ترجمہ و تفسیر — سورۃ البقرة (2) — آیت 1
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
الم۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
الم
ترجمہ محمد جوناگڑھی
الم

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

یہ قرآن مجید کی سات سب سے لمبی سورتوں میں سے ہے، جن کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ اَخَذَ السَّبْعَ الْأُوَلَ فَهُوَ حَبْرٌ] جس نے یہ سات سورتیں حاصل کر لیں وہ بہت بڑا عالم دین بن گیا۔ [مسند أحمد:82/6، ح: ۲۴۵۸۵، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا، و إسنادہ حسن] یہ سورت بہت سے مواعظ و احکام اور قصص پر مشتمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے { سَنَامُ الْقُرْآنِ} (قرآن کا کوہان) قرار دیا ہے۔ [مسند أبی یعلٰی: ۷۵۱۶۔ الصحیحۃ: ۵۸۸، عن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو مقبرے نہ بناؤ، یقینًا شیطان اس گھر میں داخل نہیں ہوتا جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت ہوتی رہے۔ [ترمذی، فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ …: ۲۸۷۷، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، و صححہ الألبانی] ایک روایت میں ہے: شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے۔[مسلم، صلوۃ المسافرین، باب استحباب صلوۃ النافلۃ: ۷۸۰ عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ] ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نہایت روشن سورتیں بقرہ اور آل عمران پڑھا کرو، کیونکہ قیامت کے دن یہ اس طرح آئیں گی جیسے دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہوں، یہ اپنے ساتھیوں کی طرف سے جھگڑیں گی۔ سورۂ بقرہ پڑھا کرو، کیونکہ اس کا حاصل کرنا باعث برکت ہے اور اسے چھوڑ دینا موجب حسرت ہے اور اہل باطل اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرۃ: ۸۰۴] عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء اس زمانے میں اتریں جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی۔ [بخاری، فضائل القرآن، باب تالیف القرآن: ۴۹۹۳]
(آیت 1) {الٓمّٓ}:کچھ سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں انھیں مقطعات کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں، ان کا معنی تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حروف تہجی کے نام ہیں، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن مجید میں ایسے الفاظ بھی ہیں جن کا کوئی معنی ہی نہیں، مگر یہ حروف سورتوں کے شروع میں کیوں لائے گئے ہیں، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے صحیح سند کے ساتھ کوئی بات منقول نہیں۔ قرطبی رحمہ اللہ نے خلفائے اربعہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حروف سر الٰہی ہیں جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، مگر اس کی سند نہ قرطبی نے ذکر کی ہے نہ کہیں اور مل سکی ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں، مگر صحتِ سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ بعض علماء نے ان کی تفسیر میں اپنی طرف سے کچھ نکات بیان کیے ہیں، مگر وہ محض فنی کاوش ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
سب سے قریب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان حروف کے ذکر سے تمام دنیا کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید انھی حروف تہجی میں اتارا ہے، اگر تمھیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے تو حروف تہجی تمھارے بھی علم اور استعمال میں ہیں تم بھی اس جیسی کوئی سورت بنا کر لے آؤ۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ عموماً یہ حروف جہاں بھی آئے ہیں ان کے بعد قرآن مجید، کتاب یا وحی کا ذکر آیا ہے، ابن کثیر نے فراء، مبرد، زمخشری اور دوسرے علماء کے علاوہ ابن تیمیہ کا یہی قول ذکر کیا ہے، مگر یہ بات پھر بھی باقی رہ جاتی ہے کہ کسی سورت کے شروع میں جو حروف آئے ہیں اس کے ساتھ ان کا خاص تعلق ہے، مثلاً کچھ سورتوں کے شروع میں { الٓمّٓ } ہے تو دوسری سورتوں کے شروع میں { الرٰ } یا {طٰس} وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی حکمت تک رسائی ہمارے بس سے باہر ہے اور یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ ان متشابہات سے ہیں جن کی حقیقی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

الم (1)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

1۔ الف، لام، میم [1]
فضائل سورۃ البقرۃ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔“ [مسلم، كتاب صلوة المسافرين و قصرها، باب استحباب الصلوة النافلة فى بيته۔۔۔ الخ]
نیز آپ نے فرمایا: ”الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورۃ البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ‘ [مسلم، كتاب فضائل القرآن و مايتعلق به باب فضل قراءة القرآن و سورة البقرة]
زمانہ نزول اور شان نزول :
مدنی سورتوں میں سب سے پہلی سورت ہے۔ مکہ میں چھیاسی (86) سورتیں نازل ہوئیں اور نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر 87 ہے، اگرچہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ ابتدائی مدنی دور میں نازل ہوا تاہم اس کی کچھ آیات بہت مابعد کے دور میں نازل ہوئیں مثلاً حرمت سود کی آیات جو 10ھ کے اواخر میں نازل ہوئیں۔
سورۃ بقرہ کے نزول کا پس منظر :
مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی تاکہ تمام مسلمان دن میں پانچ دفعہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں اور اپنے مسائل پر غور کر سکیں۔ دوسرا اہم مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے معاش کا تھا جس کے لیے آپ نے مہاجرین و انصار میں سلسلہ مواخات قائم فرمایا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا اہم مسئلہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی نوخیز اسلامی ریاست کے دفاع کا تھا۔ کیونکہ اب مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے مشرک قبائل بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ خود مدینہ میں یہود مسلمانوں کے اس لیے دشمن بن گئے تھے کہ آنے والا نبی سیدنا اسحٰقؑ کی اولاد کے بجائے سیدنا اسمٰعیلؑ کی اولاد سے کیوں مبعوث ہوا ہے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آباد تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور مدینہ کے مشرکوں کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج کے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کو ہی ایک مشترکہ مفاد کی طرف دعوت دی اور وہ مفاد تھا مدینہ کا دفاع۔ جس کی اہم دفعات یہ تھیں:
(1) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔
(2) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔
(3) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہو گی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کر لینا نا ممکن نظر آرہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نا اتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آ گیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورۃ کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔
حروف مقطعات کی بحث :
قرآن کی 29 سورتوں کی ابتدا میں ایسے حروف استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین یک حرفی ہیں:
(1) سورۃ ص و القرآن 38 (2) سورۃ ق والقرآن 50 (3) سورۃ ن والقلم 68 اور 9 دو حرفی ہیں جن میں سے (4) المومن 40، حٰم تنزیل الکتاب (5) سورۃ حم السجدۃ 41 حٰم تنزیل من (6) الزخرف 43 حٰم والکتاب المبین (7) الدخان 44 حٰم والکتاب المبین (8) الجاثیہ 45 حٰم تنزیل الکتاب (9) الاحقاف 46 حٰم تنزیل الکتاب (10) طہ 20 طہ ما انزلنا (11) النمل 27 طٰس تلک آیت (12) یٰس 26 یٰس والقرآن اور 13 سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں: (13) یونس 10 الٰرٰ تلک آیات (14) ھود 11 الرٰ کتاب احکمت (15) یوسف 12 الرٰ تلک آیات 101، ابراہیم 14، الرٰ کتاب انزلنا 17، حجر 15، الم تلک آیات (18) البقرۃ 2 الم ذلک الکتاب (19) آل عمران 3 الم اللہ لا الہ (20) عنکبوت 29 الم احسب الناس (21) الروم 30 الم غلبت الروم (22) لقمان 31 الم تلک آیات (23) السجدہ 32 الم تنزیل الکتاب (24) شعراء 26 طٰسم تلک آیات (25) القصص 28 طٰسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل 2 چار حرفی ہیں: (26) الاعراف 7 المص کتاب انزلنہ (27) الرعد 13 المٰر تلک آیات اور مندرجہ ذیل 2 پانچ حرفی ہیں: (28) مریم 19 کھیٰعص ذکر رحمۃ (29) الشوریٰ 42 حٰم عسق کذلک یوحی الیک۔
مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہٰذا انہیں ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔
2۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمٰن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمٰن میں بھی م اورن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جا سکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں نا ممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔
3۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص ﴿طٰهٰ اور ﴿يٰس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ [بخاري، كتاب التفسير، تفسير سورة صف]
نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی ”اے مرد!“ ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔
4۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔
5۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً: ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورۃ القلم کو 'ن' بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔
6۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
7۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کر سکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا؟
8۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا نا ممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جا سکے۔
9۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ «والله اعلم بالصواب»
10۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کر دیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔
رہی یہ بات کہ صحابہ کرامؓ کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرامؓ نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی استفسار نہیں کیا لہٰذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرامؓ ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرامؓ کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہٰذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

حروف مقطعات اور ان کے معنی ٭٭
«الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے۔
بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدة» اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَان» پڑھتے تھے }۔ [صحیح بخاری:891]‏‏‏‏
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ شعبی، سالم بن عبداللہ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ «حم» ، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللَّهُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ’میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا‘۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ «الف» سے اللہ کا نام، «الله» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:28/1]‏‏‏‏
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔
جیسے لفظ «أُمَّةٍ» کہ اس کے ایک معنی ہیں «دِّينُ» جیسے قرآن میں ہے: «إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ» [43-الزخرف:22]‏‏‏‏ الخ یعنی ’ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا‘۔
دوسرے معنی ہیں، اللہ کا اطاعت گزار بندہ، جیسے فرمایا: «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّـهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» [16-النحل:120]‏‏‏‏ یعنی ’ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے‘۔
تیسرے معنی ہیں «الْجَمَاعَةُ» ، جیسے فرمایا: «وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ» [28-القصص:23]‏‏‏‏ الخ یعنی ’ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا‘۔
اور جگہ ہے: «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا» [16-النحل:36]‏‏‏‏ الخ یعنی ’ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقیناً بھیجا‘۔
چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ۔ فرمان ہے: «وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ» [12-يوسف:45]‏‏‏‏ یعنی ’ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا‘۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے، نہ ضمیر دینے سے، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔
اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ {جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے}[سنن ابن ماجہ:2620، قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا]‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق» ، «ص» ، «حم» ، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «هِجَا» ہیں۔
بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:208/1]‏‏‏‏
سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ك ہ ي ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ «نَصٌّ حَكِيمٌ قَاطِعٌ لَهُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے۔
یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو، بے ہودہ، بےکار، بےمعنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں۔ اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں، تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا۔ اور علماء کا بھی اس میں بےحد اختلاف ہے۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے۔
دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لیے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں؟
پھر سورتوں سے پہلے «بِسْمِ اللَّـهِ» الخ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لیے انہیں سنانے کے لیے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لیے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتداء انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں۔
پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورۃ البقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورۃ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے۔
باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔ مبرد رحمہ اللہ اور محققین کی ایک جماعت اور فراء رحمہ اللہ اور قطرب رحمہ اللہ سے بھی یہی منقول ہے، زمخشری رحمہ اللہ نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔ شیخ امام علامہ ابوالعباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ مجتہد ابوالحاج مزی رحمہ اللہ نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمحشری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے۔
ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ باربار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور باربار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔
بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے «ص» «ن» «ق» کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے «حم» کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے «الم» کہیں چار آئے ہیں جیسے «المر» اور «المص» اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے «کھیعص» اور «حم عسق» اس لیے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں۔
جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے۔
سنیے فرمان ہے: «الم» * «ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ» [2-البقرة:1-2]‏‏‏‏ یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں۔
اور جگہ فرمایا: «الم» «اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ» * «نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ» [3-آل عمران:1-2-3]‏‏‏‏ یعنی ’وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم و قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہے‘ یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔
اور جگہ فرمایا: «المص» * «كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ» [7-الأعراف:1-2]‏‏‏‏ یعنی ’یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ ‘۔
اور جگہ فرمایا: «الر كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ» [14-إبراهيم:1]‏‏‏‏ یعنی ’ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف ‘۔
ارشاد ہوتا ہے: «الم» * «تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ» [32-السجدة:1-2]‏‏‏‏ یعنی ’اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں‘۔
فرماتا ہے: «حم» * «تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» [41-فصلت:1-2]‏‏‏‏ ’بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے‘۔
فرمایا: «حم» * «عسق» * «كَذَٰلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ اللَّـهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» [42-الشورى:1-2-3]‏‏‏‏ یعنی ’اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے‘۔
اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بغور دیکھئیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لیے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لیے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے۔
وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ ابویاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سورۃ البقرہ کی شروع آیت «الم» * «ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ» [2-البقرة:1-2]‏‏‏‏ الخ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حیی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج آپ (‏‏‏‏صلی اللہ علیہ وسلم )‏‏‏‏‏‏‏‏ کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا؟ اس نے کہا: ہاں میں نے خود سنا ہے۔ حیی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ ہے۔ اس نے کہا سنیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو! «الف» کا عدد ہوا ایک، «لام» کے تیس، «میم» کے چالیس۔ کل اکہتر ہوئے۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں «المص» ، کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے۔ «الف» کا ایک، «لام» کے تیس، «میم» کے چالیس، «صواد» کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ «الر» کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے۔ «الف» کا ایک، «لام» کے تیس اور «رے» کے دو سو۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے۔ آپ نے فرمایا «المر» ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے «الف» کا ایک، «لام» کے تیس، «میم» کے چالیس، «رے» کے دو سو، سب مل کر دو سو اکہتر ہو گئے۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی۔ لوگو! اٹھو، ابویاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا۔ کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہو اکہتر ایک، سو ایک، ایک سو اکتیس ایک، دو سو اکتیس ایک، دو سو اکہتر ایک، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں: «هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ» [3-آل عمران:7]‏‏‏‏ یعنی الخ ’وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں‘۔[تفسیر ابن جریر الطبری:216/1:ضعیف جدا]‏‏‏‏
اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل