وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ وَ مَنۡ لَّسۡتُمۡ لَہٗ بِرٰزِقِیۡنَ ﴿۲۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور ہم نے تمھارے لیے اس میں روزیاں بنائی ہیں اور ان کے لیے بھی جنھیں تم ہرگز روزی دینے والے نہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم ہی نے تمہارے لیے اور ان لوگوں کے لیے جن کو تم روزی نہیں دیتے اس میں معاش کے سامان پیدا کئے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنا دی ہیں اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت20){ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ …: ” مَعَايِشَ “ ”مَعِيْشَةٌ“} کی جمع ہے، {”عَاشَ يَعِيْشُ عَيْشًا وَ مَعَاشًا وَمَعِيْشَةً“} کا معنی زندہ رہنا ہے، جیسے {”مَاتَ يَمُوْتُ مَوْتًا“} کا معنی مرنا ہے۔ پھر یہ لفظ زندگی کی ضرورتوں کے لیے استعمال ہونے لگا، یعنی تمھاری زندگی گزارنے کے لیے کھانے پینے، رہنے، علاج، راحت، سواری، الغرض ہر ضرورت کی چیز تمھارے لیے بھی پیدا کی اور ان کے لیے بھی جنھیں تم روزی دینے والے نہیں۔ اس سے دو قسم کی چیزیں مراد ہیں، ایک تو وہ جن کا تم سے تعلق ہی نہیں، سمندر کی گہرائیوں میں پہاڑوں کی بلندیوں میں، صحراؤں کی وسعتوں میں، زمین کی تہوں میں، آباد اور بے آباد زمین کی سطح پر اور فضاؤں میں بے شمار مخلوق ہے جنھیں تم ہرگز روزی دینے والے نہیں۔ {” لَسْتُمْ “} نفی کی تاکید {” بِرٰزِقِيْنَ “} کی باء کے ساتھ ہونے کی و جہ سے ترجمہ ”ہر گز“ کیا گیا ہے۔ دوسری وہ تمام چیزیں جو تمھاری خدمت کے لیے ہیں، مثلاً چوپائے، سواریاں، بیوی بچے اور نوکر چاکر وغیرہ، جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ ہم انھیں کھانے کو دے رہے ہیں، خوب سمجھ لو کہ تم ہر گز انھیں روزی نہیں دے رہے،زمین میں ان کی معیشت بھی ہم ہی نے بنائی ہے اور ہم ہی انھیں رزق دے رہے ہیں، فرمایا: «{اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ }» [الذاریات: ۵۸] ”بے شک اللہ ہی بے حد رزق دینے والا، قوت والا، نہایت مضبوط ہے۔“ اور فرمایا: «{ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا }» [ہود: ۶] ”اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
20۔ 1 معایش معیشۃ کی جمع ہے یعنی زمین میں تمہاری معیشت اور گزران کے لئے بیشمار اسباب و وسائل پیدا کردیئے۔ 20۔ 2 اس سے مراد نوکر چاکر، غلام اور جانور ہیں۔ یعنی جانوروں کو تمہارے تابع کردیا، جن پر تم سواری بھی کرتے ہو، سامان بھی لاد کرلے جاتے ہو اور انھیں ذبح کر کے کھا بھی لیتے ہو۔ غلام لونڈیاں ہیں، جن سے تم خدمت گزاری کا کام لیتے ہو۔ یہ اگرچہ سب تمہارے ماتحت ہیں اور تم ان کے چارے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی کرتے ہو لیکن حقیقت میں ان کا رازق اللہ تعالیٰ ہے، تم نہیں ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم ان کے رازق ہو، اگر تم انھیں کھانا نہیں دو گے تو بھوکے مرجائیں گے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
20۔ اور اسی زمین میں ہم نے تمہارے لئے بھی سامان معیشت بنا دیا اور ان کے لئے بھی جن [11] کے رازق تم نہیں ہو [11] ایسی مخلوق بھی انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے اور اس میں ہر قسم کے چرند، پرند، درندے اور تمام حشرات الارض وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب کی روزی بھی اسی طرح زمین کے ساتھ ہی وابستہ ہے جیسے تمہاری وابستہ ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