ترجمہ و تفسیر — سورۃ الإسراء/بني اسرائيل (17) — آیت 3
ذُرِّیَّۃَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَبۡدًا شَکُوۡرًا ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے ان لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا! بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اے اُن لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا۔ بےشک نوح (ہمارے) شکرگزار بندے تھے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے ان لوگوں کی اوﻻد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کردیا تھا، وه ہمارا بڑا ہی شکرگزار بنده تھا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 3){ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ …: ذُرِّيَّةَ } سے پہلے {يَا} حرف ندا محذوف ہے، اے ان لوگوں کی اولاد…! یعنی تم ان صالح لوگوں کی اولاد ہو جنھیں ہم نے نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار کرکے نجات بخشی۔ مقصد بنی اسرائیل کو ایمان اور عمل صالح پر ابھارنا ہے کہ دیکھو تم کن لوگوں کی اولاد ہو، تمھارے لیے اپنے صالح آبا و اجداد کے نقش قدم پر چل کر ایک اللہ کی عبادت کا پابند رہنا، اپنے باپ نوح علیہ السلام کی طرح ہر وقت اسی کا شکر گزار رہنا اور اس کے سوا کسی کو اپنا وکیل، کارساز اور بھروسے کے قابل نہ سمجھنا لازم ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

3۔ 1 طوفان نوح ؑ کے بعد نسل انسانی نوح ؑ کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتیئ نوح ؑ میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ، نوح ؑ، اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

3۔ یہ بنی اسرائیل ان لوگوں کی اولاد تھے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی [5] میں سوار کیا تھا۔ بلا شبہ نوح ایک شکرگزار بندے تھے۔
[5] کیا نوح آدم ثانی ہیں؟
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ انسانی نسل صرف سیدنا نوحؑ کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث ہی کی اولاد نہیں ہیں جیسا کہ مؤرخین کا بیان ہے بلکہ ان تمام لوگوں کی اولاد ہے جو سیدنا نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

طوفان نوح کے بعد ٭٭
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے واقعہ کے بیان کے بعد اپنے پیغمبر کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بیان فرماتا ہے قرآن کریم میں عموماً یہ دونوں بیان ایک ساتھ آئے ہیں اسی طرح تورات اور قرآن کا بیان بھی ملا جلا ہوتا ہے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا نام تورات ہے۔ وہ کتاب بنی اسرائیل کیلئے ہادی تھی انہیں حکم ہوا تھا کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی اور مددگار اور معبود نہ سمجھیں ہر ایک نبی اللہ کی توحید لے کر آتا رہا ہے۔
پھر انہیں کہا جاتا ہے کہ اے ان بزرگوں کی اولادو جنہیں ہم نے اپنے اس احسان سے نوازا تھا کہ طوفان نوح کی عالمگیر ہلاکت سے انہیں بچا لیا اور اپنے پیارے نبی نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر چڑھا لیا تھا۔ تمہیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہیئے دیکھو میں نے تمہاری طرف اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے۔ مروی ہے کہ نوح علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے اور پہنتے غرض ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے اس لیے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا۔
مسند احمد وغیرہ میں { فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالہ کھائے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور پانی کا گھونٹ پئے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔ } ۱؎ [صحیح مسلم:2734]‏‏‏‏
یہ بھی مروی ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے۔ شفاعت والی لمبی حدیث جو بخاری وغیرہ میں ہے اس میں ہے کہ { جب لوگ طلب شفاعت کے لیے نوح نبی علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے } الخ۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3340]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل