اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا اور وہ بڑی غفلت میں منہ موڑنے والے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
لوگوں کا حساب (اعمال کا وقت) نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں (پڑے اس سے) منہ پھیر رہے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وه بے خبری میں منھ پھیرے ہوئے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
یہ سورت مکہ میں نازل ہونے والی ابتدائی سورتوں میں سے ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۂ بنی اسرائیل، کہف، مریم، طٰہٰ اور سورۂ انبیاء کے متعلق فرمایا: [هُنَّ مِنَ الْعِتَاقِ الْأُوَلِ وَهُنَّ مِنْ تَلاَدِيْ] ”یہ پہلی قدیم سورتوں میں سے ہیں اور یہ میرے قدیم مال میں سے ہیں۔“ [بخاري، التفسیر، سورۃ الأنبیاء: ۴۷۳۹]
(آیت 1) ➊ { اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ: ” اِقْتَرَبَ “ ” قَرِبَ يَقْرَبُ “} (ع، ک) میں سے باب افتعال کا ماضی معلوم ہے۔ حروف میں اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”بہت قریب آ گیا۔“ {” غَفْلَةٍ “} میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”بھاری غفلت“ کیا گیا ہے۔
➋ { ” اَلنَّاسُ“ } کا لفظ عام ہے، یعنی سب لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آ گیا، اس کے باوجود انھیں اس کی کچھ فکر نہیں، بلکہ وہ بھاری غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی دنیا کی دلچسپیوں میں محو ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے {” فِيْ غَفْلَةٍ“} کی تفسیر {” غَفْلَةُ أَهْلِ الدُّنْيَا “} (دنیا والوں کی غفلت) فرمائی ہے۔ [بخاري: ۴۷۳۰] دیکھیے سورۂ مریم (۳۹)۔
➌ {حِسَابُهُمْ: } حساب کے لفظ میں دنیا و آخرت دونوں کا محاسبہ شامل ہے۔ دنیا میں محاسبہ جیسا کہ کفار قریش کو بدر اور فتح مکہ کی صورت میں پیش آیا اور ہر انسان کو سال میں ایک دو دفعہ پیش آتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ اَوَ لَا يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ }» [التوبۃ: ۱۲۶] ”اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔“ دنیا کے محاسبے کے فوراً بعد موت کی صورت میں محاسبہ پیش آئے گا، فرشتے کفار کی جانیں نکالتے ہوئے کہہ رہے ہوں گے: «{ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ}» [الأنعام: ۹۳] ”نکالو اپنی جانیں، آج تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس کے بدلے جو تم اللہ پر ناحق (باتیں) کہتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔“ موت کے بعد قبر کے سوال و جواب کی صورت میں محاسبہ اور آخر میں قیامت کے دن حساب ہو گا۔حساب کے لفظ میں یہ تمام محاسبے شامل ہیں مگر یوم حساب کے طور پر قیامت کا دن مشہور ہے، اس لیے اکثر مفسرین نے یہاں صرف اسی کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حساب کے یہ تمام مرحلے بالکل قریب ہیں۔ حساب کی کچھ صورتیں تو زندگی ہی میں ہر روز پیش آتی رہتی ہیں، پھر موت کے قرب میں کسی کو شک نہیں، رہی قیامت تو اگرچہ وہ لوگوں کو دور دکھائی دیتی ہے مگر ہر آنے والی چیز قریب ہے، خواہ کتنے انتظار کے بعد آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا (6) وَ نَرٰىهُ قَرِيْبًا }» [المعارج: ۶، ۷] ”بے شک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔“ نیز دیکھیے سورۂ نحل (۱)، حج (۴۷) اور قمر (۱) اس لحاظ سے بھی یوم حساب بہت قریب آ گیا ہے کہ دنیا کی مدت کا اکثر حصہ گزر چکا۔ اب آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا، بلکہ قیامت ہی آئے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ يَعْنِيْ إِصْبَعَيْنِ] ”میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) بھیجے گئے ہیں۔“ [بخاري، الرقاق، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : بعثت أنا والساعۃ کھاتین: ۶۵۰۵، عن أنس رضی اللہ عنہ]
➍ { مُعْرِضُوْنَ:} یعنی لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنا حساب نہایت قریب آنے کے باوجود ایسی بھاری غفلت میں پڑے ہیں کہ ہر نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ {”اَلنَّاسُ“} کے لفظ سے تمام لوگوں کو حساب کے بہت قریب آنے سے ڈرایا مگر آئندہ آیات میں کفار و مشرکین کی غفلت اور اعراض کو زیادہ اجاگر فرمایا ہے۔ اس آدمی کی غفلت و اعراض میں کیا شک ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی خبردار نہیں ہوتا کہ مجھے یقینا مرنا ہے، صرف اس لیے کہ موت یا قیامت کا دن اسے متعین کرکے نہیں بتایا گیا۔ اس کی مثال اس نکمّے طالب علم کی سی ہے جسے معلوم ہے کہ امتحان یقینا ہونا ہے مگر وہ اس لیے بے پروا ہے کہ ابھی امتحان کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے یہاں ابوالعتاہیہ کا ایک شعر نقل فرمایا ہے:
{اَلنَّاسُ فِيْ غَفَلاَتِهِمْ
وَ رَحَي الْمَنِيَّةِ تَطْحَنُ}
”لوگ اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں، جب کہ موت کی چکی پیستی چلی جا رہی ہے۔“
(آیت 1) ➊ { اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ: ” اِقْتَرَبَ “ ” قَرِبَ يَقْرَبُ “} (ع، ک) میں سے باب افتعال کا ماضی معلوم ہے۔ حروف میں اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”بہت قریب آ گیا۔“ {” غَفْلَةٍ “} میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”بھاری غفلت“ کیا گیا ہے۔
➋ { ” اَلنَّاسُ“ } کا لفظ عام ہے، یعنی سب لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آ گیا، اس کے باوجود انھیں اس کی کچھ فکر نہیں، بلکہ وہ بھاری غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی دنیا کی دلچسپیوں میں محو ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے {” فِيْ غَفْلَةٍ“} کی تفسیر {” غَفْلَةُ أَهْلِ الدُّنْيَا “} (دنیا والوں کی غفلت) فرمائی ہے۔ [بخاري: ۴۷۳۰] دیکھیے سورۂ مریم (۳۹)۔
➌ {حِسَابُهُمْ: } حساب کے لفظ میں دنیا و آخرت دونوں کا محاسبہ شامل ہے۔ دنیا میں محاسبہ جیسا کہ کفار قریش کو بدر اور فتح مکہ کی صورت میں پیش آیا اور ہر انسان کو سال میں ایک دو دفعہ پیش آتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ اَوَ لَا يَرَوْنَ اَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ يَذَّكَّرُوْنَ }» [التوبۃ: ۱۲۶] ”اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔“ دنیا کے محاسبے کے فوراً بعد موت کی صورت میں محاسبہ پیش آئے گا، فرشتے کفار کی جانیں نکالتے ہوئے کہہ رہے ہوں گے: «{ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ}» [الأنعام: ۹۳] ”نکالو اپنی جانیں، آج تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس کے بدلے جو تم اللہ پر ناحق (باتیں) کہتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔“ موت کے بعد قبر کے سوال و جواب کی صورت میں محاسبہ اور آخر میں قیامت کے دن حساب ہو گا۔حساب کے لفظ میں یہ تمام محاسبے شامل ہیں مگر یوم حساب کے طور پر قیامت کا دن مشہور ہے، اس لیے اکثر مفسرین نے یہاں صرف اسی کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حساب کے یہ تمام مرحلے بالکل قریب ہیں۔ حساب کی کچھ صورتیں تو زندگی ہی میں ہر روز پیش آتی رہتی ہیں، پھر موت کے قرب میں کسی کو شک نہیں، رہی قیامت تو اگرچہ وہ لوگوں کو دور دکھائی دیتی ہے مگر ہر آنے والی چیز قریب ہے، خواہ کتنے انتظار کے بعد آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا (6) وَ نَرٰىهُ قَرِيْبًا }» [المعارج: ۶، ۷] ”بے شک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔“ نیز دیکھیے سورۂ نحل (۱)، حج (۴۷) اور قمر (۱) اس لحاظ سے بھی یوم حساب بہت قریب آ گیا ہے کہ دنیا کی مدت کا اکثر حصہ گزر چکا۔ اب آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا، بلکہ قیامت ہی آئے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ يَعْنِيْ إِصْبَعَيْنِ] ”میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) بھیجے گئے ہیں۔“ [بخاري، الرقاق، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : بعثت أنا والساعۃ کھاتین: ۶۵۰۵، عن أنس رضی اللہ عنہ]
➍ { مُعْرِضُوْنَ:} یعنی لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنا حساب نہایت قریب آنے کے باوجود ایسی بھاری غفلت میں پڑے ہیں کہ ہر نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ {”اَلنَّاسُ“} کے لفظ سے تمام لوگوں کو حساب کے بہت قریب آنے سے ڈرایا مگر آئندہ آیات میں کفار و مشرکین کی غفلت اور اعراض کو زیادہ اجاگر فرمایا ہے۔ اس آدمی کی غفلت و اعراض میں کیا شک ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی خبردار نہیں ہوتا کہ مجھے یقینا مرنا ہے، صرف اس لیے کہ موت یا قیامت کا دن اسے متعین کرکے نہیں بتایا گیا۔ اس کی مثال اس نکمّے طالب علم کی سی ہے جسے معلوم ہے کہ امتحان یقینا ہونا ہے مگر وہ اس لیے بے پروا ہے کہ ابھی امتحان کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے یہاں ابوالعتاہیہ کا ایک شعر نقل فرمایا ہے:
{اَلنَّاسُ فِيْ غَفَلاَتِهِمْ
وَ رَحَي الْمَنِيَّةِ تَطْحَنُ}
”لوگ اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں، جب کہ موت کی چکی پیستی چلی جا رہی ہے۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا (1) پھر بھی وہ بیخبر ی میں منہ پھیرے ہوئے ہیں(2)
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
قیامت سے غافل انسان ٭٭
اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ ’ قیامت قریب آ گئی ہے۔ پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لیے کوئی تیاری کر رہے ہیں جو انہیں کام آئے۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہو گئے ہیں ‘۔
جیسے اور آیت میں ہے «أَتَىٰ أَمْرُ اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ» ۱؎ [16-النحل:1] ’ امر ربی آ گیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو؟ ‘
دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ [54-القمر:2-1] ’ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا ‘ الخ۔
ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے «(النَّاسُ فِي غَفَلَاتِهِمْ)» «(وَرَحَا الْمَنِيَّةِ تَطْحَنُ)» ”موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔“
جیسے اور آیت میں ہے «أَتَىٰ أَمْرُ اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ» ۱؎ [16-النحل:1] ’ امر ربی آ گیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو؟ ‘
دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے «اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ [54-القمر:2-1] ’ قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا ‘ الخ۔
ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے «(النَّاسُ فِي غَفَلَاتِهِمْ)» «(وَرَحَا الْمَنِيَّةِ تَطْحَنُ)» ”موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔“
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہما کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے، انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سفارش کی۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں۔ عامر رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ» کی تلاوت فرمائی۔ ۱؎ [میزان الاعتدال:256/2:ضعیف]
اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ ’ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں ‘۔
بخاری شریف میں ہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کر لیا، تحریف اور تبدیلی کرلی، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہونے پائی۔ ۱؎ [صحیح بخاری:7523]
یہ لوگ کتاب اللہ سے بے پرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کر دے، پھر تعجب ہے کہ لوگ باوجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں؟
اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ ’ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں ‘۔
بخاری شریف میں ہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کر لیا، تحریف اور تبدیلی کرلی، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہونے پائی۔ ۱؎ [صحیح بخاری:7523]
یہ لوگ کتاب اللہ سے بے پرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کر دے، پھر تعجب ہے کہ لوگ باوجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں؟