وَ کَذٰلِکَ یَجۡتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ وَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اٰلِ یَعۡقُوۡبَ کَمَاۤ اَتَمَّہَا عَلٰۤی اَبَوَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ٪﴿۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اسی طرح تیرا رب تجھے چنے گا اور تجھے باتوں کی اصل حقیقت سمجھنے میں سے کچھ سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھ پر اور آل یعقوب پر پوری کرے گا، جیسے اس نے اس سے پہلے وہ تیرے دونوں باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی۔ بے شک تیرا رب سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ (وممتاز) کرے گا اور (خواب کی) باتوں کی تعبیر کا علم سکھائے گا۔ اور جس طرح اس نے اپنی نعمت پہلے تمہارے دادا، پردادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی اسی طرح تم پر اور اولاد یعقوب پر پوری کرے گا۔ بےشک تمہارا پروردگار (سب کچھ) جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اسی طرح تجھے تیرا پروردگار برگزیده کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) بھی سکھائے گا اور اپنی نعمت تجھے بھرپور عطا فرمائے گا اور یعقوب کے گھر والوں کو بھی، جیسے کہ اس نے اس سے پہلے تیرے دادا اور پردادا یعنی ابراہیم واسحاق کو بھی بھرپور اپنی نعمت دی، یقیناً تیرا رب بہت بڑے علم واﻻ اور زبردست حکمت واﻻ ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 6) ➊ { وَ كَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ: ”يَجْتَبِيْ“ ”جَبَي يَجْبِيْ“ } (ض) کے باب افتعال{ ” اِجْتِبَاءٌ“} کا فعل مضارع ہے، جس کا معنی جمع کرنا، کسی خوبی کی بنا پر چن لینا ہے۔ راغب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کے {”اِجْتِبَاءٌ“} (چن لینے) سے مراد اسے اپنے ایسے فیض کے ساتھ خاص کر لینا ہے جس سے اس کو اپنی کسی کوشش کے بغیر مختلف قسم کی نعمتیں حاصل ہو جائیں، یہ چیز انبیاء کو حاصل ہوتی ہے یا انھیں جو ان کے قریب ہوں، مثلاً صدیقین، شہداء۔ (مفردات) بے شک اعلیٰ درجے کا اجتباء انبیاء، صدیقین اور شہداء کو حاصل ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے چننے کے بھی کئی درجے ہیں، جیسا کہ آپ اپنے متعلق سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس طرح چنا کہ پتھر یا نباتات یا جانوروں کے بجائے انسان بنایا، پھر کافر نہیں بلکہ مسلمان بنایا، پھر کبیرہ گناہوں سے بچایا، پھر مشرک کلمہ گو کے بجائے موحد اور بدعتی کے بجائے متبع سنت بنایا، اگر علم کتاب کی نعمت بھی حاصل ہے تو آپ ان لوگوں میں جا ملے جن کے متعلق فرمایا: «{ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا }» [فاطر: ۳۲] ”پھر اس کتاب کے وارث ہم نے وہ لوگ بنائے جنھیں ہم نے چن لیا۔“ اگر دعوت الی اللہ کی توفیق مل گئی تو مزید فیض مل گیا۔ غرض اصطفاء اور اجتباء کے کئی درجے ہیں اور جتنا حصہ مل جائے اس پر اللہ کا بے حد شکر ادا کرنا چاہیے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ }» [الأعراف: ۴۳] ”(جنتی کہیں گے) اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی۔“ یا اللہ! تو اپنے فضل سے ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو جنت میں داخل ہو کر ان الفاظ میں تیرا شکر ادا کریں گے۔ (آمین)
