(آیت41){قَالَهٰذَاصِرَاطٌعَلَيَّمُسْتَقِيْمٌ:} یعنی یہی صراط مستقیم اور درست بات ہے جو مجھ پر لازم ہے کہ تو میرے مخلص بندوں کو گمراہ نہ کر سکے گا اور جو میرے لیے خالص ہو گا اس کی حفاظت میں خود کروں گا، جیسے بعد میں فرمایا: «{ اِنَّعِبَادِيْلَيْسَلَكَعَلَيْهِمْسُلْطٰنٌ }»[الحجر: ۴۲] اور ایک معنی یہ بھی ہے کہ {”هٰذَا“} سے اخلاص کی طرف اشارہ ہو، یعنی یہی اخلاص کی راہ مجھ تک سیدھی پہنچتی ہے اور میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی غلبہ نہیں ہو گا۔ (روح المعانی) دوسرا معنی واضح ہے۔ (واللہ اعلم)
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
41۔ 1 یعنی تم سب کو بالآخر میرے پاس ہی لوٹ آنا ہے، جنہوں نے میرا اور میرے رسولوں کا اتباع کیا ہوگا، میں انھیں اچھی جزا دوں گا اور جو شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ہوگا اسے سخت سزا دوں گا جو جہنم کی صورت میں تیار ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
41۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یہ وہ راستہ ہے جو سیدھا [22] مجھ تک پہنچتا ہے [22] وہ سیدھا راستہ جو اللہ تک پہنچتا ہے یہ ہے کہ انسان خالصتاً اسی کی عبادت کرے اور اسی پر توکل کرے اور ایمان لانے کے بعد کماحقہ اس کے تقاضوں کو پورا کرے اور اپنے ایمان میں مستقل اور ثابت قدم رہے۔ ایسے لوگ جو اس راہ پر چلتے جائیں کبھی شیطان کے پھندے میں نہیں آسکتے۔