ترجمہ و تفسیر — سورۃ النحل (16) — آیت 6
وَ لَکُمۡ فِیۡہَا جَمَالٌ حِیۡنَ تُرِیۡحُوۡنَ وَ حِیۡنَ تَسۡرَحُوۡنَ ﴿۪۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور تمھارے لیے ان میں ایک جمال ہے، جب تم شام کو چرا کر لاتے ہو اور جب صبح چرانے کو لے جاتے ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جب شام کو انہیں (جنگل سے) لاتے ہو اور جب صبح کو (جنگل) چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر ﻻؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت6) ➊ { وَ لَكُمْ فِيْهَا جَمَالٌ …: جَمَالٌ } خوبصورتی، یہ { كَرُمَ } سے مصدر ہے۔ {رَجُلٌ جَمِيْلٌ} خوبصورت آدمی۔ { تُرِيْحُوْنَ } یہ { اِرَاحَةٌ } (افعال) سے مضارع ہے، شام کو لانا۔ { تَسْرَحُوْنَ } (ف) صبح چرانے کے لیے لے جاتے ہو۔
➋ { تُرِيْحُوْنَ:} شام کو گھر لانے کا منظر زیادہ خوبصورت ہوتا ہے، کیونکہ جانوروں کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں اور وہ تروتازہ اپنے مالک کی خوشی کا باعث ہوتے ہیں، اس لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔ ایک جمال یہ بھی ہے کہ ان کی کثرت سے ان کے مالک کی دولت مندی کا اظہار ہوتا ہے اور دنیا میں دولت خود ایک جمال ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

6۔ 1 تریحون جب شام کو چرا کر گھر لاؤ، جب صبح چرانے کے لئے لے جاؤ، ان دونوں وقتوں میں یہ لوگوں کی نظروں میں آتے ہیں، جس سے تمہارے حسن و جمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان دونوں اوقات کے علاوہ وہ نظروں سے اوجھل رہتے یا باڑوں میں بند رہتے ہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

6۔ نیز جب تم انھیں شام کو چرا کر لاتے ہو اور جب صبح چرانے لے جاتے ہو تو اس میں تمہارے [6۔1] لئے ٹھاٹھ بھی ہے [6۔1]
مویشیوں سے شان و شوکت کا اظہار:۔
اہل عرب کا اکثر پیشہ ریوڑ پالنا ہوتا تھا اور یہ ریوڑ عموماً بھیڑ بکریوں اور اونٹوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ خچر، گدھے اور گھوڑے بھی ہوتے تھے مگر نسبتاً کم ہوتے تھے۔ قریش مکہ تو تاجر پیشہ لوگ تھے اور ان کا مال و دولت نقدی درہم و دینار کی صورت میں ہوتا تھا۔ جبکہ عام قبائل عرب کے مالدار ہونے کی علامت یہی جانور تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ جانور ہوتے اتنا ہی وہ مالدار سمجھا جاتا تھا اور یہی جانور اس کی چلتی پھرتی دولت سمجھے جاتے تھے اسی میں اس کی شان و شوکت ہوتی تھی۔ شام کے وقت ایسے گلوں اور ریوڑوں کے مالک ان کے انتظار میں اپنی آبادیوں یا گاؤں سے باہر نکل کر بیٹھتے۔ یہ مویشی جب چر چگ کر اور سیر ہو کر شام کو گھر واپس آتے تو اس کے مالک انھیں دیکھ کر پھولے نہ سماتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کے واپس آنے کا پہلے ذکر فرمایا اور صبح جانوروں کی روانگی کے وقت بھی عجب گہما گہمی اور مسرت کی کیفیت ہوتی تھی۔ اسی مسرت اور ٹھاٹھ کی کیفیت کو اللہ نے ذکر فرمایا۔ جو دوسرے فوائد سے زائد تھی۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

چوپائے اور انسان ٭٭
جو چوپائے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور انسان ان سے مختلف فائدے اٹھا رہا ہے اس نعمت کو رب العالمین فرما رہا ہے جیسے اونٹ گائے بکری، جس کا مفصل بیان سورۃ الأنعام کی آیت میں آٹھ قسموں سے کیا ہے۔ ان کے بال اون صوف وغیرہ کا گرم لباس اور جڑاول بنتی ہے دودھ پیتے ہیں گوشت کھاتے ہیں۔ شام کو جب وہ چر چگ کر واپس آتے ہیں، بھری ہوئی کوکھوں والے، بھرے ہوئے تھنوں والے، اونچی کوہانوں والے، کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں اور جب چراگاہ کی طرف جاتے ہیں کیسے پیارے معلوم ہوتے ہیں پھر تمہارے بھاری بھاری بوجھ ایک شہر سے دوسرے شہر تک اپنی کمر پر لاد کر لے جاتے ہیں کہ تمہارا وہاں پہنچنا بغیر آدھی جان کئے مشکل تھا۔ حج و عمرہ کے، جہاد کے، تجارت کے اور ایسے ہی اور سفر انہیں پر ہوتے ہیں تمہیں لے جاتے ہیں تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں۔
جیسے آیت «وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ» ۱؎ [23-المؤمنون:21-22]‏‏‏‏ میں ہے کہ ’ یہ چوپائے جانور بھی تمہاری عبرت کا باعث ہیں ان کے پیٹ ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور ان سے بہت سے فائدے پہنچاتے ہیں ان کا گوشت بھی تم کھاتے ہو ان پر سواریاں بھی کرتے ہو ‘۔
سمندر کی سواری کے لیے کشتیاں ہم نے بنا دی ہیں۔ اور آیت میں ہے «اللَّـهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَيْهَا حَاجَةً فِي صُدُورِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَأَيَّ آيَاتِ اللَّـهِ تُنكِرُونَ» ۱؎ [40-غافر:79-81]‏‏‏‏ ’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کئے ہیں کہ تم ان پر سواری کرو انہیں کھاؤ نفع اٹھاؤ دلی حاجتیں پوری کرو اور تمہیں کشتیوں پر بھی سوار کرایا اور بہت سی نشانیاں دکھائیں پس تم ہمارے کس کس نشان کا انکار کرو گے؟ ‘
یہاں بھی اپنی یہ نعمتیں جتا کر فرمایا کہ ’ تمہارا وہ رب جس کا مطیع بنا دیا ہے وہ تم پر بہت ہی شفقت و رحمت والا ہے ‘۔
جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ» ۱؎ [36-يس:71-72]‏‏‏‏ ’ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان کیلئے اپنے ہاتھوں چوپائے بنائے اور انہیں انکا مالک بنا دیا اور انیں انکا مطیع بنا دیا کہ بعض کو کھائیں بعض پر سوار ہوں ‘۔
اور آیت میں ہے کہ «وَالَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْكَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَىٰ ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَـٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ» ۱؎ [43-الزخرف:12-14]‏‏‏‏، ’ اس اللہ نے تمہارے لیے کشتیاں بنا دیں اور چوپائے پیدا کر دیئے کہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے رب کا فضل و شکر کرو اور کہو وہ پاک ہے جس نے انہیں ہمارا ماتحت کر دیا حلانکہ ہم میں یہ طاقت نہ تھی ہم مانتے ہیں کہ ہم اسی کی جانب لوٹیں گے ‘۔ «دِفْءٌ» کے معنی کپڑا اور «مَنَافِعُ» سے مراد کھانا پینا، نسل حاصل کرنا، سواری کرنا، گوشت کھانا، دودھ پینا ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل