اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۴۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں، مگر جو گمراہوں میں سے تیرے پیچھے چلے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں (کہ ان کو گناہ میں ڈال سکے) ہاں بد راہوں میں سے جو تیرے پیچھے چل پڑے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں، لیکن ہاں جو گمراه لوگ تیری پیروی کریں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت42){اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ …:} یہ پچھلی بات ہی کی وضاحت ہے اور مستثنیٰ منقطع ہے اور اگر {عِبَادٌ} سے مراد عام ہو تو مستثنیٰ متصل ہو گا، مطلب یہ کہ جو خود ہی بھٹکے ہوں اور جہالت کی بنا پر خود ہی تیری پیروی کرنا چاہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

42۔ 1 یعنی میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے کوئی گناہ ہی سرزد نہیں ہوگا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا گناہ نہیں ہوگا کہ جس کے بعد نادم اور تائب نہ ہو کیونکہ وہی گناہ انسان کی ہلاکت کا باعث ہے کہ جس کے بعد انسان کے اندر ندامت کا احساس اور توبہ وانابت الی اللہ کا داعیہ پیدا نہ ہو۔ ایسے گناہ کے بعد ہی انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر دائمی تباہی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے آئندہ کے لئے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

42۔ میرے (حقیقی) بندوں پر تو تیرا کچھ زور [23] نہ چل سکے گا۔ تیرا زور صرف ان گمراہوں پر چلے گا جو تیری پیروی کریں گے
[23] شیطان کو کس حد تک اختیار دیا گیا ہے؟
شیطان کو صرف اتنا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دھوکے سے، فریب سے، جھوٹ بول کر، وسوسے ڈال کر، دنیا کے فوائد میں الجھا کر، غلط قسم کی توقعات اور وعدے دے کر انسان کو گمراہ کر سکتا ہے تو کرے مگر اسے یہ اختیار قطعاً نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کو زبردستی کھینچ کر اللہ کی راہ سے ہٹا کر اپنی راہ پر ڈال دے۔ جیسا کہ پہلے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 22 میں گزر چکا ہے کہ شیطان خود اہل دوزخ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرے گا کہ میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا اور تمہیں اپنی طرف بلایا جس کی میرے پاس کوئی دلیل نہ تھی پھر بھی تم نے میری دعوت کو تسلیم کر لیا۔ حالانکہ میرا تم پر کچھ زور نہ تھا لہٰذا آج مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی عقلوں کا ماتم کرو۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