➋ اس آیت میں {” وَ كَذٰلِكَ “} (اور اسی طرح) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھے یہ خواب دکھلایا، اور کسی کو اس طرح کا خواب نہیں دکھایا، اسی طرح تیرا رب تجھے چنے گا اور تجھے…۔ چننے سے مراد اعلیٰ درجے کا چننا ہے، جیسا کہ اوپر امام راغب سے نقل ہوا، یعنی نبوت و صدیقیت سے نوازے گا اور گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اعلیٰ مقام پر پہنچا کر تمھیں اپنے عہد کے سب بندوں پر فوقیت بخشے گا۔
➌ {وَ يُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ: ” الْاَحَادِيْثِ “ ”حَدِيْثٌ“} کی جمع ہے جس کا معنی بات ہے۔ {” تَاْوِيْلِ “} کا معنی بات کا صحیح مطلب سمجھنا اور اس کی تہ تک پہنچنا ہے، کیونکہ {” تَاْوِيْلِ “ ”أَوْلٌ“} سے مشتق ہے، جس کا معنی لوٹنا ہے اور تاویل کا معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقصد کی طرف لوٹانا ہے، یعنی جو اس سے مراد ہے۔ یہاں {” تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ “ } سے مراد بات سمجھنے کی تیز بصیرت اور کمال فہم کے ساتھ خوابوں کی تعبیر بھی ہے۔
➍ {وَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَ عَلٰۤى اٰلِ يَعْقُوْبَ …:} تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا جیسے اس سے پہلے تمھارے (دو باپوں) دادا اور پردادا پر پوری کی، یعنی تمھیں نبوت و رسالت اور حکومت عطا فرمائے گا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”({اَبَوَيْكَ} یعنی تیرے دونوں باپوں پر) ابراہیم اور اسحاق علیھما السلام کا نام لیا، اپنا نہ لیا عاجزی سے۔“ (موضح) آل یعقوب پر نعمت تمام کرنے کا مطلب وہ تمام نعمتیں ہیں جو بنی اسرائیل پر ہوئیں اور جن کا ذکر تفصیل سے قرآن مجید میں موجود ہے۔
➎ {اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ:} کہ اس کے بندوں میں سے کون سرفرازی کے لائق ہے۔
➋ اس آیت میں {” وَ كَذٰلِكَ “} (اور اسی طرح) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھے یہ خواب دکھلایا، اور کسی کو اس طرح کا خواب نہیں دکھایا، اسی طرح تیرا رب تجھے چنے گا اور تجھے…۔ چننے سے مراد اعلیٰ درجے کا چننا ہے، جیسا کہ اوپر امام راغب سے نقل ہوا، یعنی نبوت و صدیقیت سے نوازے گا اور گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اعلیٰ مقام پر پہنچا کر تمھیں اپنے عہد کے سب بندوں پر فوقیت بخشے گا۔
➌ {وَ يُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ: ” الْاَحَادِيْثِ “ ”حَدِيْثٌ“} کی جمع ہے جس کا معنی بات ہے۔ {” تَاْوِيْلِ “} کا معنی بات کا صحیح مطلب سمجھنا اور اس کی تہ تک پہنچنا ہے، کیونکہ {” تَاْوِيْلِ “ ”أَوْلٌ“} سے مشتق ہے، جس کا معنی لوٹنا ہے اور تاویل کا معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقصد کی طرف لوٹانا ہے، یعنی جو اس سے مراد ہے۔ یہاں {” تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ “ } سے مراد بات سمجھنے کی تیز بصیرت اور کمال فہم کے ساتھ خوابوں کی تعبیر بھی ہے۔
➍ {وَ يُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَ عَلٰۤى اٰلِ يَعْقُوْبَ …:} تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا جیسے اس سے پہلے تمھارے (دو باپوں) دادا اور پردادا پر پوری کی، یعنی تمھیں نبوت و رسالت اور حکومت عطا فرمائے گا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”({اَبَوَيْكَ} یعنی تیرے دونوں باپوں پر) ابراہیم اور اسحاق علیھما السلام کا نام لیا، اپنا نہ لیا عاجزی سے۔“ (موضح) آل یعقوب پر نعمت تمام کرنے کا مطلب وہ تمام نعمتیں ہیں جو بنی اسرائیل پر ہوئیں اور جن کا ذکر تفصیل سے قرآن مجید میں موجود ہے۔
➎ {اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ:} کہ اس کے بندوں میں سے کون سرفرازی کے لائق ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
6۔ 1 یعنی جس طرح تجھے تیرے رب نے نہایت عظمت والا خواب دکھانے کے لئے چن لیا، اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدگی بھی عطا کرے گا اور خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث کے اصل معنی باتوں کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ یہاں خواب کی تعبیر مراد ہے۔ 6۔ 2 اس سے مراد نبوت ہے جو یوسف ؑ کو عطا کی گئی۔ یا وہ انعامات ہیں جن سے مصر میں یوسف ؑ نوازے گئے۔ 6۔ 3 اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے بھائی، ان کی اولاد وغیرہ ہیں، جو بعد میں انعامات الٰہی کے مستحق بنے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
6۔ اس طرح (اس خواب کے مطابق) تمہارا پروردگار تجھے (دین کے لئے) منتخب کرے [5] گا، تمہیں باتوں کا مال (انجام) سکھائے گا اور تم پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جیسے وہ اس سے پہلے تمہارے دو باپوں ابراہیم اور اسحاق پر پوری کر چکا ہے۔ بلا شبہ تمہارا پروردگار سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے“
[5] سیدنا یوسفؑ کے خواب کے واضح نتائج:۔
اس خواب سے سیدنا یعقوبؑ نے خود جو نتائج نکالے اور سیدنا یوسف کو بتائے وہ یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ سیدنا یوسفؑ سے اپنے دین کی خدمت کا کام لے گا اور انھیں تاویل الاحادیث سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث سے مراد صرف خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ ہر بات کے موقع و محل کو سمجھنا معاملات کے نتائج کو فوراً پرکھ لینا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے مضامین کی تہ تک پہنچ جانا وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور تیسرے یہ کہ اللہ انھیں اس نعمت نبوت سے فیض یاب فرمائے گا جو ان کے دو باپوں سیدنا اسحاقؑ اور سیدنا ابراہیمؑ کو عطا کر چکا ہے۔ اس مقام پر سیدنا یعقوبؑ نے از راہ تواضع اور انکساری اپنا نام لینا مناسب نہ سمجھا ورنہ آپ خود بھی جلیل القدر نبی تھے اور آپ کی اولاد میں ہی آئندہ سلسلہ نبوت جاری رہا۔ ماسوائے نبی آخر الزمان کے جو سیدنا اسماعیلؑ کی اولاد سے تھے۔ اسی حقیقت پر درج ذیل حدیث سے روشنی پڑتی ہے:
سیدنا یوسفؑ سب سے مکرم:۔
سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ مکرم کون ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو سب سے زیادہ متقی ہے“ انہوں نے کہا کہ ”ہم یہ نہیں پوچھتے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوسفؑ اللہ کے نبی، اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے، اللہ کے نبی کے پڑپوتے، سب سے زیادہ مکرم ہیں۔“ [بخاري، كتاب الانبياء باب قول الله تعاليٰ: ﴿واتخذ الله ابراهيم خليلا ﴾]
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
بشارت اور نصیحت ٭٭
حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے لخت جگر یوسف علیہ السلام کو انہیں ملنے والے مرتبوں کی خبر دیتے ہیں کہ جس طرح خواب میں اس نے تمہیں یہ فضیلت دکھائی اسی طرح وہ تمہیں نبوت کا بلند مرتبہ عطا فرمائے گا۔ اور تمہیں خواب کی تعبیر سکھا دے گا۔ اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دے گا یعنی نبوت۔ جیسے کہ اس سے پہلے وہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو اور اسحاق علیہ السلام کو بھی عطا فرما چکا ہے جو تمہارے دادا اور پردادا تھے۔ اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے کہ نبوت کے لائق کون ہے؟