اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
مگر جو سنی ہوئی بات چرا لے تو ایک روشن شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ہاں اگر کوئی چوری سے سننا چاہے تو چمکتا ہوا انگارہ اس کے پیچھے لپکتا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ہاں مگر جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا (کھلا شعلہ) لگتا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
اس آیت کی تفسیر آیت 17 میں تا آیت 19 میں گزر چکی ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
18۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ شیاطین آسمانوں پر باتیں سننے کے لئے جاتے ہیں، جن پر شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرتے ہیں، جن سے کچھ تو مرجاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں اور بعض سن آتے ہیں۔ حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ' جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کوئی فیصلہ فرماتا ہے، تو فرشتے اسے سن کر اپنے پر یا بازو پھڑ پھڑاتے ہیں گویا وہ کسی چٹان پر زنجیر کی آواز ہے۔ پھر جب فرشتوں کے دلوں سے اللہ کا خوف دور ہوجاتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں، اس نے کہا حق اور اور وہ بلند اور بڑا ہے (اس کے بعد اللہ کا وہ فیصلہ اوپر سے نیچے تک یکے بعد دیگرے سنایا جاتا ہے) اس موقع پر شیطان چوری چھپے بات سنتے ہیں۔ اور یہ چوری چھپے بات سننے والے شیطان، تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں اور ایک آدھا حکم سن کر اپنے دوست نجومی یا کاہن کے کان پھونک دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بیان کرتا ہے (ملخصا۔ صحیح بخاری تفسیر سورة حجر)
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
18۔ ہاں اگر شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ جاتا [9] ہے
[9] شہاب ثاقب کی حقیقت:۔
اس آیت کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمام آسمان میں جب کسی حکم کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کا حکم بجا لانے کے لیے نہایت عاجزی سے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں اور ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے کسی صاف پتھر پر زنجیر ماری جا رہی ہو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں تک اپنا پیغام پہنچا دیتا ہے پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو دور والے فرشتے نزدیک والوں سے پوچھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا؟ وہ کہتے ہیں جو فرمایا بجا ارشاد فرمایا۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری چھپے سے سننے والے (شیطان) سن لیتے ہیں اور اوپر تلے رہ کر وہاں تک جاتے ہیں۔ پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فرشتے اس بات کو سننے والے شیطان پر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں جو اسے نیچے والے شیطان کو بات پہچانے سے پہلے ہی جلا ڈالتا ہے۔ اور کبھی یہ شعلہ اسے بات پہچانے کے بعد پہنچتا ہے تو اوپر والا شیطان نچلے کو بات پہچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ بات زمین تک آپہنچتی ہے۔ پھر وہ بات ساحر (کاہن، نجومی) کے منہ پر جاری ہوتی ہے۔ تو اس میں وہ سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے پھر اگر اس کی کوئی بات سچی نکل آئے تو لوگ کہتے ہیں دیکھو اس نجومی نے ہمیں خبر دی کہ فلاں وقت ایسا ایسا ہو گا اور وہ بات سچ نکلی۔ یہ وہ بات ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی۔ [بخاري۔ كتاب التفسير سورة سبا]
اس آیت میں شہاب مبین کے لفظ ہیں اور ایک دوسرے مقام پر [10: 37] کے الفاظ ہیں جن کے معنی ہیں چھید کر جانے والا چمکدار شعلہ۔ رات کو بسا اوقات ایسے شعلہ دار ستارے نظر آتے ہیں۔ جنہیں ہم اپنی زبان میں ٹوٹنے والے تارے کہتے ہیں اور ہمیں ایک شعلہ تیزی سے فضا میں سفر کرتا نظر آتا ہے پھر اچانک بجھ جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ شیطان کو جلا کر بھسم کر دینے والے وہی ستارے ہوں جنہیں آج کل علم ہیئت کی اصطلاح میں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے جو کثیر تعداد میں فضا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا کثیر حصہ فضا میں ہی گم ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی یہ زمین پر گر پڑتے ہیں اگر یہ سب ستارے زمین پر گرتے تو ممکن ہے کہ انسان کا اس زمین پر زندہ رہنا ہی محال ہو جاتا۔ یہ بس اللہ تعالیٰ ہی کا نظام ہے جو ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس شہاب ثاقب کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے وہ معروف شہاب ثاقب کے علاوہ کوئی اور قسم کا ہو جس تک تا حال علم انسانی کی رسائی نہ ہو سکی ہو۔
اس آیت میں شہاب مبین کے لفظ ہیں اور ایک دوسرے مقام پر [10: 37] کے الفاظ ہیں جن کے معنی ہیں چھید کر جانے والا چمکدار شعلہ۔ رات کو بسا اوقات ایسے شعلہ دار ستارے نظر آتے ہیں۔ جنہیں ہم اپنی زبان میں ٹوٹنے والے تارے کہتے ہیں اور ہمیں ایک شعلہ تیزی سے فضا میں سفر کرتا نظر آتا ہے پھر اچانک بجھ جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ شیطان کو جلا کر بھسم کر دینے والے وہی ستارے ہوں جنہیں آج کل علم ہیئت کی اصطلاح میں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے جو کثیر تعداد میں فضا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا کثیر حصہ فضا میں ہی گم ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی یہ زمین پر گر پڑتے ہیں اگر یہ سب ستارے زمین پر گرتے تو ممکن ہے کہ انسان کا اس زمین پر زندہ رہنا ہی محال ہو جاتا۔ یہ بس اللہ تعالیٰ ہی کا نظام ہے جو ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس شہاب ثاقب کا ذکر کتاب و سنت میں آیا ہے وہ معروف شہاب ثاقب کے علاوہ کوئی اور قسم کا ہو جس تک تا حال علم انسانی کی رسائی نہ ہو سکی ہو۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