وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿ۙ۱۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بلاشبہ یقینا ہم نے آسمان میں کئی برج بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لیے مزین کر دیا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اُس کو سجا دیا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجا دیا گیا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت16) ➊ {وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَآءِ بُرُوْجًا: ” بُرُوْجًا “ ” بُرْجٌ “} کی جمع ہے، جو اصل میں بڑے بلند و بالا اور مزین قلعہ یا محل کو کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ }» [النساء: ۷۸] ”تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔“ اس کا اصل معنی نمایاں اور ظاہر ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن سے فرمایا: «{ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى }» [الأحزاب: ۳۳] ”اور پہلی جاہلیت کے زینت لگا کر نمایاں ہونے کی طرح زینت لگا کر ظاہر نہ ہو۔“ مزید دیکھیے سورۂ بروج کی پہلی آیت۔ پچھلی آیاتِ رسالت کے بعد اب توحید کا بیان شروع ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل کے لیے پہلے عالم بالا کا ذکر فرمایا ہے، پھر زمین کا، پھر ان کے درمیان کی چیزوں کا اور اس کے بعد آدم و ابلیس کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ فرمایا ہم نے آسمان میں عظیم الشان اور نمایاں برج بنائے ہیں، یعنی ستاروں کے نمایاں جھرمٹ، سورج اور چاند کی منازل جس سے رات کو ٹھنڈک والی روشنی اور دن کو تیز روشنی اور حرارت کے حصول کے علاوہ وقت، دنوں، مہینوں اور سالوں کا تعین ہوتا ہے۔ انسانوں، حیوانوں اور پودوں کی نشوونما، ان کی بقا اور بے انتہا ضرورتوں کا بندوبست ہوتا ہے، سمندر کا مدوجزر اور بے شمار فوائد جو تمھارے وہم و گمان میں بھی نہیں، انھی سے حاصل ہوتے ہیں۔ان سب کو بنانے والا، چلانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے؟ کسی کا دعویٰ ہے تو اسے سامنے لاؤ۔ بعض اہلِ علم نے {” بُرُوْجًا “} ان مقامات کو بھی بتایا ہے جہاں آسمان کے محافظ فرشتے رہتے ہیں۔
➋ { وَ زَيَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِيْنَ:} اللہ تعالیٰ کی قدرت و توحید کے دلائل میں سے ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے آسمان کو چاند، ستاروں اور سورج سے مزین کر دیا ہے۔ رات کو ستاروں اور چاند کے ساتھ آسمان کی زینت کا نظارہ صحیح طرح وہاں ہوتا ہے جہاں مصنوعی روشنیاں نہ ہوں۔ یہ صرف ایک آسمان ہی پر موقوف نہیں، اس لامحدود قدرت والے نے جو چیز بھی پیدا کی خوب صورت پیدا کی اور اس میں زینت کا خاص اہتمام فرمایا، چھوٹے سے چھوٹے کیڑے سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق سب کچھ ہی کمال خوبصورت بنایا، فرمایا: «{ الَّذِيْۤ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ }» [السجدۃ: ۷] ”جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی۔“ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاف ستھرا اور بن سنور کر رہنے کو پسند کرتے تھے، فرمایا: [إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ] [مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ: ۹۱] ”بے شک اللہ خوبصورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔“ وہ سادھوؤں، جوگیوں یا راہبوں اور بے وقوف صوفیوں کی طرح گندے اور بدزیب ہو کر رہنے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ دس چیزیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کا حصہ قرار دیا، مثلاً کلی، مسواک،زیر ناف کی صفائی وغیرہ، یہ اسی نظافت اور جمال کو کامل رکھتی ہیں۔
➋ { وَ زَيَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِيْنَ:} اللہ تعالیٰ کی قدرت و توحید کے دلائل میں سے ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے آسمان کو چاند، ستاروں اور سورج سے مزین کر دیا ہے۔ رات کو ستاروں اور چاند کے ساتھ آسمان کی زینت کا نظارہ صحیح طرح وہاں ہوتا ہے جہاں مصنوعی روشنیاں نہ ہوں۔ یہ صرف ایک آسمان ہی پر موقوف نہیں، اس لامحدود قدرت والے نے جو چیز بھی پیدا کی خوب صورت پیدا کی اور اس میں زینت کا خاص اہتمام فرمایا، چھوٹے سے چھوٹے کیڑے سے لے کر بڑی سے بڑی مخلوق سب کچھ ہی کمال خوبصورت بنایا، فرمایا: «{ الَّذِيْۤ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ }» [السجدۃ: ۷] ”جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی۔“ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاف ستھرا اور بن سنور کر رہنے کو پسند کرتے تھے، فرمایا: [إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ] [مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ: ۹۱] ”بے شک اللہ خوبصورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔“ وہ سادھوؤں، جوگیوں یا راہبوں اور بے وقوف صوفیوں کی طرح گندے اور بدزیب ہو کر رہنے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ دس چیزیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کا حصہ قرار دیا، مثلاً کلی، مسواک،زیر ناف کی صفائی وغیرہ، یہ اسی نظافت اور جمال کو کامل رکھتی ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
16۔ 1 بروج برج کی جمع ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں۔ اسی سے تبرج ہے جو عورت کے اظہار زینت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں آسمان کے ستاروں کو بُرُوْج، ُ کہا گیا ہے کیونکہ وہ بلند اور ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بُرُوْج سے مراد شمس و قمر اور دیگر سیاروں کی منزلیں ہیں، جو ان کے لئے مقرر ہیں اور یہ 12 ہیں۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ عرب ان سیاروں کی منزلوں اور ان کے ذریعے سے موسم کا حال معلوم کرتے تھے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں البتہ ان سے تغیر پذیر ہونے والے واقعات و حوادث جاننے کا دعوی کرنا، جیسے آج کل بھی جاہلوں میں اس کا خاصا چرچہ۔ اور لوگوں کی قسمتوں کو ان کے ذریعے سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کوئی تعلق دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حوادث سے نہیں ہوتا، جو کچھ بھی ہوتا ہے، صرف مشیت الہی ہی سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان برجوں یا ستاروں کا ذکر اپنی قدرت اور بےمثال صنعت کے طور پر کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ واضح کیا ہے کہ یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
16۔ بلا شبہ ہم نے آسمان میں برج بنائے [8] اور دیکھنے والوں کے لئے انھیں سجا دیا
[8] آسمانوں کے برج:۔
اس آیت میں اگر کوئی شخص بروج کے لفظ سے وہ ہی بارہ برج مراد لیتا ہے جو قدیم اہل ہیئت نے فلک ہشتم پر بنا رکھے ہیں تو اس کی مرضی ہے ورنہ آیت کا سیاق اس کی تائید نہیں کرتا کیونکہ ان برجوں میں سے اکثر برجوں کی اشکال کا زینت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بھلا سرطان (کیکڑا) عقرب (بچھو) ترازو اور ڈول وغیرہ کیا خوبصورتی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے یہاں بروج سے ستارے اور سیارے مراد لیے ہیں جو رات کے وقت آسمان کو زینت بخشتے ہیں۔
لغوی لحاظ سے ہم نمایاں طور پر ظاہر ہونے والی ہر چیز کو برج کہہ سکتے ہیں خواہ وہ کوئی عمارت ہو یا گنبد ہو یا قلعہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آسمان کو ایسا مزین بنا دینا بذات خود اس کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر اس کے بعد انھیں اس کی اور کیا نشانی درکار ہے؟
لغوی لحاظ سے ہم نمایاں طور پر ظاہر ہونے والی ہر چیز کو برج کہہ سکتے ہیں خواہ وہ کوئی عمارت ہو یا گنبد ہو یا قلعہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آسمان کو ایسا مزین بنا دینا بذات خود اس کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر اس کے بعد انھیں اس کی اور کیا نشانی درکار ہے؟
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
ستارے اور شیطان ٭٭
اس بلند آسمان کا جو ٹھہرے رہنے والے اور چلنے پھرنے والے ستاروں سے زینت دار ہے، پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ جو بھی اسے غور و فکر سے دیکھے وہ عجائبات قدرت اور نشانات عبرت اپنے لیے بہت سے پاسکتا ہے۔
بروج سے مراد یہاں پر ستارے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا» ۱؎ [25-الفرقان:61] بعض کا قول ہے کہ مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں۔
بروج سے مراد یہاں پر ستارے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا» ۱؎ [25-الفرقان:61] بعض کا قول ہے کہ مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں۔
عطیہ کہتے ہیں وہ جگہیں جہاں چوکی پہرے ہیں، اور جہاں سے سرکش شیطانوں پر مار پڑتی ہے کہ وہ بلند و بالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں۔ جو آگے پرھتا ہے، شعلہ اس کے جلانے کو لپکتا ہے۔ کبھی تو نیچے والے کے کان میں بات ڈالنے سے پہلے ہی اس کا کام ختم ہو جاتا ہے، کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے۔
جیسے کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں صراحتاً مروی ہے کہ { جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کی بابت فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر۔ پھر جب ان کے دل مطمئن ہو جاتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا؟ وہ کہتے ہیں جو بھی فرمایا حق ہے اور وہی بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لیے جنات اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور اس طرح ایک پر ایک ہوتا ہے۔ راوی حدیث صفوان نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح بتایا کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے ایک کو ایک پر رکھ لی۔ شعلہ اس سننے والے کا کام کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کہہ دے۔ اسی وقت وہ جل جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اس سے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آ جائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہو جائیں پھر تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلا دیتا ہے۔ جب اس کی وہ ایک بات جو آسمان سے اسے اتفاقاً پہنچ گئی تھی صحیح نکلتی ہے تو لوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے فلاں دن یہ کہا تھا بالکل سچ نکلا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4800]
جیسے کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں صراحتاً مروی ہے کہ { جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کی بابت فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر۔ پھر جب ان کے دل مطمئن ہو جاتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا؟ وہ کہتے ہیں جو بھی فرمایا حق ہے اور وہی بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لیے جنات اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور اس طرح ایک پر ایک ہوتا ہے۔ راوی حدیث صفوان نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح بتایا کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے ایک کو ایک پر رکھ لی۔ شعلہ اس سننے والے کا کام کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کہہ دے۔ اسی وقت وہ جل جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اس سے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آ جائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہو جائیں پھر تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلا دیتا ہے۔ جب اس کی وہ ایک بات جو آسمان سے اسے اتفاقاً پہنچ گئی تھی صحیح نکلتی ہے تو لوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے فلاں دن یہ کہا تھا بالکل سچ نکلا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4800]
پھر اللہ تعالیٰ زمین کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ اسی نے اسے پیدا کیا، پھیلایا، اس میں پہاڑ بنائے، جنگل اور میدان قائم کئے، کھیت اور باغات اور تمام چیزیں اندازے، مناسبت اور موزونیت کے ساتھ ہر ایک موسم، ہر ایک زمین، ہر ایک ملک کے لحاظ سے بالکل ٹھیک پیدا کیں جو بازار کی زینت اور لوگوں کے لیے خوشگوار ہیں۔ زمین میں قسم قسم کی معیشت اس نے پیدا کر دیں اور انہیں بھی پیدا کیا جن کے روزی رساں تم نہیں ہو ‘۔ یعنی چوپائے اور جانور لونڈی غلام وغیرہ۔
پس قسم قسم کی چیزیں، قسم قسم کے اسباب، قسم قسم کی راحت، ہر طرح کے آرام، اس نے تمہارے لیے مہیا کر دئیے۔ کمائی کے طریقے تمہیں سکھائے جانوروں کو تمہارے زیر دست کر دیا تاکہ کھاؤ بھی، سواریاں بھی کرو، لونڈی غلام دیئے کہ راحت و آرام حاصل کرو۔ ان کی روزیاں بھی کچھ تمہارے ذمہ نہیں بلکہ ان کا رزاق بھی اللہ ہے۔ نفع تم اٹھاؤ روزی وہ پہنچائے «فسبحانه اعظم شانه» ۔
پس قسم قسم کی چیزیں، قسم قسم کے اسباب، قسم قسم کی راحت، ہر طرح کے آرام، اس نے تمہارے لیے مہیا کر دئیے۔ کمائی کے طریقے تمہیں سکھائے جانوروں کو تمہارے زیر دست کر دیا تاکہ کھاؤ بھی، سواریاں بھی کرو، لونڈی غلام دیئے کہ راحت و آرام حاصل کرو۔ ان کی روزیاں بھی کچھ تمہارے ذمہ نہیں بلکہ ان کا رزاق بھی اللہ ہے۔ نفع تم اٹھاؤ روزی وہ پہنچائے «فسبحانه اعظم شانه» ۔