اِذۡ قَالُوۡا لَیُوۡسُفُ وَ اَخُوۡہُ اَحَبُّ اِلٰۤی اَبِیۡنَا مِنَّا وَ نَحۡنُ عُصۡبَۃٌ ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنِۣ ۚ﴿ۖ۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
جب انھوں نے کہا یقینا یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کے ہاں ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالانکہ ہم ایک قوی جماعت ہیں۔ بے شک ہمارا باپ یقینا کھلی غلطی میں ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جب کہ انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی بہ نسبت ہمارے، باپ کو بہت زیاده پیارے ہیں حاﻻنکہ ہم (طاقتور) جماعت ہیں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ابا صریح غلطی میں ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 8) ➊ { اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَ اَخُوْهُ …:} یعنی انھوں نے آپس میں کہا۔ دراصل انھوں نے اپنے ظلم کے جواز کے لیے یوسف علیہ السلام کا یہ جرم تجویز کیا، ورنہ اگر یہ جرم تھا تو والد کا تھا جو انھوں نے والد کو بھی معاف نہیں کیا، اس کا ذکر آگے آ رہا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید میں کہیں اشارہ بھی نہیں کہ اس میں یعقوب علیہ السلام کی کوئی غلطی تھی، اگر یہ غلطی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یعقوب علیہ السلام کو ضرور اس سے آگاہ کر دیتا، کیونکہ وہ نبی تھے۔ بعض مفسرین نے بھی یہ لکھ دیا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ باپ کو بیٹوں کے درمیان محبت میں بھی برابری رکھنی چاہیے، حالانکہ نہ ان حضرات نے خیال فرمایا، نہ برادران یوسف نے کہ والدین کے بعض اولاد کی طرف میلان کے کیا مراتب و اسباب ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ چھوٹے بچے والدین کی شفقت اور محبت زیادہ حاصل کرتے ہیں، جو یوسف علیہ السلام کے بڑے بھائیوں میں سے ہر ایک اپنی اس عمر میں حاصل کر چکا تھا، پھر اولاد کی طبیعت کی سرکشی اور اطاعت ماں باپ کی محبت کھینچنے میں فرق کا باعث بن جاتی ہے۔ اسی طرح بیمار بچے اور پردیس میں رہنے والے بچے کی طرف والدین کی توجہ زیادہ ہوتی ہے، جیسا کہ اُس قدیم عرب نے کہا تھا جس سے پوچھا گیا کہ تمھیں اپنے بیٹوں میں سب سے پیارا کون ہے؟ تو اس نے جواب دیا: ”چھوٹا، یہاں تک کہ بڑا ہو، غائب یہاں تک کہ آ جائے اور بیمار یہاں تک کہ تندرست ہو جائے۔“ (شعراوی) اس لیے شریعت نے اولاد کے درمیان عطیے میں برابری اور بیویوں کے درمیان عدل کا حکم دیا ہے، دلی میلان اور محبت نہ بندے کے اختیار میں ہے اور نہ اس کے کم و بیش ہونے میں ماں باپ کا کوئی جرم ہے، نہ اولاد کا۔ یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی کا جرم بھی یہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چھوٹے بھائی کا نام بتایا نہ بڑوں کا، کیونکہ یہ بات قرآن کے مقصود سے خاص تعلق نہیں رکھتی۔ اب اگر ہم اہلِ کتاب سے سن کر چھوٹے کا نام بنیامین لکھیں یا بڑوں کا نام لکھیں تو جس بات کو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سچا یا جھوٹا نہیں کہہ سکتے، اس کا علم سے کیا تعلق ہے اور اس کا اعتبار ہی کیا ہے؟ علم یقین کا نام ہے، شک کا نہیں۔
➋ {وَ نَحْنُ عُصْبَةٌ:} یہ جملہ حالیہ ہے۔ لفظ {” عُصْبَةٌ “ } ایک قوی جماعت پر بولا جاتا ہے، جو عموماً دس سے لے کر چالیس پر مشتمل ہوں۔ یہ{”عَصْبٌ“} سے مشتق ہے جو بمعنی {”شَدٌّ“ } (باندھنا) ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو قوت اور سہارا دیتا ہے، یعنی ہم تمام کام سنبھالنے والے اور وقت پر کام آنے والے ہیں، جب کہ یوسف اور اس کا بھائی کم عمر ہونے کی وجہ سے والد کے کسی کام نہیں آ سکتے اور ہم ایک قوی جتھا ہیں جو اس بدوی ماحول میں وقت پر کام آ سکتے ہیں۔
