخت ہلانا۔ {” السَّاعَةِ “} کا لفظی معنی گھڑی اور لمحہ ہے۔ قیامت کو {” السَّاعَةِ “} اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک لمحے میں برپا ہو جائے گی۔ {” اِنَّ “} ایسے موقع پر اس سے پہلے والی بات کی وجہ بیان کرنے کے لیے آتا ہے، یعنی اپنے رب سے اس لیے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس میں مزید خوف کی بات یہ ہے کہ وہ صرف انسانی پیمانے کے مطابق عظیم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اسے عظیم فرما رہے ہیں، اب اس کی عظمت اور ہولناکی کا کوئی اندازہ ہو سکتا ہے؟
➍ {يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّاۤ اَرْضَعَتْ: ” تَرَوْنَهَا “} میں{ ”هَا“} کی ضمیر {” زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “} میں {” زَلْزَلَةَ “} کی طرف بھی جا سکتی ہے، معنی یہ ہو گا کہ جس دن تم اس زلزلے کو دیکھو گے اور {” السَّاعَةِ “ } کی طرف بھی، اس صورت میں معنی یہ ہو گا کہ جس دن تم اس قیامت کو دیکھو گے۔ {” ذُهُوْلٌ “} کا معنی ہے ایسی غفلت جس کے ساتھ دہشت یا خوف بھی ہو۔ {”مُرْضِعَةٍ “} عورت جس وقت بچے کو دودھ پلا رہی ہو اس وقت اسے {”مُرْضِعَةٌ“ } کہتے ہیں۔ وہ صفات جو صرف عورتوں میں پائی جاتی ہیں ان کے ساتھ ”تاء“ نہیں لگائی جاتی، مثلاً {”حَائِضٌ، حَامِلٌ، مُرْضِعٌ“} ان کے ساتھ ”تاء“ اس وقت لگائی جاتی ہے جب وہ اس کام میں مصروف ہوں، مثلاً کوئی بھی عورت جو کسی بھی وقت دودھ پلاتی ہے {” مُرْضِعٌ “} کہلائے گی، {” مُرْضِعَةٌ “} اس وقت ہو گی جس وقت وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہو۔ مطلب اس وقت کی ہولناکی بیان کرنا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، جسے اپنے بچے سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی، اس زلزلہ کی وجہ سے عین دودھ پلاتے ہوئے ایسی دہشت زدہ ہو گی کہ اسے اپنے بچے تک کی ہوش نہیں ہو گی۔
➎ {وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا:} حاملہ عورت کو {”حَامِلٌ“} کہتے ہیں، مگر یہ لفظ بوجھ اٹھانے والے کسی بھی شخص پر بولا جا سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے {”حَامِلٌ“} کی جگہ {” ذَاتِ حَمْلٍ “} (حمل والی) کا لفظ استعمال فرمایا۔ دوسری جگہ فرمایا: «{ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ }» [الطلاق: ۴] ”حمل والی (عورتوں کو طلاق ہو جائے) تو ان کی عدت یہ ہے کہ وہ حمل وضع کر لیں۔“ مراد قیامت یا قیامت کے زلزلے کی شدت کا بیان ہے کہ ہر حمل والی اپنا حمل (جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق {” فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ “} بہت محفوظ ٹھکانے میں ہے) اس دن کی شدت کی وجہ سے گرا دے گی۔
➏ {وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى …: ” سُكٰرٰى “ ”سَكْرَانُ“} یا {”سَكِرٌ“} کی جمع ہے، جیسے {”كَسْلَانٌ“} کی جمع {”كُسَالٰي“} ہے، یعنی تم لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ نشے میں ہیں، انھیں کچھ ہوش نہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے جس کی وجہ سے انھیں کوئی ہوش نہیں رہے گا۔ مفسر قاسمی رحمہ اللہ نے {” سُكٰرٰى “} کو مجاز کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے، وہ فرماتے ہیں، مجاز وہ ہوتا ہے جو کسی چیز پر بولا بھی جا سکے اور اس کی نفی بھی ہو سکے، مثلاً حمزہ، سعد اور علی شیر تھے، یہ بھی درست ہے اور یہ بھی درست ہے کہ وہ شیر نہیں تھے۔ اسی طرح کسی کو بے سمجھی کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ فلاں گدھا ہے، جب کہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ گدھا نہیں ہے۔
➐ {زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ:} مفسرین میں اختلاف ہے کہ قیامت کے اس زلزلے سے کیا مراد ہے؟ اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید کی سب سے معتبر تفسیر وہ ہے جو خود قرآن میں آئی ہو، اس کے بعد وہ جو صحیح سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس زلزلے کا موقع جو صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے، وہ ہے جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، اے آدم! وہ عرض کریں گے، لبیک و سعدیک! بار بار حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں اور بھلائی ساری تیرے ہاتھ میں ہے۔اللہ فرمائیں گے، آگ والی جماعت نکال کر الگ کر دو۔ وہ کہیں گے، اور آگ والی جماعت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ تو اس وقت بچہ بوڑھا ہو جائے گا: «{ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ }» ”اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے والے دیکھے گا، حالانکہ وہ نشے والے نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔“ تو یہ بات صحابہ پر بہت سخت گزری، انھوں نے کہا: ”یا رسول اللہ! وہ آدمی ہم میں سے کون ہو گا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار ہوں گے اور تم میں سے ایک ہو گا۔“ پھر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تو امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو گے۔“ راوی نے کہا، یہ سن کر ہم نے اللہ کی حمد کی اور تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے۔ دوسری امتوں کے مقابلے میں تمھاری مثال سیاہ بیل کی جلد میں ایک سفید بال کی سی ہے یا جس طرح گدھے کے بازو کے اندرونی جانب ایک گول نشان ہوتا ہے۔“ [بخاري، الرقاق، باب «ان زلزلۃ الساعۃ شیء عظیم» …: ۶۵۳۰۔مسلم، الإیمان، باب قولہ: یقول اللہ لآدم أخرج بعث النار…: ۲۲۲]
یہ صحیح حدیث دلیل ہے کہ اس آیت میں مذکور زلزلے سے مراد وہ وقت ہے جب آدم علیہ السلام کو ایک ہزار میں سے نو سو نناوے آدمی جہنم کے لیے نکال کر الگ کرنے کا حکم ہو گا۔ اس وقت لوگوں پر ایسا زلزلہ طاری ہو گا، وہ ایسے شدید ہلائے جائیں گے اور اس قدر خوف زدہ ہوں گے کہ جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کو آیت کا مصداق قرار دینے پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس وقت نہ کوئی حاملہ ہو گی اور نہ دودھ پلانے والی، تو حاملہ حمل کیسے گرائے گی اور دودھ پلانے والی اپنے بچے سے کیسے غافل ہو گی؟ اس لیے اس آیت سے وہ وقت مراد نہیں، بلکہ ایک صاحب نے تسلیم کرکے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، اسے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ کوئی ایسے حضرات کو سمجھائے کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم نہیں تھا، پھر انھوں نے یہ کیوں فرمایا؟ دراصل ایسے حضرات نے کلام کے اسلوب کو سمجھا ہی نہیں، یہ تو اس وقت کی ہولناکی اور شدت سے استعارہ ہے کہ اگر اس وقت حاملہ عورتیں ہوں تو سب کا حمل گر جائے گا اور اگر دودھ پلانے والیاں ہوں تو وہ اپنے بچے سے غافل ہو جائیں گی۔ اس سوال کا اس سے بھی مضبوط جواب یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: [يُبْعَثُ كُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَيْهِ] [مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب الأمر بحسن الظن باللہ…: ۲۸۷۸] ”ہر بندہ اس حالت پر اٹھے گا جس پر فوت ہوا تھا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ دودھ پلانے والیاں اور حمل والیاں صرف پہلے نفخہ کے وقت ہی اس حال میں نہیں ہوں گی بلکہ قیامت والے دن اٹھتے وقت بھی ان کی یہی حالت ہو گی۔ اس سے منکرین حدیث کا سوال سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ ابن جریر، بقاعی اور بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ صحیح حدیث کے بعد کوئی اور تفسیر معتبر نہیں ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا مصداق قیامت کا پہلا نفخہ لیا ہے اور صور میں تین نفخے بتائے ہیں، ایک نفخۂ فزع، ایک نفخۂ صعق اور ایک نفخۂ بعث۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے وہ زلزلہ مراد ہے جو پہلے نفخہ یعنی نفخۂ فزع سے پیدا ہو گا، کیونکہ قیامت کو تو نہ کوئی حاملہ ہو گی اور نہ دودھ پلانے والی۔ اس نفخے سے ہر چیز درہم برہم ہو جائے گی، اس وقت جو بھی دودھ پلانے والی عورت ہو گی وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے سے غافل ہو جائے گی۔ علقمہ اور شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ طبری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس قول پر مشتمل مرفوع حدیث یہ کہہ کر نقل کی ہے کہ اس کی اسناد میں نظر ہے (کیونکہ اس میں دو راوی مجہول ہیں)۔ طبری فرماتے ہیں: ”یہ قول ہی اصل قول ہوتا اگر صحیح احادیث اس کے خلاف نہ آتیں، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحی اور قرآن کے معانی کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔“ علاوہ ازیں تحقیق یہی ہے کہ نفخے دو ہی ہیں، تین نفخوں والی یہ روایت ثابت نہیں۔ امام بقاعی اور صاحب احسن التفسیر نے ایک بہت اچھی بات فرمائی ہے: ”عین ممکن ہے کہ {” زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “} سے یہ زلزلہ بھی مراد ہو جو آدم علیہ السلام کو اہل نار کے الگ نکالنے کے حکم کے وقت پیدا ہو گا اور اس سے پہلے کے زلزلے بھی (یعنی صور میں پہلی پھونک کا زلزلہ اور دوبارہ پھونک کا زلزلہ، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر محشر کی طرف دوڑیں گے) کیونکہ قیامت کا دن بہت لمبا (پچاس ہزار سال کا) ہے تو ہر زلزلے کی نسبت قیامت کی طرف درست ہے۔“ اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس طویل دن میں کتنے زلزلے برپا ہوں گے جو سب کے سب {” زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ “} ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل و کرم سے اپنی پناہ میں رکھے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
دعوت تقویٰ ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تقوے کا حکم فرماتا ہے اور آنے والے دہشت ناک امور سے ڈرا رہا ہے خصوصاً قیامت کے زلزلے سے۔ اس سے مراد یا تو وہ زلزلہ ہے جو قیامت کے قائم ہونے کے درمیان آئے گا۔
جیسے فرمان ہے آیت «إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا» ۱؎ [99-الزلزلة:2،1]، ’ زمین خوب اچھی طرح جھنجھوڑ دی جائے گی ‘۔
اور فرمایا آیت «وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ» ۱؎ [69-الحاقة:15،14] یعنی ’ زمین اور پہاڑ اٹھا کر باہم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دئے جائیں گے‘۔
اور فرمان ہے آیت «إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا» ۱؎ [56-الواقعة:6-4] یعنی ’ جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ‘۔
صور کی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ جب آسمان و زمین کو پیدا کر چکا تو صور کو پیدا کیا اسے اسرافیل علیہ السلام کو دیا وہ اسے منہ میں لیے ہوئے آنکھیں اوپر کو اٹھائے ہوئے عرش کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم الٰہی ہو اور وہ صور پھونک دیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! صور کیا چیز ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ایک پھونکنے کی چیز ہے بہت بری جس میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا پہلا نفخہ گھبراہٹ کا ہو گا دوسرا بے ہوشی کا تیسرا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا۔ اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہو گا وہ پھونکیں گے جس سے کل زمین و آسمان والے گھبرا اٹھیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے۔ بغیر رکے، بغیر سانس لیے بہت دیرتک برابر اسے پھونکتے رہیں گے } }۔
جیسے فرمان ہے آیت «إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا» ۱؎ [99-الزلزلة:2،1]، ’ زمین خوب اچھی طرح جھنجھوڑ دی جائے گی ‘۔
اور فرمایا آیت «وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ» ۱؎ [69-الحاقة:15،14] یعنی ’ زمین اور پہاڑ اٹھا کر باہم ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے کر دئے جائیں گے‘۔
اور فرمان ہے آیت «إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَكَانَتْ هَبَاءً مُّنبَثًّا» ۱؎ [56-الواقعة:6-4] یعنی ’ جب کہ زمین بڑے زور سے ہلنے لگے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ‘۔
صور کی حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ جب آسمان و زمین کو پیدا کر چکا تو صور کو پیدا کیا اسے اسرافیل علیہ السلام کو دیا وہ اسے منہ میں لیے ہوئے آنکھیں اوپر کو اٹھائے ہوئے عرش کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کب حکم الٰہی ہو اور وہ صور پھونک دیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! صور کیا چیز ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ایک پھونکنے کی چیز ہے بہت بری جس میں تین مرتبہ پھونکا جائے گا پہلا نفخہ گھبراہٹ کا ہو گا دوسرا بے ہوشی کا تیسرا اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کا۔ اسرافیل علیہ السلام کو حکم ہو گا وہ پھونکیں گے جس سے کل زمین و آسمان والے گھبرا اٹھیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے۔ بغیر رکے، بغیر سانس لیے بہت دیرتک برابر اسے پھونکتے رہیں گے } }۔
اسی پہلے صور کا ذکر آیت «وَمَا يَنظُرُ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍ» ۱؎ [38-ص:15] میں ہے اس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے زمین کپکپانے لگے گی۔
جیسے فرمان ہے آیت «يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ» ۱؎ [79-النازعات:8-6]، جب کہ زمین لرزنے لگے گی اور یکے بعد دیگرے زبردست جھٹکے لگیں گے دل دھڑکنے لگیں گے زمین کی وہ حالت ہو جائے گی جو کشتی کی طوفان میں اور گرداب میں ہوتی ہے یا جیسے کوئی قندیل عرش میں لٹک رہی ہو جسے ہوائیں چاروں طرف جھلارہی ہوں۔ آہ! یہی وقت ہو گا کہ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے اور بچے بوڑھے ہو جائیں گے شیاطین بھاگنے لگیں گے زمین کے کناروں تک پہنچ جائیں گے لیکن وہاں سے فرشتوں کی مار کھا کر لوٹ آئیں گے۔
لوگ ادھر ادھر حیران پریشان زمین ایک طرف سے دوسرے کو آوازیں دینے لگیں گے اسی لیے اس دن کا نام قرآن نے «يَوْمَ التَّنَاد» رکھا جیسے کہ آیت میں ہے «وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ» ۱؎ [40-غافر:32]۔ اسی وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت کی گھبراہٹ کا انداز نہیں ہوسکتا۔
اب آسمان میں انقلابات ظاہر ہوں گے سورج چاند بے نور ہو جائیں گے، ستارے جھڑنے لگیں گے اور کھال ادھڑنے لگے گی۔ زندہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ہاں مردہ لوگ اس سے بے خبر ہونگے آیت قرآن «وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ» ۱؎ [39-الزمر:68] میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بے ہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہو گی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا۔
یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہو گا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ اس سورت کی شروع کی آیتوں میں بیان فرماتا ہے۔ یہ حدیث طبرانی جریر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے اور بہت مطول ہے اس حصے کو نقل کرنے سے یہاں مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں جس زلزلے کا ذکر ہے یہ قیامت سے پہلے ہوگا۔ اور قیامت کی طرف اس کی اضافت بوجہ قرب اور نزدیکی کے ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے «اشراط الساعة» وغیرہ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
یا اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو قیام قیامت کے بعد میدان محشر میں ہو گا جب کہ لوگ قبروں سے نکل کرمیدان میں جمع ہوں گے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسے پسند فرماتے ہیں اس کی دلیل میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔
جیسے فرمان ہے آیت «يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ» ۱؎ [79-النازعات:8-6]، جب کہ زمین لرزنے لگے گی اور یکے بعد دیگرے زبردست جھٹکے لگیں گے دل دھڑکنے لگیں گے زمین کی وہ حالت ہو جائے گی جو کشتی کی طوفان میں اور گرداب میں ہوتی ہے یا جیسے کوئی قندیل عرش میں لٹک رہی ہو جسے ہوائیں چاروں طرف جھلارہی ہوں۔ آہ! یہی وقت ہو گا کہ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی اور حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے اور بچے بوڑھے ہو جائیں گے شیاطین بھاگنے لگیں گے زمین کے کناروں تک پہنچ جائیں گے لیکن وہاں سے فرشتوں کی مار کھا کر لوٹ آئیں گے۔
لوگ ادھر ادھر حیران پریشان زمین ایک طرف سے دوسرے کو آوازیں دینے لگیں گے اسی لیے اس دن کا نام قرآن نے «يَوْمَ التَّنَاد» رکھا جیسے کہ آیت میں ہے «وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ» ۱؎ [40-غافر:32]۔ اسی وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت زمین ایک طرف سے دوسری طرف تک پھٹ جائے گی اس وقت کی گھبراہٹ کا انداز نہیں ہوسکتا۔
اب آسمان میں انقلابات ظاہر ہوں گے سورج چاند بے نور ہو جائیں گے، ستارے جھڑنے لگیں گے اور کھال ادھڑنے لگے گی۔ زندہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ہاں مردہ لوگ اس سے بے خبر ہونگے آیت قرآن «وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاءَ اللّٰهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ» ۱؎ [39-الزمر:68] میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بے ہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہو گی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا۔
یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہو گا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ اس سورت کی شروع کی آیتوں میں بیان فرماتا ہے۔ یہ حدیث طبرانی جریر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے اور بہت مطول ہے اس حصے کو نقل کرنے سے یہاں مقصود یہ ہے کہ اس آیت میں جس زلزلے کا ذکر ہے یہ قیامت سے پہلے ہوگا۔ اور قیامت کی طرف اس کی اضافت بوجہ قرب اور نزدیکی کے ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے «اشراط الساعة» وغیرہ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
یا اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جو قیام قیامت کے بعد میدان محشر میں ہو گا جب کہ لوگ قبروں سے نکل کرمیدان میں جمع ہوں گے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسے پسند فرماتے ہیں اس کی دلیل میں بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔
(١) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم تیز تیز چل رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے با آواز بلند ان دونوں آیتوں کی تلاوت کی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے کان میں آواز پڑتے ہی وہ سب اپنی سواریاں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع ہو گے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جانتے ہو یہ کون سا دن ہو گا؟ یہ وہ دن ہو گا جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو فرمائے گا کہ اے آدم جہنم کا حصہ نکال۔ وہ کہیں گے اے اللہ کتنوں میں سے کتنے؟ فرمائے گا ہر ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم کے لیے اور ایک جنت کے لیے }۔
یہ سنتے ہی صحابہ کے دل دہل گئے، چپ لگ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ { غم نہ کرو، خوش ہو جاؤ، عمل کرتے رہو۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تمہارے ساتھ مخلوق کی وہ تعداد ہے کہ جس کے ساتھ ہو اسے بڑھا دے یعنی یاجوج ماجوج اور نبی آدم میں سے جو ہلاک ہو گئے اور ابلیس کی اولاد }۔
اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی گھبراہٹ کم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { عمل کرتے رہو اور خوشخبری سنو اس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم تو اور لوگوں کے مقابلے پر ایسے ہی ہو جیسے اونٹ کے پہلو کا یا جانور کے ہاتھ کا داغ } }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3169،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ { یہ آیت حالت سفر میں اتری۔ اس میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان سن کر رونے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { قریب قریب رہو اور ٹھیک ٹھاک رہو ہر نبوت کے پہلے جاہلیت کا زمانہ رہا ہے وہی اس گنتی کو پوری کر دے گا ورنہ منافقوں سے وہ گنتی پوری ہوگی } }۔
اس میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { مجھے تو امید ہے کہ اہل جنت کی چوتھائی صرف تم ہی ہو گے }۔ یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ اکبر کہا۔ ارشاد ہوا کہ { عجب نہیں کہ تم تہائی ہو }، اس پر انہوں نے پھر تکبیر کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { مجھے امید ہے کہ تم ہی نصفاً نصف ہو گے }، انہوں نے پھر تکبیر کہی }۔ راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوتہائیاں بھی فرمائیں یا نہیں؟ ۱؎ [سنن ترمذي:3168،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ { غزوہ تبوک سے واپسی میں مدینے کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت آیت شروع کی }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:24906:مرسل]
ایک اور روایت میں ہے کہ { جنوں اور انسانوں سے جو ہلاک ہوئے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:4910:صحیح]
اور روایت میں ہے کہ { تم تو ایک ہزار اجزا میں سے ایک جز ہی ہو }۔ ۱؎ [مسند بزار:3467:ضعیف]
یہ سنتے ہی صحابہ کے دل دہل گئے، چپ لگ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ { غم نہ کرو، خوش ہو جاؤ، عمل کرتے رہو۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تمہارے ساتھ مخلوق کی وہ تعداد ہے کہ جس کے ساتھ ہو اسے بڑھا دے یعنی یاجوج ماجوج اور نبی آدم میں سے جو ہلاک ہو گئے اور ابلیس کی اولاد }۔
اب صحابہ رضی اللہ عنہم کی گھبراہٹ کم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { عمل کرتے رہو اور خوشخبری سنو اس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم تو اور لوگوں کے مقابلے پر ایسے ہی ہو جیسے اونٹ کے پہلو کا یا جانور کے ہاتھ کا داغ } }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3169،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ { یہ آیت حالت سفر میں اتری۔ اس میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان سن کر رونے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { قریب قریب رہو اور ٹھیک ٹھاک رہو ہر نبوت کے پہلے جاہلیت کا زمانہ رہا ہے وہی اس گنتی کو پوری کر دے گا ورنہ منافقوں سے وہ گنتی پوری ہوگی } }۔
اس میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { مجھے تو امید ہے کہ اہل جنت کی چوتھائی صرف تم ہی ہو گے }۔ یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ اکبر کہا۔ ارشاد ہوا کہ { عجب نہیں کہ تم تہائی ہو }، اس پر انہوں نے پھر تکبیر کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { مجھے امید ہے کہ تم ہی نصفاً نصف ہو گے }، انہوں نے پھر تکبیر کہی }۔ راوی کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوتہائیاں بھی فرمائیں یا نہیں؟ ۱؎ [سنن ترمذي:3168،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ { غزوہ تبوک سے واپسی میں مدینے کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت آیت شروع کی }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:24906:مرسل]
ایک اور روایت میں ہے کہ { جنوں اور انسانوں سے جو ہلاک ہوئے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:4910:صحیح]
اور روایت میں ہے کہ { تم تو ایک ہزار اجزا میں سے ایک جز ہی ہو }۔ ۱؎ [مسند بزار:3467:ضعیف]
صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ { قیامت والے دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکارے گا وہ جواب دیں گے «لَبَّيْكَ رَبّنَا وَسَعْدَيْك» پھر آواز آئے گی کہ ’ اللہ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد میں جہنم کا حصہ نکال ‘، پوچھیں گے اللہ کتنا؟ حکم ہوگا ’ ہر ہزار میں سے نو سو نناوے ‘ اس وقت حاملہ کے حمل گرجائیں گے، بچے بوڑھے ہو جائیں گے، اور لوگ حواس باختہ ہو جائیں گے کسی نشے سے نہیں بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی کی وجہ سے۔ یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کے چہرے متغیر ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { یاجوج ماجوج میں سے نو سو ننانوے اور تم میں سے ایک۔ تم تو ایسے ہو جیسے سفید رنگ بیل کے چند سیاہ بال جو اس کے پہلو میں ہوں۔ یامثل چند سفید بالوں کے جو سیاہ رنگ بیل کے پہلو میں ہوں } }۔
پھر فرمایا { مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی گنتی میں تمہاری گنتی چوتھے حصے کی ہوگی }، ہم نے اس پر تکبیر کہی۔ پھر فرمایا { آدھی تعداد میں باقی سب اور آدھی تعداد صرف تمہاری }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4841]
اور روایت میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر وہ ایک خوش نصیب ہم میں سے کون ہوگا؟ جب کہ یہ حالت ہے }۔ ۱؎ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:3307،]
اور روایت میں ہے { تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدن بے ختنہ حاضر کئے جاؤ گے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرد عورتیں ایک ساتھ؟ ایک دوسرے پر نظریں پڑیں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { عائشہ وہ وقت نہایت سخت اور خطرناک ہو گا } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:6527]
مسند احمد میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ”میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا دوست اپنے دوست کو قیامت کے دن یاد کرے گا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { عائشہ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ اعمال کے تول کے وقت جب تک کمی زیادتی نہ معلوم ہو جائے۔ اعمال ناموں کے اڑائے جانے کے وقت جب تک دائیں بائیں ہاتھ میں نہ آ جائیں۔ اس وقت جب کہ جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جو گھیرلے گی اور سخت غیظ وغضب میں ہوگی اور کہے گی میں تین قسم کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں ایک تو وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے رہتے ہیں دوسرے وہ جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور تیسرے ہر سرکش ضدی متکبر پر پھر تو وہ انہیں سمیٹ لے گی اور چن چن کر اپنے پیٹ میں پہنچا دے گی جہنم پر پل صراط ہو گی جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہو گی اس پر آنکس اور کانٹے ہوں گے جسے اللہ چاہے پکڑ لے گی اس پر سے گزرنے والے مثل بجلی کے ہوں گے مثل آنکھ جھپکنے کے مثل ہوا کے مثل تیزرفتار گھوڑوں اور اونٹوں کے فرشتے ہر طرف کھڑے دعائیں کرتے ہوں گے کہ اللہ سلامتی دے اللہ بچا دے پس بعض تو بالکل صحیح سالم گزر جائیں گے بعض کچھ چوٹ کھا کر بچ جائیں گے بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے} }۔ ۱؎ [مسند احمد:110/6:ضعیف]
پھر فرمایا { مجھے امید ہے کہ تمام اہل جنت کی گنتی میں تمہاری گنتی چوتھے حصے کی ہوگی }، ہم نے اس پر تکبیر کہی۔ پھر فرمایا { آدھی تعداد میں باقی سب اور آدھی تعداد صرف تمہاری }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4841]
اور روایت میں ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر وہ ایک خوش نصیب ہم میں سے کون ہوگا؟ جب کہ یہ حالت ہے }۔ ۱؎ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:3307،]
اور روایت میں ہے { تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں ننگے بدن بے ختنہ حاضر کئے جاؤ گے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرد عورتیں ایک ساتھ؟ ایک دوسرے پر نظریں پڑیں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { عائشہ وہ وقت نہایت سخت اور خطرناک ہو گا } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:6527]
مسند احمد میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ”میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا دوست اپنے دوست کو قیامت کے دن یاد کرے گا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { عائشہ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ کرے گا۔ اعمال کے تول کے وقت جب تک کمی زیادتی نہ معلوم ہو جائے۔ اعمال ناموں کے اڑائے جانے کے وقت جب تک دائیں بائیں ہاتھ میں نہ آ جائیں۔ اس وقت جب کہ جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جو گھیرلے گی اور سخت غیظ وغضب میں ہوگی اور کہے گی میں تین قسم کے لوگوں پر مسلط کی گئی ہوں ایک تو وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے رہتے ہیں دوسرے وہ جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور تیسرے ہر سرکش ضدی متکبر پر پھر تو وہ انہیں سمیٹ لے گی اور چن چن کر اپنے پیٹ میں پہنچا دے گی جہنم پر پل صراط ہو گی جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہو گی اس پر آنکس اور کانٹے ہوں گے جسے اللہ چاہے پکڑ لے گی اس پر سے گزرنے والے مثل بجلی کے ہوں گے مثل آنکھ جھپکنے کے مثل ہوا کے مثل تیزرفتار گھوڑوں اور اونٹوں کے فرشتے ہر طرف کھڑے دعائیں کرتے ہوں گے کہ اللہ سلامتی دے اللہ بچا دے پس بعض تو بالکل صحیح سالم گزر جائیں گے بعض کچھ چوٹ کھا کر بچ جائیں گے بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے} }۔ ۱؎ [مسند احمد:110/6:ضعیف]
قیامت کے آثار میں اور اس کی ہولناکیوں میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ جن کی جگہ اور ہے۔ یہاں فرمایا ’ قیامت کا زلزلہ نہایت خطرناک ہے بہت سخت ہے نہایت مہلک ہے دل دہلانے والا اور کلیجہ اڑانے والا ہے ‘۔
زلزلہ رعب و گھبراہٹ کے وقت دل کے ہلنے کو کہتے ہیں جیسے آیت میں ہے کہ «هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا» ۱؎ [33-الأحزاب:11] ’ اس میدان جنگ میں مومنوں کو مبتلا کیا گیا اور سخت جھنجھوڑ دئے گئے ‘۔
جب تم اسے دیکھو گے یہ ضمیر شان کی قسم سے ہے اسی لیے اس کے بعد اس کی تفسیر ہے کہ ’ اس سختی کی وجہ سے دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ کے حمل ساقط ہو جائیں گے۔ لوگ بدحواس ہو جائیں گے ایسے معلوم ہوں گے جیسے کوئی نشے میں بدمست ہو رہا ہو۔ دراصل وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی نے انہیں بے ہوش کر رکھا ہو گا ‘۔
زلزلہ رعب و گھبراہٹ کے وقت دل کے ہلنے کو کہتے ہیں جیسے آیت میں ہے کہ «هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِيدًا» ۱؎ [33-الأحزاب:11] ’ اس میدان جنگ میں مومنوں کو مبتلا کیا گیا اور سخت جھنجھوڑ دئے گئے ‘۔
جب تم اسے دیکھو گے یہ ضمیر شان کی قسم سے ہے اسی لیے اس کے بعد اس کی تفسیر ہے کہ ’ اس سختی کی وجہ سے دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ کے حمل ساقط ہو جائیں گے۔ لوگ بدحواس ہو جائیں گے ایسے معلوم ہوں گے جیسے کوئی نشے میں بدمست ہو رہا ہو۔ دراصل وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کے عذابوں کی سختی نے انہیں بے ہوش کر رکھا ہو گا ‘۔