فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
پھر جب ان دونوں میں سے پہلی کا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے سخت لڑائی والے کچھ بندے بھیجے، پس وہ گھروں کے اندر گھس گئے اور یہ ایسا وعدہ تھا جو (پورا) کیا ہوا تھا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
پس جب پہلے (وعدے) کا وقت آیا تو ہم نے سخت لڑائی لڑنے والے بندے تم پر مسلط کردیئے اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے۔ اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلہ پر اپنے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی لڑاکے تھے۔ پس وه تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعده پورا ہونا ہی تھا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 6،5) ➊ {فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا …:} اس دو مرتبہ کے فساد اور اس کی سزا کی تعیین کا کوئی مضبوط اور قابل اعتماد ذریعہ ہمارے پاس قرآن و سنت کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ تاریخ خصوصاً قبل مسیح کی تاریخ کی نہ کوئی سند ہے نہ اس کے ثبوت کی کوئی اور پختہ دلیل، رہا ان کا فساد تو اس کا شمار ہی نہیں۔ قرآن مجید میں ان کے مذکور فسادات ہی دیکھ لیں، سمندر سے پار ہوتے ہی معبود بنانے کا مطالبہ، پھر سامری کا بچھڑا بنانا اور اس کی عبادت، پھر موسیٰ علیہ السلام سے مسلسل مختلف تقاضے، حتیٰ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھنے کو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی شرط قرار دے دیا۔ پھر جہاد کے لیے نکلنے کی دعوت پر «فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ» [المائدۃ: ۲۴] کہنا، پھر ان کا سود کھانا، رشوت لینا، سبت (ہفتے کے دن) کی تعظیم کے بجائے حیلے کے ساتھ اس میں شکار کرنا۔ ہمسایہ قوموں کے اثر سے بت پرستی اور زنا کا عام ہونا، کتاب اللہ میں تحریف کرنا، لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا، اپنے بزرگوں اور نبیوں کو خدا کا درجہ دینا، احبار و رہبان کی تقلید کرنا، احبار و رہبان کا لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانا اور صحیح دین سے لوگوں کو ہٹانا، اللہ کے نبیوں کو اور نیکی کا حکم دینے والے صالحین کو قتل کرنا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے باوجود ان پر ایمان نہ لانا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے در پے ہونا۔ غرض ان کے فسادات کا کوئی شمار ہی نہیں، اسی طرح ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا مسلسل برستے رہنا بھی صرف دو دفعہ تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک بار بار بدترین عذابوں کا نشانہ بننا قرآن مجید میں مذکور ہے، فرمایا: «وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ» [الأعراف: ۱۶۷] ”اور جب تیرے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ وہ قیامت کے دن تک ان پر ایسا آدمی ضرور بھیجتا رہے گا جو انھیں برا عذاب دے۔“ اس لیے ان دو مرتبہ کی تعیین ایک مشکل کام ہے۔ مفسرین کا اس تعیین میں اختلاف بھی اس کی دلیل ہے۔ کوئی بابل کے بادشاہ سنحاریب اور اس کے جنگجو ساتھیوں کو اس کا مصداق قرار دیتا ہے، کوئی عمالقہ کو، کوئی بخت نصر کو، بعض جدید مفسرین نے یہاں بائبل سے لمبی چوڑی عبارتیں نقل کیں اور ان میں مذکور بعض واقعات اور شخصیتوں کو اس کا مصداق قرار دیا، حالانکہ بائبل کی کسی بات پر یقین جائز نہیں، سوائے ان باتوں کے جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرمایا: [لاَ تُصَدِّقُوْا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا: «اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ» البقرة: ۱۳۶] [بخاري، الشہادات، باب لا یسأل أہل الشرک…، قبل ح: ۲۶۸۵، تعلیقاً عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ] ”اہل کتاب کو نہ سچا کہو اور نہ انھیں جھوٹا کہو، بلکہ یہ کہہ لیا کرو کہ ہم اللہ پر اور جو کچھ اس نے نازل کیا سب پر ایمان لائے۔“ اسی باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: [يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ! كَيْفَ تَسْأَلُوْنَ أَهْلَ الْكِتَابِ؟ وَكِتَابُكُمُ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلٰی نَبِيِّهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ الْأَخْبَارِ بِاللّٰهِ تَقْرَءُوْنَهُ لَمْ يُشَبْ وَقَدْ حَدَّثَكُمُ اللّٰهُ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ بَدَّلُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ وَغَيَّرُوْا بِأَيْدِيْهِمُ الْكِتَابَ فَقَالُوْا: «هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا» [البقرة: ۷۹] أَفَلاَ يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مُسَاءَلَتِهِمْ؟ وَلَا وَاللّٰهِ! مَا رَأَيْنَا مِنْهُمْ رَجُلاً قَطُّ يَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ] [بخاری، الشھادات، باب لا یسأل أھل الشرک عن الشھادۃ وغیرھا: ۲۶۸۵] ”اے مسلمانو کی جماعت! تم اہل کتاب سے کس طرح سوال کرتے ہو، حالانکہ تمھاری کتاب جو اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کی گئی وہ تمام خبروں میں سے اللہ کی طرف سے نئی ہے۔ تم اسے ایسی حالت میں پڑھتے ہو کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں بتا دیا ہے کہ اللہ نے جو کچھ لکھا تھا اہل کتاب نے اسے بدل دیا اور اپنے ہاتھوں سے کتاب کو تبدیل کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت خریدیں۔ کیا وہ علم جو تمھارے پاس آیا ہے تمھیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا؟ اور نہیں، قسم ہے اللہ کی! ہم نے ان میں سے کسی آدمی کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ تم سے اس کے متعلق سوال کرتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہے۔“ اب ایسی بات جسے سچا کہا ہی نہیں جا سکتا اس پر یقین کیسے ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ تعیین نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ قرآن مجید محض تاریخ کی کتاب نہیں، نہ ہر جگہ اس میں واقعات پوری ترتیب اور تفصیل کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں بلکہ اس میں واقعات کا صرف وہی حصہ بیان ہوتا ہے جو نصیحت وعبرت سے تعلق رکھتا ہے، تاہم اگر کسی معتبر ذریعے سے اس کی تفصیل معلوم ہو جائے تو نصیحت و عبرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
➋ قرآن مجید کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ارضِ مقدس میں داخلے کے لیے جہاد کا حکم دیا اور بتایا کہ اس سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے تمھاری ملکیت بنانا طے فرما دیا ہے، مگر غلامی کی خوگر اس نسل نے نہایت گستاخانہ الفاظ میں جہاد کے لیے نکلنے سے انکار کر دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۲۰ تا ۲۶) اس کے نتیجے میں وہ چالیس سال وہیں صحرا میں سرگرداں رہے۔ موسیٰ علیہ السلام اس دوران وفات پا گئے، اللہ کے اس جلیل القدر پیغمبر کو ارضِ مقدس میں جانے کی اس قدر حسرت تھی کہ انھوں نے وفات کے وقت دعا کی کہ یا اللہ! مجھے ارضِ مقدس سے اتنا قریب کر دے کہ پتھر پھینکنے سے اس زمین میں پہنچ جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں وہاں ہوتا تو تمھیں ان کی قبر راستے کی ایک جانب سرخ ٹیلے کے نیچے دکھاتا۔“ [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب وفاۃ موسٰی و ذکرہ بعد: ۳۴۰۷] جب وہ نسل جو ان ہوئی جو آزادی کے دور میں پیدا ہوئی تھی تو انھوں نے ارضِ شام اور بیت المقدس کو فتح کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں آزادی کے ساتھ حکومت کی نعمت بھی عطا فرمائی۔ یہ دور کتنے عرصے پر محیط تھا، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین سے دوری اور دنیا کی محبت کی بنا پر وہ آپس میں لڑنے لگے، اللہ تعالیٰ کے احکام کو پس پشت پھینک دیا اور اس قدر فساد فی الارض کے مرتکب ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے وہ سخت جنگ والے بندے بھیجے جن کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے۔ وہ ان کے گھروں کے اندر گھس گئے اور ان کے گھروں، زمینوں، عورتوں اور بچوں پر قابض ہو گئے اور انھیں بیت المقدس اور ارضِ شام سے نکال باہر کیا، بیت المقدس میں داخل ہو کر اس کی جتنی بے حرمتی کر سکتے تھے انھوں نے کی۔ یہ پہلے فساد کی سزا تھی۔ اس وقت ان حملہ آوروں کا بادشاہ کون تھا، اللہ تعالیٰ نے واضح نہیں فرمایا۔ اس کے ایک عرصہ بعد بنی اسرائیل کے کچھ سرداروں نے ارض مقدس اور اپنے اسیروں کی واپسی کے لیے وقت کے نبی سے کوئی بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی، جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق طالوت مقرر کیے گئے۔ یہ مفصل واقعہ سورۂ بقرہ (۲۴۶ تا ۲۵۱) اور اس کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ اس وقت کفار کا بادشاہ جالوت تھا، ممکن ہے بنی اسرائیل پر عذاب کا کوڑا بھی اسی کے ہاتھوں برسا ہو۔ بہرحال کفار کو شکست ہوئی اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا۔ ارض مقدس پر پھر بنی اسرائیل قابض ہو گئے اور اللہ کا دین پھر غالب ہو گیا۔ طالوت کے بعد داؤد علیہ السلام نے جہاد کے ذریعے سے اس سلطنت کو مزید وسیع کیا، ان کے بعد سلیمان علیہ السلام کو ایسی حکومت عطا ہوئی جو ان کی دعا کے مطابق ان کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں۔ اس کی تفصیل سورۂ نمل (۱۵ تا ۴۴)، سورۂ ص (۱۷ تا ۴۰)، سورۂ انبیاء (۷۷ تا ۸۲) اور سورۂ سبا (۱۰ تا ۱۴) میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ سب آیات زیر تفسیر آیت: «ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا» کی تفسیر ہیں۔ ان کی وفات کے بعد پھر اخلاقی زوال اور دنیا پرستی کا دور شروع ہوا، حتیٰ کہ کئی انبیاء وصلحاء، جو گناہ سے منع کرتے تھے، شہید کر دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل ختم ہو گیا، مشرک قوموں کی ہمسائیگی اور دوستی کے نتیجے میں شرک، جادو، قتل ناحق، زنا، ڈاکے وغیرہ پھیل گئے اور اللہ کی حدود معطل ہو گئیں، حتیٰ کہ مسیح علیہ السلام کو بھی انھوں نے اپنے خیال میں سولی پر چڑھا دیا۔ اس سے پچھلے حاشیے میں بھی کئی خرابیاں ذکر ہوئی ہیں۔ وہ آپس میں لڑ کر کئی فرقوں اور کئی سلطنتوں میں بٹ گئے۔ انبیاء کو قتل کرنے اور مسیح علیہ السلام کو اپنے خیال میں سولی دینے کے بعد پھر ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سخت ترین کوڑا برسا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ ان پر اللہ کے سخت لڑاکا لوگ حملہ آور ہوئے اور ان سے وہ سلوک کیا جو اس سے اگلی آیت {”فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ “} میں مذکور ہے۔
➋ قرآن مجید کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو ارضِ مقدس میں داخلے کے لیے جہاد کا حکم دیا اور بتایا کہ اس سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے تمھاری ملکیت بنانا طے فرما دیا ہے، مگر غلامی کی خوگر اس نسل نے نہایت گستاخانہ الفاظ میں جہاد کے لیے نکلنے سے انکار کر دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۲۰ تا ۲۶) اس کے نتیجے میں وہ چالیس سال وہیں صحرا میں سرگرداں رہے۔ موسیٰ علیہ السلام اس دوران وفات پا گئے، اللہ کے اس جلیل القدر پیغمبر کو ارضِ مقدس میں جانے کی اس قدر حسرت تھی کہ انھوں نے وفات کے وقت دعا کی کہ یا اللہ! مجھے ارضِ مقدس سے اتنا قریب کر دے کہ پتھر پھینکنے سے اس زمین میں پہنچ جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں وہاں ہوتا تو تمھیں ان کی قبر راستے کی ایک جانب سرخ ٹیلے کے نیچے دکھاتا۔“ [بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب وفاۃ موسٰی و ذکرہ بعد: ۳۴۰۷] جب وہ نسل جو ان ہوئی جو آزادی کے دور میں پیدا ہوئی تھی تو انھوں نے ارضِ شام اور بیت المقدس کو فتح کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں آزادی کے ساتھ حکومت کی نعمت بھی عطا فرمائی۔ یہ دور کتنے عرصے پر محیط تھا، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین سے دوری اور دنیا کی محبت کی بنا پر وہ آپس میں لڑنے لگے، اللہ تعالیٰ کے احکام کو پس پشت پھینک دیا اور اس قدر فساد فی الارض کے مرتکب ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے وہ سخت جنگ والے بندے بھیجے جن کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے۔ وہ ان کے گھروں کے اندر گھس گئے اور ان کے گھروں، زمینوں، عورتوں اور بچوں پر قابض ہو گئے اور انھیں بیت المقدس اور ارضِ شام سے نکال باہر کیا، بیت المقدس میں داخل ہو کر اس کی جتنی بے حرمتی کر سکتے تھے انھوں نے کی۔ یہ پہلے فساد کی سزا تھی۔ اس وقت ان حملہ آوروں کا بادشاہ کون تھا، اللہ تعالیٰ نے واضح نہیں فرمایا۔ اس کے ایک عرصہ بعد بنی اسرائیل کے کچھ سرداروں نے ارض مقدس اور اپنے اسیروں کی واپسی کے لیے وقت کے نبی سے کوئی بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی، جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق طالوت مقرر کیے گئے۔ یہ مفصل واقعہ سورۂ بقرہ (۲۴۶ تا ۲۵۱) اور اس کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ اس وقت کفار کا بادشاہ جالوت تھا، ممکن ہے بنی اسرائیل پر عذاب کا کوڑا بھی اسی کے ہاتھوں برسا ہو۔ بہرحال کفار کو شکست ہوئی اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا۔ ارض مقدس پر پھر بنی اسرائیل قابض ہو گئے اور اللہ کا دین پھر غالب ہو گیا۔ طالوت کے بعد داؤد علیہ السلام نے جہاد کے ذریعے سے اس سلطنت کو مزید وسیع کیا، ان کے بعد سلیمان علیہ السلام کو ایسی حکومت عطا ہوئی جو ان کی دعا کے مطابق ان کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں۔ اس کی تفصیل سورۂ نمل (۱۵ تا ۴۴)، سورۂ ص (۱۷ تا ۴۰)، سورۂ انبیاء (۷۷ تا ۸۲) اور سورۂ سبا (۱۰ تا ۱۴) میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ سب آیات زیر تفسیر آیت: «ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ اَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ جَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا» کی تفسیر ہیں۔ ان کی وفات کے بعد پھر اخلاقی زوال اور دنیا پرستی کا دور شروع ہوا، حتیٰ کہ کئی انبیاء وصلحاء، جو گناہ سے منع کرتے تھے، شہید کر دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل ختم ہو گیا، مشرک قوموں کی ہمسائیگی اور دوستی کے نتیجے میں شرک، جادو، قتل ناحق، زنا، ڈاکے وغیرہ پھیل گئے اور اللہ کی حدود معطل ہو گئیں، حتیٰ کہ مسیح علیہ السلام کو بھی انھوں نے اپنے خیال میں سولی پر چڑھا دیا۔ اس سے پچھلے حاشیے میں بھی کئی خرابیاں ذکر ہوئی ہیں۔ وہ آپس میں لڑ کر کئی فرقوں اور کئی سلطنتوں میں بٹ گئے۔ انبیاء کو قتل کرنے اور مسیح علیہ السلام کو اپنے خیال میں سولی دینے کے بعد پھر ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سخت ترین کوڑا برسا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ ان پر اللہ کے سخت لڑاکا لوگ حملہ آور ہوئے اور ان سے وہ سلوک کیا جو اس سے اگلی آیت {”فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ “} میں مذکور ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
