ترجمہ و تفسیر — سورۃ الحجر (15) — آیت 9
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
بےشک یہ (کتاب) نصیحت ہمیں نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافﻆ ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت9) ➊ {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ …:} یہاں اللہ تعالیٰ نے لفظ قرآن کے بجائے لفظ ذکر استعمال فرمایا، جس میں سب سے پہلے قرآن آتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «{ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ [یوسف: ۲] بے شک ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے، تاکہ تم سمجھو۔ اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال یعنی حدیث بھی ذکر (نصیحت) ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نازل کردہ ذکر قرار دیا، جیسا کہ فرمایا: «{ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا (10) رَّسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ مُبَيِّنٰتٍ [الطلاق: ۱۰، ۱۱] یقینا اللہ نے تمھاری طرف ایک ذکر (نصیحت) نازل کیا ہے، جو ایسا رسول ہے کہ تمھارے سامنے اللہ کی واضح بیان کرنے والی آیات پڑھتا ہے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کریں اسے کرنے کا اور جو کہیں اسے ماننے کا حکم دیا، پہلے کا نام اتباع ہے، دوسرے کا اطاعت ہے، چنانچہ فرمایا: «{ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ [آل عمران: ۳۱] کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اور فرمایا: «{ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ [آل عمران: ۳۲] کہہ دے اللہ اور رسول کا حکم مانو۔
➋ {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا:} اس جملے میں اللہ تعالیٰ نے بے حد تاکید کے لیے لفظ ہم نے کو تین دفعہ دہرایا { اِنَّا } میں { نَا } (ہم نے)، دوسرا { نَحْنُ } (ہم نے) اور تیسرا { نَزَّلْنَا } میں {نَا} (ہم نے)۔ بہت کوشش سے بھی تینوں تاکیدوں کا ترجمہ فصیح اردو میں مشکل ہے۔
➋ یعنی یہ ذکر جس کے لانے والے کو تم دیوانہ کہہ رہے ہو، یہ تو خود ہم ہی نے نازل کیا اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ قاضی اسماعیل بصری سے پوچھا گیا کہ اس میں کیا راز ہے کہ پہلی کتابیں قرآن کی طرح محفوظ نہ رہ سکیں؟ انھوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت انسانوں کے ذمے لگائی تھی، جیسا کہ فرمایا: «{ اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَبِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ [المائدۃ: ۴۴] بے شک ہم نے تورات اتاری… اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے جب کہ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی۔ (الوسیط) ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قرآن وحدیث قیامت تک کے لیے تمام لوگوں کے لیے ہیں، جب کہ اس سے پہلے ہر کتاب ایک قوم اور ایک وقت تک کے لیے تھی۔ جس طرح قرآن اپنے الفاظ اور معانی کے اعتبار سے معجزہ ہے کہ جن و انس جمع ہو کر بھی اس جیسی ایک سورت نہیں بنا سکتے، اسی طرح یہ بھی اس کا معجزہ ہے کہ اس میں رد و بدل نہیں ہو سکے گا۔ قرآن کی حفاظت کا یہ وعدہ حیرت انگیز طور پر پورا ہو رہا ہے۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اس طرح محفوظ ہو کہ اس کے کسی ایک حرف میں رد و بدل نہ ہوا ہو۔ دنیا بھر میں قرآن کے جتنے نسخے موجود ہیں ان میں معمولی سا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ مسلمانوں پر زوال اور غلامی کے ایام بھی آئے، مگر قرآن کی حفاظت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت جو کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوئی اور قرآن کی اس طرح حفاظت کے غیر مسلم مخالف بھی معترف ہیں۔
منکرینِ حدیث عموماً حدیث سے انکار کے لیے کہتے ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا تو اللہ نے وعدہ کیا، مگر حدیث کی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا، اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان سے پوچھیے کہ اس کی کیا دلیل ہے؟ تو وہ یہ آیت پڑھیں گے، حالانکہ اس میں لفظ قرآن نہیں بلکہ { الذِّكْرَ } ہے، جس میں حدیث بھی شامل ہے اور اس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے اتنا زبردست اور عجیب و غریب انتظام فرمایا کہ دنیا میں کسی شخص کے اقوال و افعال اور احوال اس طرح محفوظ نہیں جس طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محفوظ ہیں۔ اس کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، تابعین اور محدثین نے اتنی محنت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ہمارے لیے محفوظ فرما دی، جس کی پیروی اور اطاعت ہمارے لیے لازم تھی۔ اس حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں رجال اور اصول حدیث کے علوم کا الہام فرمایا اور انھوں نے ایک لاکھ سے زائد افراد کی زندگی کے حالات، ان کا قابل اعتماد ہونا یا نہ ہونا، ان کا سن پیدائش و وفات محفوظ فرما دیا، جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے، صحیح ہے یا نہیں۔ کسی نبی کی زندگی کے حالات اور اقوال و افعال کے لیے نہ یہ اہتمام کسی امت کو نصیب ہوا اور نہ کسی نبی کے حالات اس کا ہزارواں حصہ بھی ملتے ہیں جس قدر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بحفاظت دنیا تک پہنچے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حدیث محفوظ نہ ہو تو قرآن پر عمل ناممکن ہے، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج وغیرہ غرض کوئی چیز بھی حدیث کی تفصیل کے بغیر ادا کرنا ناممکن ہے۔رہی یہ بات کہ احادیث میں ضعیف روایات کی آمیزش ہے تو جواب یہ ہے کہ جب اس کا حل موجود ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ محدثین نے صحیح و ضعیف کو الگ الگ کر دیا ہے۔ جس طرح شیعہ کے عقیدے سے کہ یہ قرآن وہ نہیں جو علی رضی اللہ عنہ یا اہل بیت کے پاس تھا، قرآن مجید کی صحت و عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بے دلیل دعویٰ کچھ وزن نہیں رکھتا اور آج تک ان کے مزعوم قرآن کا کہیں وجود نہیں ملا، اسی طرح منکرین حدیث کے اعتراض سے حدیثوں کی حفاظت پر کوئی حرف نہیں آتا، کیونکہ یہ سب اعتراض لاعلمی یا الحاد کا نتیجہ ہیں اور ان سب کا جواب علمائے اسلام نے بہترین طریقے سے دے دیا ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

9۔ 1 یعنی اس کو دست برد زمانہ سے اور تغیر وتبدل سے بچانا ہمارا کام ہے۔ چناچہ قرآن آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح یہ اترا تھا، گمراہ فرقے اپنے اپنے گمراہانہ عقائد کے اثبات کے لئے اس کی آیات میں معنوی تحریف تو کرتے رہتے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں لیکن پچھلی کتابوں کی طرح یہ لفظی تحریف اور تغیر سے محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں اہل حق کی ایک جماعت بھی تحریفات معنوی کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہر دور میں موجود رہی ہے، جو ان کے گمراہانہ عقائد اور غلط دلائل اور ثبوت بکھیرتی رہی ہے اور آج بھی وہ اس محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کو یہاں ' ذکر ' (نصیحت) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اہل جہاں کے لئے ' ذکر ' (یاد دہانی اور نصیحت ہونے) کے پہلو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے تابندہ نقوش اور آپ کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ گویا قرآن کریم اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور رسول کو حاصل نہیں ہوا۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

یقیناً ہم نے ہی الذکر اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کے محافظ [5] ہیں
[5] ذکر اور قرآن کا فرق:۔
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بجائے ذکر کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا لغوی معنی یاددہانی یا نصیحت ہے۔ اگرچہ صفاتی پہلو سے قرآن کریم کا ایک نام ذکر بھی ہے تاہم یہ دونوں نام ایک دوسرے کے مترادف نہیں۔ جیسے سورۃ قمر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ للذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ
جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور ذکر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ذکر جب یاد دہانی کے معنوں میں آتا ہے تو اس سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہوتی ہے۔ یعنی کتاب بھی اور وہ بصیرت بھی جو اللہ تعالیٰ کتاب کے بیان کے لیے اپنے رسولوں کو عطا فرماتا ہے۔ اسی بصیرت کو ہم سنت بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کا ہی ذمہ نہیں لیا بلکہ اس کے معانی و مطالب کا بھی ذمہ لے رکھا ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری کس طرح پوری فرمائی؟
حفاظت قرآن بذریعہ کتابت:۔
حفاظت قرآن کے کئی پہلو ہیں اور یہ حفاظت بذریعہ کتابت بھی کی گئی اور بذریعہ حفظ بھی اور اس حفاظت کا تمام تر کام اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے لیا۔ بذریعہ کتابت قرآن کریم کی حفاظت کے سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمایئے۔
1۔ سیدنا زید بن ثابت انصاریؓ (کاتب وحی) کہتے ہیں کہ جب (11 ھ میں) یمامہ کی لڑائی میں (جو مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ شہید ہو گئے تو سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت سیدنا عمرؓ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ میں گیا تو سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے کہا: میرے پاس عمرؓ آئے اور کہا کہ ”یمامہ کی لڑائی میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر اسی طرح اور لڑائیوں میں بھی مسلمان مارے جائیں تو بہت سا قرآن دنیا سے اٹھ جائے گا۔ اگر قرآن کو ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو یہ ڈر نہ رہے گا۔ لہٰذا آپ قرآن کو جمع کرا دیں“ اور میں (ابو بکرؓ) نے عمرؓ کو یہ جواب دیا کہ ”میں وہ کام کیسے کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا“ عمرؓ کہنے لگے۔ ”اللہ کی قسم! یہ اچھا کام ہے اور بار بار یہی کہتے رہے تا آنکہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میں عمرؓ کی رائے سے متفق ہو گیا“ سیدنا زیدؓ کہتے ہیں کہ ”عمرؓ خاموشی سے یہ بات سنتے رہے“ پھر سیدنا ابو بکر صدیقؓ مجھے کہنے لگے ”تم جوان اور عاقل ہو اور ہم تمہیں سچا جانتے ہیں اور دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کاتب وحی رہے ہو تو اب ایسا کرو کہ قرآن (کی جا بجا لکھی ہوئی تحریروں) کو تلاش کرو اور سب کو اکٹھا کر دو“ زیدؓ کہتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیقؓ مجھے پہاڑ ڈھونے کو کہتے تو مجھے اتنا مشکل معلوم نہ ہوتا جتنا قرآن جمع کرنا معلوم ہوا آخر میں نے کہا ”تم دونوں ایسا کام کرتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا“ ابو بکر صدیقؓ کہنے لگے ”اللہ کی قسم! یہ اچھا کام ہے“ میں نے ان سے بڑا تکرار کیا تا آنکہ اللہ نے میرا سینہ بھی کھول دیا اور میں نے یہ کام شروع کر دیا۔ قرآن کہیں پرچوں پر، کہیں مونڈھے کی ہڈیوں پر، کہیں کھجور کی لکڑیوں پر لکھا ہوا تھا پھر اکثر لوگوں کو یاد بھی تھا۔ یہاں تک کہ میں نے سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں یعنی ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ تا آخر، خزیمہ بن ثابت انصاری کے سوا کسی کے ہاں نہ پائیں۔ پھر یہ مصحف جس میں قرآن جمع کیا تھا۔ ابو بکر صدیقؓ کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ پھر سیدنا عمرؓ کی زندگی تک ان کے پاس رہا۔ ان کی وفات کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہؓ کو ملا۔ [بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ توبہ۔ باب جمع القرآن]
2۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان سیدنا عثمانؓ کے پاس آئے جن دنوں وہ شام و عراق کے مسلمانوں کے ساتھ آرمینیا اور آذربائیجان فتح کرنے کی خاطر جہاد کر رہے تھے۔ وہ قرآن کی قرأت میں مسلمانوں کے اختلاف سے گھبرائے ہوئے تھے۔ سیدنا عثمانؓ سے کہنے لگے: امیر المومنین! اس سے پہلے کہ مسلمان یہود اور نصاریٰ کی طرح قرآن میں اختلاف کرنے لگیں، اس امت کی خبر لیجئے۔ چنانچہ سیدنا عثمانؓ نے سیدہ حفصہؓ کو لکھ بھیجا کہ ”ہمیں اپنا مصحف بھیج دیں۔ ہم اس کی نقول تیار کر کے آپ کا مصحف آپ کو واپس کر دیں گے“ چنانچہ سیدہ حفصہؓ نے بھیج دیا۔ سیدنا عثمانؓ نے زید بن ثابتؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، سعید بن عاصؓ اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشامؓ کو حکم دیا۔ انہوں نے اس کی نقلیں تیار کیں۔ آپ نے یہ ہدایت کر دی تھی کہ اگر زید بن ثابتؓ (انصاری) قرأت کے بارے میں باقی تینوں (قریشی) لوگوں سے اختلاف کریں تو قریش کے محاورہ کے مطابق لکھنا کیونکہ قرآن انہی کے محاورہ پر اترا ہے۔ جب نقلیں تیار ہو گئیں تو آپ نے سیدہ حفصہؓ کا مصحف انھیں واپس کر دیا اور اس کی ایک نقل ہر مرکزی مقام میں بھجوا دی۔ نیز حکم دیا کہ لوگوں کے پاس جو الگ الگ پرچیوں اور اوراق میں لکھا ہوا قرآن موجود ہے اسے جلا دیا جائے۔ [بخاری، کتاب التفسیر۔ باب جمع القرآن]
تحریف لفظی سے بچاؤ کی صورتیں:۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبانی حفاظت قرآن پر نسبتاً بہت زیادہ توجہ دی تھی۔ سب سے پہلے تو حافظ قرآن آپ خود تھے۔ جتنا قرآن نازل ہو چکا ہوتا۔ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جبریلؑ سے دور بھی فرمایا کرتے اور اپنی زندگی کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ دور فرمایا۔ پھر صحابہ کو یاد کرواتے اور ان سے سنتے اور بعض دفعہ سناتے بھی تھے۔ قرآن کریم کے مصاحف لکھنے والے صحابہ کی نسبت قرآن کریم کے حافظوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور حفظ قرآن کا یہ سلسلہ نسلاً بعد نسل آج تک چلا آرہا ہے اور یہ دونوں طریقے ایک دوسرے کی محافظت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن سے محبت رکھنے والے کچھ ایسے لوگ بھی پیدا کر دیئے جنہوں نے قرآن کریم کی آیات، الفاظ حتیٰ کہ حروف اور اعراب تک شمار کر ڈالے۔ نتیجہ یہ کہ نزول قرآن سے لے کر آج تک قرآن کے الفاظ و حروف میں سر مو فرق نہیں آیا اور ان حالات میں کمی و بیشی ممکن ہی نہ رہی اور تحریف لفظی کے سب امکانات ختم ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ قرآن پر جو زیادہ توجہ مبذول فرمائی اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
حفظ اور کتابت کی خوبیوں کا تقابل:۔
قرآن کریم مکتوبہ شکل میں نہیں بلکہ صوتی انداز میں نازل ہوا جس طرح جبریلؑ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھایا، اسی انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو سنایا اور حفظ کروایا۔ اسی طریق حفاظت میں نہ کسی مخصوص رسم الخط کی ضرورت تھی۔ نہ حروف کی شکلوں، نقاط، اعراب وغیرہ کی اور نہ ہی آیات کے ربط میں رموز و اوقاف (Punctuation) وغیرہ کی معلومات کی۔ یہ طریقہ نہایت سادہ اور فطری تھا لہٰذا اسی پر زیادہ توجہ صرف کی گئی۔
2۔ اہل عرب کا حافظہ نہایت قوی تھا لیکن لکھے پڑھے لوگ بہت کم تھے اور ان کی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔
3۔ تورات جو لکھی ہوئی شکل میں نازل ہوئی تھی صرف پڑھے لکھے طبقے ہی سے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی پھر بعد میں آنے والے پڑھے لکھے لوگوں نے ہی اس میں تحریف کر ڈالی۔
4۔ لکھے ہوئے کو پڑھتے وقت ایک کم لکھا پڑھا آدمی غلطی کر جاتا ہے لیکن حافظ تلاوت کرتے وقت ایسی غلطی نہیں کرتا۔ اب اس کے مقابلہ میں تحریر کے بھی کچھ فوائد ہیں مثلاً:
➊ حافظ قرآن کسی وقت بھی بھول سکتا ہے۔ تحریر موجود ہو تو ایسی بھول کا ازالہ ممکن ہو جاتا ہے۔
➋ حافظ کا علم اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے جبکہ کتابت بعد میں بھی موجود رہتی ہے اور یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر قرآن کو جمع کرنا اور ضبط تحریر میں لانا ضروری سمجھا گیا جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث زید بن ثابت انصاریؓ سے واضح ہے۔ لہٰذا حفاظت قرآن کے لیے یہ دونوں ہی طریقے لازم و ملزوم سمجھ کر اختیار کیے گئے۔ البتہ افضلیت کا درجہ حفظ ہی کو حاصل رہا اور اس حقیقت کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
﴿ بَلْ هُوَ اٰيٰتٌ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ [49: 29]
بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور جہاں اللہ نے کتابت قرآن کا ذکر فرمایا تو وہاں عطیہ علم کا ذکر نہیں فرمایا: ارشاد باری ہے۔
﴿ وَالطُّوْرِِ وَكِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ [1: 52 تا 3]
قسم ہے طور (پہاڑ) کی اور اس کتاب کی جو پھیلے ہوئے کاغذ پر لکھی ہوئی ہے۔
شیعہ حضرات اور قرآن کی حفاظت:۔
ان سب باتوں کے باوجود شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگ سیدنا عثمانؓ کو مطعون کرتے ہیں کہ انہوں نے جمع قرآن کے وقت قرآن کی بہت سی آیات اور کئی سورتیں جو اہل بیت کی مدح میں تھیں خارج کر دیں اور انھیں قرآن میں شامل نہیں کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ طعن گو بظاہر سیدنا عثمانؓ پر ہے لیکن حقیقتاً اس طعن کی زد اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری پر پڑتی ہے۔ فاعتبروا یا ولی الابصار۔ علاوہ ازیں یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ اس وقت سیدنا علی شیر خدا تو بفضلہ زندہ سلامت موجود تھے انہوں نے سیدنا عثمانؓ کے اتنے زبردست ارتکاب جرم کو کیسے گوارا کر لیا تھا؟
تحریف معنوی سے حفاظت:۔
اس حفاظت ذکر سے متعلق تیسرا پہلو تحریف معنوی کا ہے یعنی اگر الفاظ قرآن کے ساتھ ساتھ مطالب قرآن کی حفاظت نہ ہو تو محض الفاظ کی حفاظت بے سود ہے اور اس صورت میں یہ قرآن ملحدین کی اور دوسرے گمراہ فرقوں کی طبع آزمائی کا تختہ مشق بن سکتا ہے لہٰذا ضروری تھا کہ قرآن کے جو معنی خود حامل قرآن یا صحابہ کرام نے سمجھے تھے ان کی بھی حفاظت کی جائے تاکہ باطل کسی طریقے سے بھی قرآن میں داخل نہ ہونے پائے اور اگر داخل ہونے کی کوشش کرے تو تحقیق کر کے اسے رد کیا جا سکے۔ اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے محدثین کرام کی جماعت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسی مقصد کی خاطر کھپا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح کی سنت کو محفوظ کر دیا۔ جو در حقیقت قرآن کے معانی اور مطالب ہی کی حفاظت ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی حفاظت کا ایسا مضبوط انتظام فرما کر اپنا وعدہ پورا کیا کہ غیر مسلم بھی اس کی مکمل حفاظت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل