وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے، پیدا فرمایا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت26) ➊ { وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ …:} اس سورت میں آیت (۱۶) «{ وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَآءِ بُرُوْجًا }» سے دلائلِ توحید کا بیان چلا آ رہا ہے، جب اوپر کی آیات میں مختلف چیزوں کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر کیا تو اب انسان کے پیدا کیے جانے کو بطور دلیل ذکر کیا جا رہا ہے، الغرض یہ دلائلِ توحید میں ساتویں قسم ہے۔ (کبیر)
➋ {مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ:} عربی زبان میں خشک مٹی کو {” تُرَابٌ “} کہتے ہیں، جب اسے بھگو دیا جائے تو وہ {”طِيْنٌ“} کہلاتی ہے، پھر جب مدت تک پڑی رہنے سے وہ سیاہ ہو جائے تو اسے {” حَمَاٍ “} کہتے ہیں،بدبو بھی آنے لگے تو {” حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ “} (بدبو دار کیچڑ) کہتے ہیں، پھر جب وہ خشک ہو کر کھن کھن بجنے لگے تو وہ{” صَلْصَالٍ “} کہلاتی ہے۔ {” مَسْنُوْنٍ “} کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس کی تصویر بنائی گئی ہو، جیسا کہ {” سُنَّةُ الْوَجْهِ“} کا معنی {”صُوْرَةُ الْوَجْهِ“} آتا ہے اور {”مَسْنُوْنٍ “} کا معنی ملائم و نرم بھی ہے۔ آیات و تفاسیر سے آدم علیہ السلام کی پیدائش کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پوری زمین سے خشک مٹی لی، جیسا کہ سورۂ آل عمران (۵۹) میں آدم علیہ السلام کو {” تُرَابٍ “} سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ اللّٰهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيْعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ] [أبوداوٗد، السنۃ، باب في القدر: ۴۶۹۳۔ ترمذی: ۲۹۵۵۔ أحمد: ۴ /۴۰۰، ح: ۱۹۶۰۱، و صححہ الألباني]”اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی سے پیدا فرمایا، جو اس نے ساری زمین سے لی، تو بنی آدم اس زمین کے اندازے کے مطابق وجود میں آئے، ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور اس کے مابین لوگ ہیں اور نرم، سخت خبیث، طیب اور اس کے مابین بھی ہیں۔“ پھر اس میں پانی ڈالا تو وہ {”طِيْنٌ“} ہو گئی، پھر اسے مدتوں پڑا رہنے دیا، جب وہ کالی سیاہ اور ملائم و نرم ہو گئی تو آدم علیہ السلام کا ڈھانچہ اور شکل و صورت بنائی، فرمایا: «{ وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ }» [الأعراف: ۱۱] جب وہ سوکھ کر کھن کھن بجنے لگا تو اس میں اپنی خاص پیدا کردہ روح پھونکی، جیسا کہ اس جگہ {” صَلْصَالٍ “} کا ذکر ہے اور اس کے خوب خشک ہونے کا ذکر سورۂ رحمن (۱۴) میں ہے، فرمایا: «{مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ }» کہ وہ کھنکھنانے والی مٹی آگ میں پکی ہوئی مٹی کی طرح کھنکھنانے والی تھی۔
➋ {مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ:} عربی زبان میں خشک مٹی کو {” تُرَابٌ “} کہتے ہیں، جب اسے بھگو دیا جائے تو وہ {”طِيْنٌ“} کہلاتی ہے، پھر جب مدت تک پڑی رہنے سے وہ سیاہ ہو جائے تو اسے {” حَمَاٍ “} کہتے ہیں،بدبو بھی آنے لگے تو {” حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ “} (بدبو دار کیچڑ) کہتے ہیں، پھر جب وہ خشک ہو کر کھن کھن بجنے لگے تو وہ{” صَلْصَالٍ “} کہلاتی ہے۔ {” مَسْنُوْنٍ “} کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جس کی تصویر بنائی گئی ہو، جیسا کہ {” سُنَّةُ الْوَجْهِ“} کا معنی {”صُوْرَةُ الْوَجْهِ“} آتا ہے اور {”مَسْنُوْنٍ “} کا معنی ملائم و نرم بھی ہے۔ آیات و تفاسیر سے آدم علیہ السلام کی پیدائش کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پوری زمین سے خشک مٹی لی، جیسا کہ سورۂ آل عمران (۵۹) میں آدم علیہ السلام کو {” تُرَابٍ “} سے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ اللّٰهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيْعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَبَيْنَ ذٰلِكَ] [أبوداوٗد، السنۃ، باب في القدر: ۴۶۹۳۔ ترمذی: ۲۹۵۵۔ أحمد: ۴ /۴۰۰، ح: ۱۹۶۰۱، و صححہ الألباني]”اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی سے پیدا فرمایا، جو اس نے ساری زمین سے لی، تو بنی آدم اس زمین کے اندازے کے مطابق وجود میں آئے، ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور اس کے مابین لوگ ہیں اور نرم، سخت خبیث، طیب اور اس کے مابین بھی ہیں۔“ پھر اس میں پانی ڈالا تو وہ {”طِيْنٌ“} ہو گئی، پھر اسے مدتوں پڑا رہنے دیا، جب وہ کالی سیاہ اور ملائم و نرم ہو گئی تو آدم علیہ السلام کا ڈھانچہ اور شکل و صورت بنائی، فرمایا: «{ وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ }» [الأعراف: ۱۱] جب وہ سوکھ کر کھن کھن بجنے لگا تو اس میں اپنی خاص پیدا کردہ روح پھونکی، جیسا کہ اس جگہ {” صَلْصَالٍ “} کا ذکر ہے اور اس کے خوب خشک ہونے کا ذکر سورۂ رحمن (۱۴) میں ہے، فرمایا: «{مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ }» کہ وہ کھنکھنانے والی مٹی آگ میں پکی ہوئی مٹی کی طرح کھنکھنانے والی تھی۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
26۔ 1 مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، بھیگی ہوئی، گوندھی ہوئی بدبودار خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (صلصال) ہوگیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صلصالِ کو قرآن میں دوسری جگہ (فخار کی ماند کہا گیا ہے (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ) 55۔ الرحمن:14) ' پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا '
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
26۔ ہم نے انسان کو گلے سڑے گارے سے خشک شدہ ٹن سے [17] بجنے والی مٹی سے پیدا کیا
[17] آدم کی پیدائش مٹی سے ہوئی:۔
مٹی کے لیے عربی زبان میں عام لفظ تراب ہے جو ہر طرح کی مٹی پر بولا جا سکتا ہے۔ جیسے سیدنا آدمؑ کے متعلق ایک مقام پر فرمایا: ﴿خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ﴾ [3 تا 5] تاہم تراب کا لفظ عموماً خشک مٹی کے لیے بولا جاتا ہے اور انسان کے پتلے کی ساخت میں مٹی کی جن اقسام کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ طین یعنی گیلی مٹی یا وہ خشک مٹی جس میں پانی ملایا گیا ہو طین لازب چپک دار گیلی مٹی (چکنی مٹی) اس کے بعد اسی مٹی کو حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ کی شکل دی گئی یعنی ایسی مٹی یا گارا جو گل سڑ کر سیاہ رنگ کی ہو گئی ہو خمیر اٹھ رہا ہو اور بو پیدا ہو گئی ہو۔ ایسی ہی مٹی سے آدمؑ کا پتلا بنایا گیا۔ پھر اسے حرارت یا آگ میں اس قدر تپایا گیا کہ وہ کھنکھنانے سے کھن کھن کی آواز پیدا کرتا ایسی مٹی کو صَلْصَالٍ اور صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ کا نام دیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمؑ کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہی تھا۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
خشک مٹی ٭٭
«صَلْصَالٍ» سے مراد خشک مٹی ہے۔ اسی جیسی آیت «خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ» ۱؎ [55-الرحمن:14-15] ہے۔
یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو «حَمَا» کہتے ہیں۔ چکنی مٹی کو «مَسْنُوْن» کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تر مٹی۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے۔ «سَّمُوْم» کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور «حُرُور» کہتے ہیں دن کی گرمی کو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے۔ صحیح میں وارد ہے کہ { فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2996]
اس آیت سے مراد آدم علیہ السلام کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے۔
یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو «حَمَا» کہتے ہیں۔ چکنی مٹی کو «مَسْنُوْن» کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تر مٹی۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے۔ «سَّمُوْم» کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور «حُرُور» کہتے ہیں دن کی گرمی کو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے۔ صحیح میں وارد ہے کہ { فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2996]
اس آیت سے مراد آدم علیہ السلام کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے۔