➌ {اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ:} یہاں انھوں نے باپ کو بھی نہیں بخشا۔ {” ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ “} سے مراد رائے کی غلطی ہے جو دنیوی معاملات میں ہوتی ہے، یہاں ضلالت سے مراد دینی ضلالت یا عام گمراہی نہیں ہے، ایسا کہتے تو یہ لوگ کافر ہو جاتے۔ (قرطبی) بعض اوقات کسی خاص کام میں غلطی پر بھی یہ لفظ آ جاتا ہے، جیسا کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہونے کی وجہ بتائی، فرمایا: «{ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى }» [البقرۃ: ۲۸۲] ”(اس لیے) کہ دونوں میں سے ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے۔“ دراصل وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ آئندہ کیے جانے والے سلوک میں اپنے آپ کو بے قصور باور کروا کر ساری غلطی والد کے ذمے ڈالنا چاہتے تھے، جنھوں نے اولاد کی محبت میں فرق کیا تھا۔
➋ {وَ نَحْنُ عُصْبَةٌ:} یہ جملہ حالیہ ہے۔ لفظ {” عُصْبَةٌ “ } ایک قوی جماعت پر بولا جاتا ہے، جو عموماً دس سے لے کر چالیس پر مشتمل ہوں۔ یہ{”عَصْبٌ“} سے مشتق ہے جو بمعنی {”شَدٌّ“ } (باندھنا) ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو قوت اور سہارا دیتا ہے، یعنی ہم تمام کام سنبھالنے والے اور وقت پر کام آنے والے ہیں، جب کہ یوسف اور اس کا بھائی کم عمر ہونے کی وجہ سے والد کے کسی کام نہیں آ سکتے اور ہم ایک قوی جتھا ہیں جو اس بدوی ماحول میں وقت پر کام آ سکتے ہیں۔
➌ {اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ:} یہاں انھوں نے باپ کو بھی نہیں بخشا۔ {” ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ “} سے مراد رائے کی غلطی ہے جو دنیوی معاملات میں ہوتی ہے، یہاں ضلالت سے مراد دینی ضلالت یا عام گمراہی نہیں ہے، ایسا کہتے تو یہ لوگ کافر ہو جاتے۔ (قرطبی) بعض اوقات کسی خاص کام میں غلطی پر بھی یہ لفظ آ جاتا ہے، جیسا کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہونے کی وجہ بتائی، فرمایا: «{ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى }» [البقرۃ: ۲۸۲] ”(اس لیے) کہ دونوں میں سے ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے۔“ دراصل وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ آئندہ کیے جانے والے سلوک میں اپنے آپ کو بے قصور باور کروا کر ساری غلطی والد کے ذمے ڈالنا چاہتے تھے، جنھوں نے اولاد کی محبت میں فرق کیا تھا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
8۔ 1 ' اس کا بھائی ' سے مراد بنیامین ہے۔ 8۔ 2 یعنی ہم دس بھائی طاقتور جماعت اور اکثریت میں ہیں، جب کہ یوسف ؑ اور بنیامین (جن کی ماں الگ تھی) صرف دو ہیں، اس کے باوجود باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں۔ 8۔ 3 یہاں ضلال سے مراد غلطی ہے جو ان کے زعم کے مطابق باپ سے یوسف ؑ اور بنیامین سے زیادہ محبت کی صورت میں صادر ہوئی۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
8۔ جب یوسف کے بھائیوں نے (آپس میں) کہا: ”یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک طاقتور [7] جماعت ہیں۔ ہمارا باپ تو صریح بھول میں ہے [7] یعنی باپ کی خدمت تو ہم کرتے ہیں۔ کما کر ہم لاتے ہیں۔ مشکل کے وقت کام ہم آتے ہیں اور شفقت اور پیار ہمارے بجائے یوسف اور اس کے بھائی پر ہوتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باپ کی توجہ ہماری طرف ہوتی لیکن توجہ کا مرکز یہ دونوں بنے ہوئے ہیں اور یہ ہمارے باپ کی صریح غلطی ہے۔ لفظ ضلال مبین کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ ان حقائق کے باوجود ہمارا باپ انھیں دونوں کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
یوسف علیہ السلام کے خاندان کا تعارف ٭٭
فی الواقع یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات اس قابل ہیں کہ ان کا دریافت کرنے والا ان سے بہت سی عبرتیں حاصل کر سکے اور نصیحتیں لے سکے۔ یوسف علیہ السلام کے ایک ہی ماں سے دوسرے بھائی بنیامین علیہ السلام تھے باقی سب بھائی دوسری ماں سے تھے۔ یہ سب آپس میں کہتے ہیں ہے کہ واللہ ابا جان ہم سے زیادہ ان دونوں کو چاہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ہم پر جو جماعت ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں جو صرف دو ہیں۔ یقیناً یہ تو والد صاحب کی صریح غلطی ہے۔ یہ یاد رہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی نبوت پر در اصل کوئی دلیل نہیں اور آیت کا طرز بیان تو بالکل اس کے خلاف پر ہے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں نبوت ملی لیکن یہ چیز بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل میں آیت قرآنی «قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ» [2-البقرہ: 136] میں سے لفظ «أَسْبَاطِ» پیش کرنا بھی احتمال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ بطون بنی اسرائیل کو اسباط کہا جاتا ہے جیسے کہ عرب کو قبائل کہا جاتا ہے اور عجم کو شعوب کہا جاتا ہے۔ پس آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے اسباط پر وحی الٰہی نازل ہو گئی انہیں اس لیے اجمالاً ذکر کیا گیا کہ یہ بہت تھے لیکن ہر سبط برادران یوسف علیہ السلام میں سے ایک کی نسل تھی۔ پس اس کی کوئی دلیل نہیں کہ خاص ان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا تھا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ پھر آپس میں کہتے ہیں ایک کام کرو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یوسف «علیہ السلام» کا پاپ ہی کاٹو۔ نہ یہ ہو نہ ہماری راہ کا کانٹا بنے۔ ہم ہی ہم نظر آئیں۔ اور ابا کی محبت صرف ہمارے ہی ساتھ رہے۔ اب اسے باپ سے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں یا تو اسے مار ہی ڈالو۔
کہیں ایسی دور دوراز جگہ پھینک آؤ کہ ایک کی دوسرے کو خبر ہی نہ ہو۔ اور یہ واردات کر کے پھر نیک بن جانا توبہ کر لینا اللہ معاف کرنے والا ہے یہ سن کر ایک نے مشورہ دیا جو سب سے بڑا تھا اس کا نام روبیل تھا۔ کوئی کہتا ہے یہودا تھا کوئی کہتا ہے شمعون تھا۔ اس نے کہا بھئی یہ تو ناانصافی ہے۔ بے وجہ، بے قصور صرف عداوت میں آ کر خون ناحق گردن پر لینا تو ٹھیک نہیں۔ یہ بھی کچھ اللہ کی حکمت تھی رب کو منظور ہی نہ تھا ان میں قتل یوسف علیہ السلام کی قوت ہی نہ تھی۔ منظور رب تو یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کو نبی بنائے، بادشاہ بنائے اور انہیں عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا کرے۔ پس ان کے دل روبیل کی رائے سے نرم ہو گئے اور طے ہوا کہ اسے کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں پھینک دیں۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بیت المقدس کا کنواں تھا انہیں یہ خیال ہوا کہ ممکن ہے مسافر وہاں سے گزریں اور وہ اسے اپنے قافلے میں لے جائیں پھر کہاں یہ اور کہاں ہم؟ جب گڑ دیئے کام نکلتا ہو تو زہر کیوں دو؟ بغیر قتل کئے مقصود حاصل ہوتا ہے تو کیوں ہاتھ خون سے آلود کرو۔ ان کے گناہ کا تصور تو کرو۔ یہ رشتے داری کے توڑنے، باپ کی نافرمانی کرنے، چھوٹے پر ظلم کرنے، بےگناہ کو نقصان پہنچانے بڑے بوڑھے کو ستانے اور حقدار کا حق کاٹنے حرمت و فضیلت کا خلاف کرنے بزرگی کو ٹالنے اور اپنے باپ کو دکھ پہنچانے اور اسے اس کے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سکھ سے ہمیشہ کے لیے دور کرنے اور بوڑھے باپ، اللہ کے لاڈلے پیغمبر کو اس بڑھاپے میں ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے اور اس بےسمجھ بچے کو اپنے مہربان باپ کی پیار بھری نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل کرنے کے درپے ہیں۔ اللہ کے دو نبیوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں۔ محبوب اور محب میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں، سکھ کی جانوں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ پھول سے نازک بے زبان بچے کو اس کے مشفق مہربان بوڑھے باپ کی نرم و گرم گودی سے الگ کرتے ہیں۔ اللہ انہیں بخشے آہ شیطان نے کیسی الٹی پڑھائی ہے۔ اور انہوں نے بھی کیسی بدی پر کمر باندھی ہے۔