ترجمہ و تفسیر — سورۃ النحل (16) — آیت 10
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّکُمۡ مِّنۡہُ شَرَابٌ وَّ مِنۡہُ شَجَرٌ فِیۡہِ تُسِیۡمُوۡنَ ﴿۱۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہی ہے جس نے آسمان سے کچھ پانی اتارا، تمھارے لیے اسی سے پینا ہے اور اسی سے پودے ہیں جن میں تم چراتے ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جسے تم پیتے ہو اور اس سے درخت بھی (شاداب ہوتے ہیں) جن میں تم اپنے چارپایوں کو چراتے ہو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
وہی تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت10) ➊ {هُوَ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: السَّمَآءِ } کا لفظی معنی بلند چیز ہے، کیونکہ یہ {سُمُوٌّ} سے مشتق ہے، جس کا معنی بلندی ہے، اس لیے یہ لفظ بادل، بارش، چھت (دیکھیے انبیاء: ۳۲) اور آسمان سب کے لیے بولا جاتا ہے اور ہر جگہ قرینے سے اس کا معنی متعین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدت و قدرت کے دلائل میں حیوانات کے بعد اب پانی اور نباتات کا ذکر فرمایا، کیونکہ انسان کی غذا لحمیات، نشاستے، شکر وغیرہ زمین سے پیدا ہونے والی بے شمار چیزوں اور پانی سے مکمل ہوتی ہے۔ زمین کا ستر (۷۰) فیصد حصہ نہایت تلخ سمندر ہے، جس کا پانی انسان کے پینے کے لائق نہیں، مگر زمین اور سمندر کو تعفن سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کا نمکین ہونا نہایت ضروری ہے، ورنہ بدبو اور تعفن سے نہ سمندر میں کوئی چیز زندہ رہتی، نہ زمین پر۔ انھیں بخارات کی صورت میں اڑا کر بادلوں سے میٹھا پانی برسانے والی ایک ہی ذات پاک ہے، اگر وہ پانی نہ برساتا تو انسان، حیوان، نباتات سب کا نام و نشان مٹ جاتا اور اگر وہ سمندر کی طرح شدید کڑوا ہی برسا دیتا تو پھر بھی خشکی کی ہر زندہ چیز انسان، حیوان اور نباتات معدوم ہو جاتے، فرمایا: «{ لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْكُرُوْنَ [الواقعۃ: ۷۰] اگرہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنا دیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟
➋ {لَكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ …:} اسی پانی میں سے کچھ حصہ تمھارے پینے کے کام آتا ہے اور کچھ پودے اگانے کے، جن میں تم اپنے جانور چراتے ہو۔ یہ نہ ہو تو نہ تم رہو، نہ تمھارے پودے اور نہ ان میں چرنے والے جانور۔ { شَجَرٌ } اگرچہ تنے والے درخت کو کہتے ہیں مگر یہاں زمین سے اگنے والی ہر چیز مراد ہے، دلیل اس کی { فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ } (اس میں تم چراتے ہو) ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

10۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ اس پانی کو تم پیتے بھی ہو اور اس سے نباتات اگتی ہے جو تم مویشیوں کو چراتے ہو

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

تمہارے فائدوں کے سامان ٭٭
چوپائے اور دوسرے جانوروں کی پیدائش کا احسان بیان فرما کر مزید احسانوں کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ اوپر سے پانی وہی برساتا ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو اور تمہارے فائدے کے جانور بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں میٹھا صاف شفاف خوش گوار اچھے ذائقے کا پانی تمہارے پینے کے کام آتا ہے اس کا احسان نہ ہو تو وہ کھاری اور کڑوا بنادے اسی آب باراں سے درخت اگتے ہیں اور وہ درخت تمہارے جانوروں کا چارہ بنتے ہیں ‘۔ «سَّوْمُ» کے معنی چرنے کے ہیں۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:566/7:]‏‏‏‏۔ اسی وجہ سے اہل سائمہ چرنے والے اونٹوں کو کہتے ہیں۔
ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج نکلنے سے پہلے چرانے کو منع فرمایا }۔ ۱؎ [سنن ابن ماجه:2606،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏
پھر اس کی قدرت دیکھو کہ ایک ہی پانی سے مختلف مزے کے، مختلف شکل و صورت کے، مختلف خوشبو کے طرح طرح کے پھل پھول وہ تمہارے لیے پیدا کرتا ہے۔ پس یہ سب نشانیاں ایک شخص کو اللہ کی وحدانیت جاننے کے لیے کافی ہیں اسی کا بیان اور آیتوں میں اس طرح ہوا ہے کہ «أَمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ» [27-النمل:60]‏‏‏‏ ’ آسمان و زمین کا خالق، بادلوں سے پانی برسانے والا، ان سے ہرے بھرے باغات پیدا کرنے والا، جن کے پیدا کرنے سے تم عاجز تھے اللہ ہی ہے اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں پھر بھی لوگ حق سے ادھر ادھر ہورہے ہیں ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل