اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ! بے شک میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے انھیں دیکھا کہ مجھے سجدہ کرنے والے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ ابا میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے۔ دیکھتا (کیا) ہوں کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیاره ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وه سب مجھے سجده کر رہے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 4) ➊ {اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ:} یوسف علیہ السلام کے باپ یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیھم السلام تھے اور یہ چاروں نبی تھے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوسف علیہ السلام کے متعلق فرمایا: [اَلْكَرِيْمُ ابْنُ الْكَرِيْمِ ابْنِ الْكَرِيْمِ بْنِ الْكَرِيْمِ يُوْسُفُ بْنُ يَعْقُوْبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيْمَ] [بخاری، التفسیر، باب قولہ: «ویتم نعمتہ علیک…» : ۴۶۸۸، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما] ”کریم بن کریم بن کریم بن کریم، یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیھم السلام ہیں۔“
➋ { يٰۤاَبَتِ:} یہ اصل میں{ ”يَا أَبِيْ“ } تھا ”اے میرے باپ!“ یاء حذف کرکے اس کی جگہ تائے تانیث لائی گئی اور باء کا کسرہ اس کی طرف منتقل کر دیا۔ یہ اظہار محبت کا ایک طریقہ ہے، جیسے اردو میں ”ابا“ کو ”ابو“ کہہ دیتے ہیں۔
➋ { يٰۤاَبَتِ:} یہ اصل میں{ ”يَا أَبِيْ“ } تھا ”اے میرے باپ!“ یاء حذف کرکے اس کی جگہ تائے تانیث لائی گئی اور باء کا کسرہ اس کی طرف منتقل کر دیا۔ یہ اظہار محبت کا ایک طریقہ ہے، جیسے اردو میں ”ابا“ کو ”ابو“ کہہ دیتے ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
4۔ 1 یعنی اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے سامنے یوسف ؑ کا قصہ بیان کرو، جب اس نے اپنے باپ کو کہا باپ حضرت یعقوب ؑ تھے، جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے اور حدیث میں بھی یہ نسب بیان کیا گیا ہے۔ (یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم)۔ اور حدیث میں نسب بیان کیا گیا ہے۔ الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (مسند احمد جلد 2، ص 96) 4۔ 2 بعض مفسرین نے کہا ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف ؑ کے بھائی ہیں جو گیارہ تھے چاند سورج سے مراد ماں اور باپ ہیں اور خواب کی تعبیر چالیس یا اسی سال کے بعد اس وقت سامنے آئی جب یہ سارے بھائی اپنے والدین سمیت مصر گئے اور وہاں حضرت یوسف ؑ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، جیسا کہ یہ تفصیل سورت کے آخر میں آئے گی۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
4۔ جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا تھا: ”ابا جان! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ”گیارہ ستارے [3] اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں“
[3] سیدنا یوسفؑ سے ان کے باپ کی محبت کی وجوہ:۔
سیدنا یوسفؑ کے حقیقی بھائی صرف بن یمین تھے جو آپ سے چھوٹے تھے۔ باقی دس بھائی سوتیلے تھے۔ اور ان سے بڑے تھے۔ سیدنا یوسفؑ سے ان کے والد سیدنا یعقوبؑ کو والہانہ محبت تھی۔ جس کی وجوہ کئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ والدین کو عموماً چھوٹی اولاد سے نسبتاً زیادہ پیار ہوتا ہے۔ دوسرے ان دو بھائیوں کی والدہ فوت ہو چکی تھیں۔ تیسرے سیدنا یوسفؑ بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے اور چوتھے یہ کہ آپؑ سب بھائیوں کی نسبت نیک سیرت تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر آپ اپنے والد کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ جس سے بڑے بھائی ان سے حسد کرنے لگے تھے۔ کم سنی کی عمر میں ہی آپؑ کو ایک خواب آیا اور آپ نے اپنے والد کو بتایا تو انھیں اس خواب میں بیٹے کا روشن مستقبل نظر آگیا کیونکہ خواب بڑا واضح تھا جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی تھے۔ سورج سے مراد سیدنا یوسفؑ کے والد سیدنا یعقوبؑ اور چاند سے مراد ان کی سوتیلی والدہ تھی۔
سجدہ تعظیمی؟
رہی یہ بات کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا تو شرک ہے پھر باپ نے جو نبی تھے اور بیٹے نے جو نبی ہونے والے تھے۔ اس بات کو درست کیسے تسلیم کر لیا تو اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے یہ سجدہ تعظیمی ہے جو پہلی شریعتوں میں تو جائز تھا۔ مگر ہماری شریعت محمدیہ میں ایسا تعظیمی سجدہ بھی حرام قرار دیا گیا ہے اور بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ سے مراد اصطلاحی سجدہ نہیں جو نماز میں ادا کیا جاتا ہے بلکہ سجدہ سے مراد محض جھک جانا ہے اور یہی اس کا لغوی معنی ہے۔ مگر اسی سورۃ کے آخر میں ﴿خَرُّوْا لِلّٰهِ سُجَّدًا﴾ کے الفاظ آئے ہیں اور لفظ ﴿خَرُّوْا﴾ سے پہلے قول کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
بہترین قصہ یوسف علیہ السلام ٭٭
حضرت یوسف علیہ السلام کے والد یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہ ہم السلام ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ“ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ [صحیح بخاری:3390] نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب لوگوں میں زیادہ بزرگ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے دل میں اللہ کا ڈر سب سے زیادہ ہو۔ انہوں نے کہا ہمارا مقصود ایسا عام جواب نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سب لوگوں میں زیادہ بزرگ یوسف علیہ السلام ہیں جو خود نبی تھے، جن کے والد نبی تھے جن کے دادا نبی تھے، جن کے پردادا نبی اور خلیل تھے۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا تم عرب کے قبیلوں کی نسبت یہ سوال کرتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو جاہلیت کے زمانے میں جو ممتاز اور شریف تھے۔ وہ اسلام لانے کے بعد بھی ویسے ہی شریف ہیں، جب کہ انہوں نے دینی سمجھ حاصل کر لی ہو [صحیح بخاری:3374]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبیوں کے خواب اللہ کی وحی ہوتے ہیں۔ مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں گیارہ ستاروں سے مراد یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج چاند سے مراد آپ کے والد اور والدہ ہیں۔ اس خواب کی تعبیر خواب دیکھنے کے چالیس سال بعد ظاہر ہوئی۔ بعض کہتے ہیں اسی برس کے بعد ظاہر ہوئی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبیوں کے خواب اللہ کی وحی ہوتے ہیں۔ مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں گیارہ ستاروں سے مراد یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج چاند سے مراد آپ کے والد اور والدہ ہیں۔ اس خواب کی تعبیر خواب دیکھنے کے چالیس سال بعد ظاہر ہوئی۔ بعض کہتے ہیں اسی برس کے بعد ظاہر ہوئی۔
آیت میں ہے «وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَا أَبَتِ هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا» [12-یوسف: 100] جب کہ آپ نے اپنے ماں باپ کو تخت شاہی پر بٹھایا۔ اور گیارہ بھائی آپ کے سامنے سجدے میں گر پڑے۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے مہربان باپ یہ دیکھئیے آج اللہ تعالیٰ نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ایک روایت میں ہے کہ بستانہ نامی یہودیوں کا ایک زبردست عالم تھا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان گیارہ ستاروں کے نام دریافت کئے۔ آپ خاموش رہے۔ جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہو کر آپ کو نام بتائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا اور فرمایا اگر میں تجھے ان کے نام بتا دوں تو تو مسلمان ہو جائے گا اس نے اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سن ان کے نام یہ ہیں۔ جریان، طارق۔ ذیال، ذوالکتفین۔ قابل۔ وثاب۔ عمودان۔ فلیق۔ مصبح۔ فروح۔ فرغ۔ یہودی نے کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم ان ستاروں کے یہی نام ہیں [مسند بزار،2220:ضعیف جدا] یہ روایت دلائل بیہقی میں اور ابو یعلیٰ بزار اور ابن ابی حاتم میں بھی ہے۔ ابو یعلیٰ میں یہ بھی ہے کہ یوسف علیہ السلام نے جب یہ خواب اپنے والد صاحب سے بیان کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا”یہ سچا خواب ہے یہ پورا ہو کر رہے گا۔“ آپ فرماتے ہیں سورج سے مراد باپ ہیں اور چاند سے مراد ماں ہیں۔ لیکن اس روایت کی سند میں حکم بن ظہیر فزاری منفرد ہیں جنہیں بعض اماموں نے ضعیف کہا ہے اور اکثر نے انہیں متروک کر رکھا ہے یہی حسن یوسف کی روایت کے راوی ہیں۔ انہیں چاروں ہی ضعیف کہتے ہیں۔