5۔ 1 یہ اشارہ ہے اس ذلت اور تباہی کی طرف جو بابل کے فرمان روا بخت نصر کے ہاتھوں، حضرت مسیح ؑ سے تقریبًا چھ سو سال قبل، یہودیوں پر یروشلم میں نازل ہوئی۔ اس نے بےدریغ یہودیوں کو قتل کیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا اور یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اللہ کے نبی حضرت شعیب ؑ کو قتل کیا یا حضرت ارمیا ؑ کو قید کیا اور تورات کے احکام کی خلاف ورزی اور معصیات کا ارتکاب کر کے فساد فی الارض کے مجرم بنے۔ بعض کہتے ہیں کہ بخت نصر کے بجائے جالوت کو اللہ تعالیٰ نے بطور سزا ان پر مسلط کیا، جس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ حتیٰ کہ طالوت کی قیادت میں حضرت داوٗد ؑ نے جالوت کو قتل کیا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
5۔ پھر جب ہمارا پہلا وعدہ آگیا تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے میں اپنے بڑے جنگ جو بندے لا کھڑے کئے جو تمہارے شہروں کے اندر گھس (کر دور تک پھیل) گئے۔ یہ (اللہ کا) وعدہ تھا جسے [6] پورا ہونا ہی تھا۔
[6] یہود کی پہلی بار فتنہ انگیزی اور اس کی سزا:۔
سیدنا موسیٰؑ کے ساتھ مصر سے آنے والے بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہو گئے تو انھیں حکم یہ تھا کہ فلسطین کا سارا علاقہ فتح کریں اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کی اخلاقی اور اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے اجتناب کریں۔ مگر ایک تو انہوں نے سارے علاقہ کو فتح نہ کیا اور جو کر چکے تھے اس پر ہی قناعت کر لی۔ دوسرے وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا ہو گئے اور مفتوحہ علاقہ کو بارہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر قبیلہ نے الگ الگ حکومت قائم کر لی۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی حکومت کو کبھی استحکام نصیب نہ ہو سکا۔ نیز سابقہ اقوام کی اخلاقی اور اعتقادی بیماریاں یعنی شرک، بے حیائی اور بد کاری وغیرہ ان میں بھی پھیلنے لگیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو یکسر بھول گئے۔ سیدنا داؤدؑ اور سیدنا سلیمانؑ نے بہت حد تک اصلاح احوال کی اور ایک دفعہ پھر سے حکومت بنی اسرائیل کو مستحکم بنا دیا۔ مگر جلد ہی بنی اسرائیل پھر سے انھیں بیماریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہو گئے۔ بت پرستی اور بے حیائی عام ہو گئی اور حکومت بھی متزلزل ہو گئی۔ یہ صورت حال دیکھ کر بابل کے بادشاہ بخت نصر نے دولت یہودیہ کو مسخر کیا اور بادشاہ کو قید کر لیا۔ اس دوران سیدنا یرمیاہ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف سازش اور بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر 587 قم میں بخت نصر نے ایک زور دار حملہ کر کے سلطنت یہودیہ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کر دیا۔ بہت سے قیدیوں کو اپنے ساتھ لے گیا اور جو لوگ بچ رہے وہ ہمسایہ قوموں کے ہاتھ بری طرح ذلیل ہو کر رہے۔ یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا۔ جو قیدی وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا انھیں میں سے ایک عزیرؑ بھی تھے۔ ان قیدیوں کو سات سال بعد بخت نصر نے چھوڑ دیا۔ آپ جب واپس اپنے وطن آ رہے تھے تو ایک اجڑی ہوئی اور برباد شدہ بستی دیکھی تو کہنے لگے ”پروردگار! تو اس بستی کو کیسے دوبارہ زندہ یا آباد کرے گا؟“ یہ بستی بھی در اصل بخت نصر کے حملے میں ہی تباہ ہوئی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسی مقام پر سیدنا عزیرؑ کو موت دے دی۔ اور یہ واقعہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 259 کے تحت پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ کون سی کتاب تھی جس میں بنی اسرائیل کے دو بار سرکشی کرنے اور سزا پانے کی انھیں اطلاع دی گئی تھی۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد تورات ہی لی ہے مگر اس وقت تورات کے نام سے جو کتاب اہل کتاب کے پاس ہے اور جسے وہ عہد نامہ عتیق کہتے ہیں۔ ایسی صراحت کے ساتھ یہ مضمون مذکور نہیں جیسی صراحت سے قرآن میں مذکور ہے البتہ اس کے بعض فقروں سے ایسے اشارے ضرور مل جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی تورات میں یہ مضمون ضرور موجود ہو گا اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جو جملہ کائنات کی قضا و قدر کی کتاب ہے اور یہ دونوں توجیہات ہی قرین قیاس ہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
پیشین گوئی ٭٭
جو کتاب بنی اسرائیل پر اتری تھی اس میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے ہی سے خبر دے دی تھی کہ وہ زمین پر دو مرتبہ سرکشی کریں گے اور سخت فساد برپا کریں گے پس یہاں پر «قضینا» کے معنی مقرر کر دینا اور پہلے ہی سے خبر دے دینا کے ہیں۔ جیسے آیت «وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَٰلِكَ الْأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَـٰؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُّصْبِحِينَ» ۱؎ [15-الحجر:66] میں یہی معنی ہیں۔
بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان کے اوپر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لیے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بے خوف و خطر واپس چلے گئے، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا۔
پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سنجاریب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا۔
بس ان کے پہلے فساد کے وقت ہم نے اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کو ان کے اوپر مسلط کیا جو بڑے ہی لڑنے والے سخت جان اور سازو سامان سے پورے لیس تھے وہ ان پر چھا گئے ان کے شہر چھین لیے لوٹ مار کر کے ان کے گھروں تک کو خالی کر کے بے خوف و خطر واپس چلے گئے، اللہ کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا کہتے ہیں کہ یہ جالوت کا لشکر تھا۔
پھر اللہ نے بنی اسرائیل کی مدد کی اور یہ طالوت کی بادشاہت میں پھر لڑے اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصل کے بادشاہ سنجاریب اور اس کے لشکر نے ان پر فوج کشی کی تھے۔ بعض کہتے ہیں بابل کا بادشاہ بخت نصر چڑھ آیا تھا۔
ابن ابی حاتم نے یہاں پر ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے کہ کس طرح اس شخص نے بتدریج ترقی کی تھی۔ اولاً یہ ایک فقیر تھا پڑا رہتا تھا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرتا تھا۔ پھر تو بیت المقدس تک اس نے فتح کر لیا اور وہاں پر بنی اسرائیل کو بیدریج قتل کیا۔ این جریر نے اس آیت کی تفسیر میں ایک مطول مرفوع حدیث بیان کی ہے جو محض موضوع ہے اور اس کے موضوع ہونے میں کسی کو ذرا سا بھی شک نہیں ہو سکتا۔ تعجب ہے کہ باوجود اس قدر وافر علم کے امام صاحب نے یہ حدیث وارد کردی ہمارے استاد شیخ حافظ علامہ ابو الحجاج مزی رحمہ اللہ نے اس کے موضوع ہونے کی تصریح کی ہے۔ اور کتاب کے حاشیہ پر لکھ بھی دیا ہے۔
اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بے فائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بے نیاز کر دینے والی ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا۔
اس باب میں بنی اسرائیلی روایتیں بھی بہت سی ہیں لیکن ہم انہیں وارد کر کے بے فائدہ اپنی کتاب کو طول دینا نہیں چاہتے کیونکہ ان میں سے بعض تو موضوع ہیں اور بعض گو ایسی نہ ہوں لیکن بحمد للہ ہمیں ان روایتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ کتاب اللہ ہمیں اور تمام کتابوں سے بے نیاز کر دینے والی ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں نے ہمیں ان چیزوں کا محتاج نہیں رکھا۔
مطلب صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی سرکشی کے وقت اللہ نے ان کے دشمن ان پر مسلط کر دئے جنہوں نے انہیں خوب مزہ چکھایا بری طرح درگت بنائی ان کے بال بچوں کو تہ تیغ کیا انہیں اس قدر ذلیل کیا کہ ان کے گھروں تک میں گھس کر ان کا ستیاناس کیا اور ان کی سرکشی کی پوری سزا دی۔ انہوں نے بھی ظلم و زیادتی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی عوام تو عوام انہوں نے تو نبیوں کے گلے کاٹے تھے، علماء کو سر بازار قتل کیا تھا۔ بخت نصر ملک شام پر غالب آیا بیت المقدس کو ویران کردیا وہاں کے باشندوں کو قتل کیا۔
پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھیرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزار مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں پہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹہر گیا۔ اس نے علماء اور حفاظ کو اور تمام شریف اور ذی عزت لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا ان میں کوئی بھی حافظ تورات نہ بچا۔ پھر قید کرنا شروع کیا ان قیدیوں میں نبی زادے بھی تھے۔ غرض ایک لرزہ خیز ہنگامہ ہوا لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لیے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر دمشق پہنچا یہاں دیکھا کہ ایک سخت پتھر پر خون جوش مار رہا ہے پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا ہم نے تو اسے باپ دادوں سے اسی طرح دیکھا ہے یہ خون برابر ابلتا رہتا ہے ٹھیرتا نہیں اس نے وہیں پر قتل عام شروع کر دیا ستر ہزار مسلمان وغیرہ اس کے ہاتھوں یہاں پہ قتل ہوئے پس وہ خون ٹہر گیا۔ اس نے علماء اور حفاظ کو اور تمام شریف اور ذی عزت لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا ان میں کوئی بھی حافظ تورات نہ بچا۔ پھر قید کرنا شروع کیا ان قیدیوں میں نبی زادے بھی تھے۔ غرض ایک لرزہ خیز ہنگامہ ہوا لیکن چونکہ صحیح روایتوں سے بلکہ صحت کے قریب والی روایتوں سے بھی تفصیلات نہیں ملتی اس لیے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر فرماتا ہے نیکی کرنے والا دراصل اپنے لیے ہی بھلا کرتا ہے اور برائی کرنے والا حقیقت میں اپنا ہی برا کرتا ہے جیسے ارشاد ہے۔ آیت «مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ» ۱؎ [41-فصلت:46] ’ جو شخص نیک کام کرے وہ اس کے اپنے لیے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ اسی پر ہے۔ ‘
پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کرلی تھی اب پھر دوبارہ کرلیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا۔
تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے، یہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا۔ یہ تو ہوئی دنیوی سزا۔
ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہے جہاں سے نہ وہ نکل سکیں نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں۔ ہمیشہ کے لیے ان کا اوڑھنا بچھونا یہی ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الٰہی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا۔
پھر جب دوسرا وعدہ آیا اور پھر بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانیوں پر کھلے عام کمر کس لی اور بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ ظلم کرنے شروع کر دئے تو پھر ان کے دشمن چڑھ دوڑے کہ وہ ان کی شکلیں بگاڑ دیں اور بیت المقدس کی مسجد جس طرح پہلے انہوں نے اپنے قبضے میں کرلی تھی اب پھر دوبارہ کرلیں اور جہاں تک بن پڑے ہر چیز کا ستیاناس کر دیں چنانچہ یہ بھی ہو کر رہا۔
تمہارا رب تو ہے ہی رحم و کرم کرنے والا اور اس سے ناامیدی نازیبا ہے، یہ ممکن ہے کہ پھر سے دشمنوں کو پست کر دے ہاں یہ یاد رہے کہ ادھر تم نے سر اٹھایا ادھر ہم نے تمہارا سر کچلا۔ ادھر تم نے فساد مچایا ادھر ہم نے برباد کیا۔ یہ تو ہوئی دنیوی سزا۔
ابھی آخرت کی زبردست اور غیر فانی سزا باقی ہے۔ جہنم کافروں کا قید خانہ ہے جہاں سے نہ وہ نکل سکیں نہ چھوٹ سکیں نہ بھاگ سکیں۔ ہمیشہ کے لیے ان کا اوڑھنا بچھونا یہی ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر بھی انہوں نے سر اٹھایا اور بالکل فرمان الٰہی کو چھوڑا اور مسلمانوں سے ٹکرا گئے تو اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور انہیں جزیہ دینا پڑا۔