ترجمہ و تفسیر — سورۃ الحجر (15) — آیت 19
وَ الۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰہَا وَ اَلۡقَیۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡزُوۡنٍ ﴿۱۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور زمین، ہم نے اسے پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ رکھے اور اس میں ہر نپی تلی چیز اگائی۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور زمین کو بھی ہم ہی نے پھیلایا اور اس پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز اُگائی
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور اس پر (اٹل) پہاڑ ڈال دیئے ہیں، اور اس میں ہم نے ہر چیز ایک معین مقدار سے اگا دی ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت19) ➊ {وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا:} اب زمین اور اس پر پیدا کر دہ اشیاء کو توحید کی دلیل کے لیے بیان کیا جا رہا ہے۔ {مَدَدْنٰهَا مَدَّ يَمُدُّ } (ن) کا معنی ہے کھینچنا، پھیلانا۔ جب ہم زمین کی وسعت اور پھیلاؤ کو دیکھتے ہیں تو وہ اتنی ہے کہ اس پر چلنے پھرنے، رہنے، کاشت کرنے، مکان یا سڑکیں بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی، مگر آنکھوں کو اس کی انتہا نظر نہیں آتی، خواہ کتنا سفر کر لیں۔ یہ پھیلاؤ اور مدّ دلیل ہے کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے گول بنایا ہے، ورنہ اگر یہ مربع یا کسی اور شکل کی ہوتی تو یہ پھیلاؤ کسی جگہ جا کر ختم ہو جاتا، اب تو گول زمین کی تصویریں بھی آ چکی ہیں اور تجربے سے بھی یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے، اس کے باوجود اس کا جھکاؤ ایسا عجیب ہے کہ نہ نظر آتا ہے اور نہ اس کلیے میں کوئی فرق پڑتا ہے کہ پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے مگر سیکڑوں برس پہلے اس حقیقت کو وہی بیان کر سکتا تھا جس نے اسے پیدا کیا اور پھیلایا ہے۔
➋ {وَ اَلْقَيْنَا فِيْهَا رَوَاسِيَ: رَوَاسِيَ رَاسِيَةٌ } کی جمع ہے جو { رَسَا يَرْسُوْ } (ن) کا اسم فاعل ہے، جس کا معنی کسی بھاری چیز کا گڑا ہوا ہونا ہے۔ مراد پہاڑ ہیں جن کا اکثر حصہ زمین کے اندر اور باقی باہر ہوتا ہے۔ اس سے ایک دوسری حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ زمین کو متحرک بنایا گیا ہے، تبھی اس پر بھاری پہاڑ زمین کی گردش میں توازن رکھنے کے لیے گاڑ دیے گئے، تاکہ تیز رفتاری کے باوجود اس میں لرزش اور تھرتھراہٹ پیدا نہ ہو، جیسا کہ گاڑی کے پہیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ان کی مختلف جگہوں پر ضرورت کے مطابق لوہے وغیرہ کے ٹکڑے لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک اور آیت میں بھی یہ اشارہ موجود ہے: «{وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ [النمل: ۸۸] اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا، انھیں گمان کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں،حالانکہ وہ بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔
➋ {وَ اَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُوْنٍ: فِيْهَا } یعنی زمین میں ہر چیز اتنی اگائی اور پیدا کی جتنی اس کی ضرورت تھی، نہ کسی چیز کو بلاضرورت پیدا کیا اور نہ ایک خاص حد سے بڑھنے دیا۔ { فِيْهَا } میں ضمیر جبال (پہاڑوں) کے لیے بھی ہو سکتی ہے، یعنی پہاڑوں کے اندر ہر چیز یعنی معدنیات وغیرہ پورے اندازے سے پیدا کیں۔ (شوکانی)

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

19۔ اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور اسی میں سلسلہ ہائے کوہ جما دیئے اور اس میں سے ہر مناسب [10] چیز کو ہم نے اگایا
[10] ہر چیز کی پیدائش اور افزائش اللہ کے مقررہ اندازے کے مطابق ہی ہو سکتی ہے:۔
موجودہ تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ نباتات کی ہر نوع میں تناسل کی اس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر صرف ایک ہی پودے کو زمین میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے تو چند ہی سالوں میں اسی جنس کے پودے تمام روئے زمین پر پھیل جائیں اور کسی دوسری قسم کے پودے کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے اور یہ حکیم و علیم اور قادر مطلق کا سوچا سمجھا اندازہ ہی ہے جس کے مطابق بے شمار قسم کی نباتات اس زمین پر اگ رہی ہے اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد تک پہنچ کر رک جاتی ہے مزید یہ کہ ہر نوع کی پیداوار کو اس علاقہ کی ضرورت اور وہاں کے لوگوں کی طبیعت کے مطابق پیدا کیا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورت انسان کے نطفہ کی ہے۔ اس کے ایک دفعہ کے انزال میں بار آور کرنے والے اتنی کثیر تعداد میں جرثومے پائے جاتے ہیں جو تمام دنیا کی عورتوں کو بار آور کر سکتے ہیں۔ یہ بس اللہ کی حکمت ہی ہے کہ وہ جتنے انسان پیدا کرنا چاہتا ہے اتنے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ہر چیز زمین سے خوراک حاصل کر کے بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہے لیکن وہ بھی ایک مخصوص حد تک پہنچ کر رک جاتی ہے مثلاً آج کل انسان عموماً پانچ سے چھ فٹ تک لمبا ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان دوگنی خوراک کھا کر بارہ فٹ لمبا ہو جائے۔ یہی حال دوسری مخلوق کا ہے خواہ یہ نباتات کی قسم سے ہو یا حیوانات کی قسم سے یا انسان ہو۔ غرض جاندار کیا اور بے جان کیا۔ ہر چیز کے ہر ہر پہلو سے تعلق رکھنے والی اللہ نے حدیں مقرر کر رکھی ہیں جن سے وہ تجاوز نہیں کر سکتیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل