ترجمہ و تفسیر — سورۃ الحجر (15) — آیت 15
لَقَالُوۡۤا اِنَّمَا سُکِّرَتۡ اَبۡصَارُنَا بَلۡ نَحۡنُ قَوۡمٌ مَّسۡحُوۡرُوۡنَ ﴿٪۱۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تو یقینا کہیں گے کہ بات یہی ہے کہ ہماری آنکھیں سختی سے باندھ دی گئی ہیں، بلکہ ہم جادو کیے ہوئے لوگ ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تو بھی یہی کہیں کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت15){ لَقَالُوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا …: سَكَرَ يَسْكُرُ سَكْرًا } باندھنا، روکنا اور بند کرنا، {سَكَرْتُ الْبَابَ} میں نے دروازہ بند کیا۔ { سُكِّرَتْ } باب تفعیل مبالغہ کے لیے ہے، یعنی یہی کہیں گے کہ جادو کے زور سے ہماری آنکھیں بالکل بند کر دی گئی ہیں، اس لیے جادو زدہ ہونے کی و جہ سے ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں محض خیال ہے اور فی الواقع انھوں نے یہ کام کر بھی دکھایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ (1) وَ اِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَ يَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ‏‏‏‏ [القمر: ۱، ۲] قیامت بالکل قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (یہ) ایک جادو ہے جو گزر جانے والا ہے (یا ہمیشہ سے چلا آنے والا ہے)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

15۔ 1 یعنی ان کا کفر وعناد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ فرشتوں کا نزول تو رہا ایک طرف، اگر خود ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں اور یہ ان دروازوں سے آسمان پر آجائیں، تب بھی انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے اور رسولوں کی تصدیق نہ کریں بلکہ یہ کہیں کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے یا ہم پر جادو کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم آسمان پر آ جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

15۔ تو بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کی نظر بندی [7] کر دی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کیا گیا ہے
[7] کافر حسی معجزہ دیکھ کر بھی تعصب سے باز نہیں آتے:۔
اور ان کے معجزات کو دیکھ کر ایمان لانے کا معاملہ یہ ہے کہ اگر ہم کوئی ایسا سلسلہ بنا دیں کہ یہ لوگ آسمان کی بلندیوں پر چڑھنے لگ جائیں۔ خود چڑھیں پھر اتریں تو بھی بعد میں یہی کہہ دیں گے کہ اس میں حقیقت کچھ بھی نہیں تھی یہ تو محض نظر کا فریب تھا یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیں گے کہ یہ جو کچھ ہوا ہے سب جادو کے کرشمے ہیں اور جادو ہی کے زور سے ہم چڑھتے اور اترتے رہے۔ مطلب یہ ہے کہ ضدی اور ہٹ دھرم جب میں نہ مانوں والا رویہ اختیار کر لیں تو پھر کسی عقلی دلیل کا کیا ذکر، معجزہ دیکھ کر بھی حق کو حق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

باب
ان کی سرکشی، ضد، ہٹ، خود بینی اور باطل پرستی کی تو یہ کیفیت ہے کہ بالفرض اگر ان کے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں وہاں چڑھا دیا جائے تو بھی یہ حق کو حق کہہ کر نہ دیں گے بلکہ اس وقت بھی ہانک لگائیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے، آنکھیں بہکا دی گئی ہیں، جادو کر دیا گیا ہے، نگاہ چھین لی گئی ہے، دھوکہ ہو رہا ہے، بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل