لَقَدۡ کَانَ فِیۡ یُوۡسُفَ وَ اِخۡوَتِہٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآئِلِیۡنَ ﴿۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بلاشبہ یقینا یوسف اور اس کے بھائیوں میں سوال کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں تھیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ہاں یوسف اور ان کے بھائیوں (کے قصے) میں پوچھنے والوں کے لیے (بہت سی) نشانیاں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں دریافت کرنے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 7) ➊ {لَقَدْ كَانَ فِيْ يُوْسُفَ …:} یہاں سے یوسف علیہ السلام کے قصے کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ {” اٰيٰتٌ “ ” آيَةٌ “} کی جمع ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ عبرتیں، نصیحتیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں جو اس واقعہ میں ذکر ہوئی ہیں، چونکہ وہ بہت سی ہیں اور بہت سے لوگوں سے متعلق ہیں، مثلاً ایک طرف بھائیوں کی نفرت، حسد، بدگمانی، اس زمانے کے لوگوں کے حالات، آزاد لوگوں کو غلام بنا لینا، ان کا اندازِ حکومت، ان کے قوانین، شیطان کا بہکانا، اپنوں کے ظلم، پیاروں سے جدائی، بے وطنی، غلامی کے صدمے، حسن کی وجہ سے آنے والی آزمائشیں، عزیز کی بیوی کے عشق کی شورش اور طغیانی اور یوسف علیہ السلام کی عفت کا امتحان، پھر قید خانے کی آزمائش ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کا اپنے کام پر غالب ہونے کا مظاہرہ ہے، یوسف علیہ السلام کا تمام دشمنوں، حاسدوں اور مخالفوں کی خواہش کے برعکس اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ کمالات علم و حکمت، اخلاص نیت، حسن عمل اور صبر و تقویٰ کی بدولت جیل اور غلامی سے نکل کر قرب شاہی اور حکومت کے وسیع اختیارات کا حصول ہے۔ جابر و ظالم بھائیوں کی ان کے سامنے بے بسی اور ان سے صدقے کے سوال پر مجبور ہونا ہے۔ پھر اس سارے عرصے میں یوسف علیہ السلام کا ہر زیادتی کرنے والے سے انتقام کے بجائے حسن سلوک، بے مثال صبر اورعفو و درگزر ہے اور آخر میں یوسف علیہ السلام کے خواب گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کے ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تعبیر کا ظہور ہے اور اس تمام عظمت و رفعت کے باوجود یوسف علیہ السلام کا آخرت کی فکر میں اللہ تعالیٰ سے اسلام پر موت اور صالحین کے ساتھ ملانے کی دعا ہے۔ غرض ایک ایک بات اپنے اندر بہت سی نشانیاں اور عبرتیں رکھتی ہے۔
➋ { لِلسَّآىِٕلِيْنَ:} یہ سوال کرنے والے کون تھے، اشرف الحواشی میں ہے: ”منقول ہے کہ قریش نے یہود کے اشارے پر امتحان کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے، حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی؟ اس پر یہ سورت اتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والوں کے لیے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ انھوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کار اسی کے محتاج ہوئے، اسی طرح یہود حسد کر رہے ہیں اور قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا تو آخر کار آپ ہی کا عروج ہوا۔ (موضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں (اور مکہ میں یہود تھے بھی نہیں، نہ اہل مکہ کا ان سے خاص رابطہ تھا) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایسی کسی روایت کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایات بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (مگر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول یہ روایت بھی منقطع ہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرنے والے راوی عمرو بن قیس نے انھیں پایا ہی نہیں۔ دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) بہر حال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ ہیں اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو یوسف علیہ السلام کے قصے میں پائی جاتی ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب معالم نے ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔“ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ اہلِ عرب کی بلاغت کا یہ ایک اسلوب ہے کہ وہ متوجہ کرنے کے لیے سائل کا ذکر کرتے ہیں۔ مراد اس بات کو سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے، جیساکہ فرمایا: «{ وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بٰرَكَ فِيْهَا وَ قَدَّرَ فِيْهَاۤ اَقْوَاتَهَا فِيْۤ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ }» [حٰمٓ السجدۃ: ۱۰] ”اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں، چار دن میں، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔“ اور جیسا کہ سموئل نے کہا:
{سَلِيْ إِنْ جَهِلْتِ النَّاسَ عَنَّا وَ عَنْهُمْ
فَلَيْسَ سَوَاءً عَالِمٌ وَ جَهُوْلُ}
”اے مخاطبہ! اگر تجھے معلوم نہیں تو لوگوں سے ہمارے اور ان کے متعلق سوال کر لے، کیونکہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوتے۔ “
اور انیف بن زبان نے کہا ہے:
{فَلَمَّا الْتَقَيْنَا بَيَّنَ السَّيْفُ بَيْنَنَا
لِسَائِلَةٍ عَنَّا حَفِيٍّ سُؤَالُهَا }
”تو جب ہم آپس میں مقابل ہوئے تو تلوار نے ہمارے درمیان واضح فیصلہ کر دیا، اس سوال کرنے والی کے لیے جس کا سوال بہت اصرار کے ساتھ تھا۔“
عرب شاعر عموماً سوال کرنے والی عورتوں کا ذکر کرتے ہیں، یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے یہ انداز بدل کر سوال کرنے والیوں کے بجائے مردوں کو سوال کرنے والے قرار دے کر جواب دیا۔ ({التحرير والتنوير})
➋ { لِلسَّآىِٕلِيْنَ:} یہ سوال کرنے والے کون تھے، اشرف الحواشی میں ہے: ”منقول ہے کہ قریش نے یہود کے اشارے پر امتحان کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے، حتیٰ کہ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی؟ اس پر یہ سورت اتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والوں کے لیے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ انھوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کار اسی کے محتاج ہوئے، اسی طرح یہود حسد کر رہے ہیں اور قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا تو آخر کار آپ ہی کا عروج ہوا۔ (موضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں (اور مکہ میں یہود تھے بھی نہیں، نہ اہل مکہ کا ان سے خاص رابطہ تھا) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایسی کسی روایت کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایات بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (مگر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول یہ روایت بھی منقطع ہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرنے والے راوی عمرو بن قیس نے انھیں پایا ہی نہیں۔ دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) بہر حال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ ہیں اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو یوسف علیہ السلام کے قصے میں پائی جاتی ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب معالم نے ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔“ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ اہلِ عرب کی بلاغت کا یہ ایک اسلوب ہے کہ وہ متوجہ کرنے کے لیے سائل کا ذکر کرتے ہیں۔ مراد اس بات کو سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے، جیساکہ فرمایا: «{ وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بٰرَكَ فِيْهَا وَ قَدَّرَ فِيْهَاۤ اَقْوَاتَهَا فِيْۤ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ }» [حٰمٓ السجدۃ: ۱۰] ”اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں، چار دن میں، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔“ اور جیسا کہ سموئل نے کہا:
{سَلِيْ إِنْ جَهِلْتِ النَّاسَ عَنَّا وَ عَنْهُمْ
فَلَيْسَ سَوَاءً عَالِمٌ وَ جَهُوْلُ}
”اے مخاطبہ! اگر تجھے معلوم نہیں تو لوگوں سے ہمارے اور ان کے متعلق سوال کر لے، کیونکہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوتے۔ “
اور انیف بن زبان نے کہا ہے:
{فَلَمَّا الْتَقَيْنَا بَيَّنَ السَّيْفُ بَيْنَنَا
لِسَائِلَةٍ عَنَّا حَفِيٍّ سُؤَالُهَا }
”تو جب ہم آپس میں مقابل ہوئے تو تلوار نے ہمارے درمیان واضح فیصلہ کر دیا، اس سوال کرنے والی کے لیے جس کا سوال بہت اصرار کے ساتھ تھا۔“
عرب شاعر عموماً سوال کرنے والی عورتوں کا ذکر کرتے ہیں، یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس نے یہ انداز بدل کر سوال کرنے والیوں کے بجائے مردوں کو سوال کرنے والے قرار دے کر جواب دیا۔ ({التحرير والتنوير})
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
7۔ 1 یعنی اس قصے میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور نبی کریم کی نبوت کی صداقت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ بعض مفسرین نے یہاں ان بھائیوں کے نام اور ان کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
7۔ حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لئے بہت سے نشان عبرت [6] ہیں
[6] قصہ یوسف اور سائلین یعنی کفار مکہ کے حالات میں مماثلت کی وجوہ:۔
یہ پوچھنے والے کفار مکہ تھے انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے جواب میں جو سیدنا یوسفؑ اور ان کے بھائیوں کے حالات زندگی آئے ہیں وہ خود انھیں کے حالات پر منطبق ہونے والے ہیں کفار مکہ اور برادران یوسف کے تقابلی مطالعہ میں جو عبرت کی نشانیاں یا وجوہ مماثلت پائی جاتی ہیں ان کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
یوسف علیہ السلام کے خاندان کا تعارف ٭٭
فی الواقع یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات اس قابل ہیں کہ ان کا دریافت کرنے والا ان سے بہت سی عبرتیں حاصل کر سکے اور نصیحتیں لے سکے۔ یوسف علیہ السلام کے ایک ہی ماں سے دوسرے بھائی بنیامین علیہ السلام تھے باقی سب بھائی دوسری ماں سے تھے۔ یہ سب آپس میں کہتے ہیں ہے کہ واللہ ابا جان ہم سے زیادہ ان دونوں کو چاہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ہم پر جو جماعت ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں جو صرف دو ہیں۔ یقیناً یہ تو والد صاحب کی صریح غلطی ہے۔ یہ یاد رہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی نبوت پر در اصل کوئی دلیل نہیں اور آیت کا طرز بیان تو بالکل اس کے خلاف پر ہے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں نبوت ملی لیکن یہ چیز بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل میں آیت قرآنی «قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ» [2-البقرہ: 136] میں سے لفظ «أَسْبَاطِ» پیش کرنا بھی احتمال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ بطون بنی اسرائیل کو اسباط کہا جاتا ہے جیسے کہ عرب کو قبائل کہا جاتا ہے اور عجم کو شعوب کہا جاتا ہے۔ پس آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے اسباط پر وحی الٰہی نازل ہو گئی انہیں اس لیے اجمالاً ذکر کیا گیا کہ یہ بہت تھے لیکن ہر سبط برادران یوسف علیہ السلام میں سے ایک کی نسل تھی۔ پس اس کی کوئی دلیل نہیں کہ خاص ان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا تھا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ پھر آپس میں کہتے ہیں ایک کام کرو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یوسف «علیہ السلام» کا پاپ ہی کاٹو۔ نہ یہ ہو نہ ہماری راہ کا کانٹا بنے۔ ہم ہی ہم نظر آئیں۔ اور ابا کی محبت صرف ہمارے ہی ساتھ رہے۔ اب اسے باپ سے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں یا تو اسے مار ہی ڈالو۔
کہیں ایسی دور دوراز جگہ پھینک آؤ کہ ایک کی دوسرے کو خبر ہی نہ ہو۔ اور یہ واردات کر کے پھر نیک بن جانا توبہ کر لینا اللہ معاف کرنے والا ہے یہ سن کر ایک نے مشورہ دیا جو سب سے بڑا تھا اس کا نام روبیل تھا۔ کوئی کہتا ہے یہودا تھا کوئی کہتا ہے شمعون تھا۔ اس نے کہا بھئی یہ تو ناانصافی ہے۔ بے وجہ، بے قصور صرف عداوت میں آ کر خون ناحق گردن پر لینا تو ٹھیک نہیں۔ یہ بھی کچھ اللہ کی حکمت تھی رب کو منظور ہی نہ تھا ان میں قتل یوسف علیہ السلام کی قوت ہی نہ تھی۔ منظور رب تو یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کو نبی بنائے، بادشاہ بنائے اور انہیں عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا کرے۔ پس ان کے دل روبیل کی رائے سے نرم ہو گئے اور طے ہوا کہ اسے کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں پھینک دیں۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بیت المقدس کا کنواں تھا انہیں یہ خیال ہوا کہ ممکن ہے مسافر وہاں سے گزریں اور وہ اسے اپنے قافلے میں لے جائیں پھر کہاں یہ اور کہاں ہم؟ جب گڑ دیئے کام نکلتا ہو تو زہر کیوں دو؟ بغیر قتل کئے مقصود حاصل ہوتا ہے تو کیوں ہاتھ خون سے آلود کرو۔ ان کے گناہ کا تصور تو کرو۔ یہ رشتے داری کے توڑنے، باپ کی نافرمانی کرنے، چھوٹے پر ظلم کرنے، بےگناہ کو نقصان پہنچانے بڑے بوڑھے کو ستانے اور حقدار کا حق کاٹنے حرمت و فضیلت کا خلاف کرنے بزرگی کو ٹالنے اور اپنے باپ کو دکھ پہنچانے اور اسے اس کے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سکھ سے ہمیشہ کے لیے دور کرنے اور بوڑھے باپ، اللہ کے لاڈلے پیغمبر کو اس بڑھاپے میں ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے اور اس بےسمجھ بچے کو اپنے مہربان باپ کی پیار بھری نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل کرنے کے درپے ہیں۔ اللہ کے دو نبیوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں۔ محبوب اور محب میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں، سکھ کی جانوں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ پھول سے نازک بے زبان بچے کو اس کے مشفق مہربان بوڑھے باپ کی نرم و گرم گودی سے الگ کرتے ہیں۔ اللہ انہیں بخشے آہ شیطان نے کیسی الٹی پڑھائی ہے۔ اور انہوں نے بھی کیسی بدی پر کمر باندھی ہے۔