اس نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اس نے) کہا کہ پروردگار جیسا تونے مجھے رستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لیے (گناہوں) کو آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
(شیطان نے) کہا کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراه کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی
(آیت39){لَاُزَيِّنَنَّلَهُمْفِيالْاَرْضِ: } میں ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا، کیا چیز، آیت کے سیاق و سباق سے عبارت یہ بنتی ہے کہ میں ان کے لیے زمین میں بھی خواہش نفس اور اللہ کی نافرمانی کو مزین اور خوش نما بنا کر پیش کروں گا، جیسا کہ آسمان میں ان کو ممنوعہ پودے کا کھانا خوش نما بنا کر پیش کیا اور گمراہ کر دیا تھا، فرمایا: «{ وَعَصٰۤىاٰدَمُرَبَّهٗفَغَوٰى }»[طہٰ: ۱۲۱] دوسرا معنی یہ ہے کہ میں انھیں تمام زینت زمین ہی میں دکھاؤں گا کہ جو کچھ ہے یہیں ہے، تاکہ وہ نہ آخرت کی طرف توجہ کریں اور نہ اس کا یقین کریں، سو اس طرح میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا، جیسا کہ فرمایا: «{ وَلٰكِنَّهٗۤاَخْلَدَاِلَىالْاَرْضِوَاتَّبَعَهَوٰىهُفَمَثَلُهٗكَمَثَلِالْكَلْبِ }»[الأعراف: ۱۷۶]”اور لیکن وہ زمین ہی کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا، سو اس کی مثال کتے کی سی ہے۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
39۔ وہ بولا: پروردگار! چونکہ تو نے مجھے (آدم کے ذریعہ) بہکا [20۔1] دیا ہے تو اب میں بھی دنیا میں لوگوں کو (ان کے گناہ) [21] خوشنما کر کے دکھاؤں گا اور ان سب کو بہکا کر چھوڑوں گا [20۔1] ابلیس نے اپنی گمراہی کا الزام اللہ کے ذمہ لگا دیا اور اس کی جو وجہ بتلائی وہ سورۃ اعراف کی آیت نمبر 16 کے حاشیہ نمبر 14 میں ملاحظہ فرمایئے۔
[21] ابلیس کے انسان کو گمراہ کرنے کے طریقے:۔
ابلیس نے کہا میں دنیا کی زندگی، اس کی لذتوں اور اس کے عارضی فوائد کو انسانوں کے لیے ایسا خوشنما بنا کر پیش کروں گا کہ وہ اس دنیا کی دلچسپیوں میں ایسے محو رہیں گے کہ خلافت اور اس کی ذمہ داریوں اور آخرت کی باز پرس کو بالکل بھول جائیں گے اور تجھے بھی یا تو بالکل فراموش کر دیں گے یا تجھے یاد رکھنے کے باوجود تیری نافرمانیاں کرتے رہیں گے اور دوسروں کو تیری خدائی میں شریک بناتے رہیں گے اور میرے اس پھندے سے صرف وہی لوگ بچ سکیں گے جو اپنے ایمان میں مضبوط، مستقل مزاج اور ثابت قدم رہنے والے ہوں گے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
ابلیس کے سیاہ کارنامے ٭٭
ابلیس کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اللہ کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر کہا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے کہا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں بھی اولاد آدم کے لیے زمین میں تیری نافرمانیوں کو خوب زینت دار کر کے دکھاؤں گا۔ اور انہیں رغبت دلا دلا کر نافرمانیوں میں مبتلا کروں گا، جہاں تک ہو سکے گا کوشش کروں گا کہ سب کو ہی بہکا دوں۔ لیکن ہاں تیرے خالص بندے میرے ہاتھ نہیں آ سکتے۔ ایک اور آیت میں بھی ہے کہ «أَرَأَيْتَكَهَـٰذَاالَّذِيكَرَّمْتَعَلَيَّلَئِنْأَخَّرْتَنِإِلَىٰيَوْمِالْقِيَامَةِلَأَحْتَنِكَنَّذُرِّيَّتَهُإِلَّاقَلِيلًا»۱؎[17-الاسراء:62] ’ گو تو نے اسے مجھ پر برتری دی ہے لیکن اب میں بھی اس کی اولاد کے پیچھے پڑ جاؤں گا، چاہے کچھ تھوڑے سے چھوٹ جائیں باقی سب کو ہی لے ڈوبوں گا ‘۔ اس پر جواب ملا کہ ’ تم سب کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے۔ اعمال کا بدلہ میں ضرور دوں گا نیک کو نیک بد کو بد ‘۔ جیسے فرمان ہے کہ «إِنَّرَبَّكَلَبِالْمِرْصَادِ»۱؎[89-الفجر:14] ’ تیرا رب تاک میں ہے ‘۔ اور آیت میں ہے «وَعَلَىاللَّـهِقَصْدُالسَّبِيلِ»۱؎[16-النحل:9] ’ اور اللہ پر سیدھی راه کا بتا دینا ہے ‘، غرض لوٹنا اور اور لوٹنے کا راستہ اللہ ہی کی طرف ہے۔ «عَلَيَّ» کی ایک قرأت «عَلِيٌّ» بھی ہے۔ جیسے آیت «وَإِنَّهُفِيأُمِّالْكِتَابِلَدَيْنَالَعَلِيٌّحَكِيمٌ»۱؎[43-الزخرف:4] میں ہے یعنی بلند لیکن پہلی قرأت مشہور ہے۔
’ جن بندوں کو میں نے ہدایت پر لگا دیا ہے ان پر تیرا کوئی زور نہیں ہاں تیرا زور تیرے تابعداروں پر ہے ‘۔ یہ استثناء منقطع ہے۔ ابن جریر میں ہے کہ بستیوں سے باہر نبیوں کی مسجدیں ہوتی تھیں۔ جب وہ اپنے رب سے کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے تو وہاں جا کر جو نماز مقدر میں ہوتی ادا کرکے سوال کرتے۔ ایک دن ایک نبی علیہ السلام کے اور اس کے قبلہ کے درمیان شیطان بیٹھ گیا۔ اس نبی علیہ السلام نے تین بار کہا «اعُوذُبِاللّهِمِنالشِّیطانِالرَّجِیمِِ» ۔ شیطان نے کہا اے اللہ کے نبی آخر آپ میرے داؤ سے کیسے بچ جاتے ہیں؟ نبی علیہ السلام نے کہا تو بتا کہ تو بنی آدم پر کس داؤ سے غالب آ جاتا ہے؟ آخر معاہدہ ہوا کہ ہر ایک صحیح چیز دوسرے کو بتا دے، تو نبی اللہ نے کہا سن ”اللہ کا فرمان ہے کہ میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں۔ صرف ان پر جو خود گمراہ ہوں اور تیری ماتحتی کریں۔“ اس اللہ کے دشمن نے کہا یہ آپ نے کیا فرمایا اسے تو میں آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے جانا ہوں، نبی نے کہا ”اور سن اللہ کا فرمان ہے کہ «وَإِمَّايَنزَغَنَّكَمِنَالشَّيْطَانِنَزْغٌفَاسْتَعِذْبِاللَّـهِإِنَّهُسَمِيعٌعَلِيمٌ»۱؎[7-الأعراف:200] ’ جب شیطانی حرکت ہو تو اللہ سے پناہ طلب کر، وہ سننے جاننے والا ہے ‘۔ واللہ تیری آہٹ پاتے ہی میں اللہ سے پناہ چاہ لیتا ہوں۔“ اس نے کہا سچ ہے اسی سے آپ میرے پھندے میں نہیں پھنستے۔ نبی اللہ علیہ السلام نے فرمایا ”اب تو بتا کہ تو ابن آدم پر کسے غالب آ جاتا ہے؟“ اس نے کہا کہ ”میں اسے غصے اور خواہش کے وقت دبوچ لیتا ہوں۔“ پھر فرماتا ہے کہ ’ جو کوئی بھی ابلیس کی پیروی کرے، وہ جہنمی ہے ‘۔ یہی فرمان قرآن سے کفر کرنے والوں کی نسبت ہے۔