ترجمہ و تفسیر — سورۃ مريم (19) — آیت 8
قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ کَانَتِ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرًا وَّ قَدۡ بَلَغۡتُ مِنَ الۡکِبَرِ عِتِیًّا ﴿۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہا اے میرے رب! میرے لیے لڑکا کیسے ہوگا جب کہ میری بیوی شروع سے بانجھ ہے اور میں تو بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ گیا ہوں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
انہوں نے کہا پروردگار میرے ہاں کس طرح لڑکا ہوگا۔ جس حال میں میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
زکریا (علیہ السلام) کہنے لگے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا، جبکہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 8){ قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ …: عِتِيًّا عَتَا يَعْتُوْ عِتِيًّا} بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ جانا۔ خشک لکڑی کو {عَاتٍ } اور{عَاسٍ} کہتے ہیں، جو بھی بڑھاپے یا فساد یا کفر کی انتہا کو پہنچ جائے اسے {عَاتٍ} ({عَتَا يَعْتُوْ} سے اسم فاعل) کہا جاتا ہے۔(طبری)
یہاں خیال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہی دعا کی، پھر یہ پوچھنے کا کیا مطلب کہ میرے لیے لڑکا کیسے ہو گا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ زکریا علیہ السلام نے یہ سوال عام دستور کے خلاف بیٹے کی خوش خبری سن کر مزید اطمینان حاصل کرنے کے لیے غیر اختیاری طور پر کیا۔ اس کے علاوہ یہ سوال بے پناہ خوشی اور تعجب کے اظہار کی ایک شکل بھی ہو سکتا ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: انوکھی چیز مانگنے پر تعجب نہ ہوا، جب سنا کہ ملے گی تب تعجب کیا۔ (موضح) بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ پوچھنا دراصل معلوم کرنے کے لیے تھا کہ بیٹا اسی بانجھ بیوی سے ہو گا یا کسی اور بیوی سے اور میرے بڑھاپے کا کیا بنے گا؟

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

8۔ 1 عَاقِر اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِیًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یٰحیٰی ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

بشارت قبولیت سن کر ٭٭
حضرت زکریا علیہ السلام اپنی دعا کی قبولیت اور اپنے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت سن کر خوشی اور تعجب سے کیفیت دریافت کرنے لگے کہ بظاہر اسباب تو یہ امر مستبعد اور ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ دونوں جانب سے حالت محض ناامیدی کی ہے۔ بیوی بانجھ جس سے اب تک اولاد نہیں ہوئی، میں بوڑھا اور بے حد بوڑھا جس کی ہڈیوں میں اب تو گودا بھی نہیں رہا، خشک ٹہنی جیسا ہو گیا ہوں، گھر والی بھی بڑھیا پھوس ہو گئی ہے، پھر ہمارے ہاں اولاد کیسے ہو گی؟ غرض رب العالمین سے کیفیت بوجہ تعجب و خوشی دریافت کی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { میں تمام سنتوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر عصر میں پڑھتے تھے یا نہیں؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس لفظ کو «عَتِیاً» پڑھتے تھے یا «عَسِیاً»۱؎ [سنن ابوداود:809،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
فرشتے نے جواب دیا کہ یہ تو وعدہ ہو چکا، اسی حالت میں اسی بیوی سے تمہارے ہاں لڑکا ہو گا۔ اللہ کے ذمے یہ کام مشکل نہیں۔ اس سے زیادہ تعجب والا اور اس سے بڑی قدرت والا کام تو تم خود دیکھ چکے ہو اور وہ خود تمہارا وجود ہے، جو کچھ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے بنا دیا۔ پس جو تمہاری پیدائش پر قادر تھا، وہ تمہارے ہاں اولاد دینے پر بھی قادر ہے۔‏‏‏‏
جیسے فرمان ہے «هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا» ۱؎ [76-الإنسان:1]‏‏‏‏ یعنی ’ یقیناً انسان پر اس کے زمانے کا ایسا وقت بھی گزرا ہے، جس میں وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل