ترجمہ و تفسیر — سورۃ يوسف (12) — آیت 3
نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ٭ۖ وَ اِنۡ کُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ہم تجھے سب سے اچھا بیان سناتے ہیں، اس واسطے سے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن وحی کیا ہے اور بے شک تو اس سے پہلے یقینا بے خبروں سے تھا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے پیغمبر) ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں اور تم اس سے پہلے بےخبر تھے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 3) ➊ { نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ: الْقَصَصِ قَصَّ يَقُصُّ} کا مصدر ہے، قصہ کی جمع نہیں۔ (دیکھیے {جواب اهل العلم}، ص: ۱ تا ۲۰) قصہ کی جمع قصص قاف کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ فرمایا: «{ نَحْنُ نَقُصُّ ہم بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جہاں اپنے لیے جمع کا صیغہ لاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام ایک الگ صفت کا تقاضا کرتا ہے، مثلاً بیان کرنا صفت کلام کا تقاضا کرتا ہے، زمین و آسمان بنانا صفت خلق کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی ہے ہی نہیں جس میں تمام صفات کمال موجود ہوں اور وہ اپنے آپ کو ہم کہنے کا صحیح حق رکھتا ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنی اس حیثیت کااظہار کرتے ہوئے اپنے لیے ہم کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جہاں وہ واحد کا لفظ استعمال کریں، مثلاً: «{ اِنَّنِيْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا [طٰہٰ: ۱۴] وہ اپنی توحید کے اظہار کے لیے ہوتا ہے، کیونکہ اسی کی ذات واحد، احد، لا شریک لہ ہے۔ اس سورت میں چونکہ اللہ کے اپنی مرضی کے ہر کام پر غالب ہونے کا اظہار کرنے والی بہت سی صفات مذکور ہیں، اس لیے { نَحْنُ } (ہم) سے بات شروع کی ہے۔
➋ {بِمَاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ:} یعنی یہ قرآن وحی کرنے کے ذریعے سے ہم تجھے سب سے اچھا بیان سناتے ہیں۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ سورۂ یوسف قرآن کی تمام سورتوں سے احسن ہے، بلکہ قرآن سارا ہی احسن القصص، یعنی تمام بیانوں سے بہتر بیان ہے، جس میں یہ سورت بھی شامل ہے۔
➌ { وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ:} یہ { اِنْ } دراصل {اِنَّكَ} تھا، تخفیف کے لیے کاف کو حذف کر دیا اور {اِنَّ} کو { اِنْ } کر دیا۔ اس کی دلیل { لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ } پر آنے والا لام ہے اور یہ عربی کا مسلمہ قاعدہ ہے، اسی کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔ { اِنْ } اور لام کے ساتھ تاکید اس لیے کی ہے کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ آپ یہ سب کچھ پہلے ہی جانتے تھے، جیسا کہ ہمارے کئی نادان بھائی کہتے ہیں، بلکہ دوسری جگہ فرمایا: «{ تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَاۤ اِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا [ھود: ۴۹] یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔
➍ { لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ:} یعنی آپ کو اس سے پہلے اس کی کچھ خبر نہ تھی، آپ اُمّی تھے، نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا۔ ایسے شخص پر ایسی بے مثال کتاب کا نزول کہ بڑے بڑے باخبر لوگ اس اُمّی کے شاگرد بن جائیں اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے اور آپ کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے، جتنی وحی ہوتی وہ معلوم ہو جاتا، باقی خبر عالم الغیب کے پاس رہتی جو کسی کے بتائے بغیر سب کچھ جاننے والا ہے، عالم الغیب کہتے ہی ایسی ہستی کو ہیں اور وہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

3۔ 1 قصص، یہ مصدر ہے معنی ہیں کسی چیز کے پیچھے لگنا مطلب دلچسپ واقعہ ہے قصہ، محض کہانی یا طبع زاد افسانے کو نہیں کہا جاتا بلکہ ماضی میں گزر جانے والے واقعے کے بیان کو قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ گویا ماضی کا واقعی اور حقیقی بیان ہے اور اس واقع میں حسد وعناد کا انجام، تائید الٰہی کی کرشمہ سازیاں، نفس امارہ کی شورشیں اور سرکشیوں کا نتیجہ اور دیگر انسانی عوارض و حوارث کا نہایت دلچسپ بیان اور عبرت انگیز پہلو ہیں، اس لئے اس قرآن نے احسن القصص (بہترین بیان) سے تعبیر کیا ہے۔ 3۔ 2 قرآن کریم کے ان الفاظ سے بھی واضح ہے نبی کریم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیخبر قرار نہ دیتا، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ پر وحی کے ذریعے سے ہی سچا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ نہ کسی کے شاگرد تھے، کہ کسی استاد سے سیکھ کر بیان فرما دیتے، نہ کسی اور سے ہی ایسا تعلق تھا کہ جس سے سن کر تاریخ کا یہ واقعہ اپنے اہم جزئیات کے ساتھ آپ نشر کردیتے۔ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی نے وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل فرمایا ہے جیسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

3۔ (اے نبی)! ہم اس قرآن کو آپ کی طرف وحی کر کے ایک بڑا اچھا قصہ آپ سے بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ اس سے پیشتر آپ (اس سے) بے خبر [2] تھے
[2] قریش مکہ کا یہود کے کہنے پر آپﷺ سے سوال، بنی اسرائیل مصر کیسے پہنچ گئے؟
اس سورۃ کا شان نزول یہ ہے کہ کفار مکہ نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتلاؤ جو ہم اس پیغمبر سے پوچھیں اور اس سوال کا وہ جواب نہ دے سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس نبی کا سب بھرم کھل جائے گا۔ وہ جواب تو نہ دے سکے گا یا پھر مہلت مانگے گا اور دریں اثنا وہ ادھر ادھر کی کچھ معلومات مہیا کرے گا جس کا علم ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ یہود یہ تو جانتے تھے کہ یہ نبی امی ہے لہٰذا انہوں نے سوچ سمجھ کر ایک تاریخی قسم کا سوال کفار مکہ کو بتایا جو یہ تھا کہ ”سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا اسحاقؑ اور سیدنا یعقوب (اسرائیل) سب کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا۔ پھر بنی اسرائیل مصر میں کیسے جا پہنچے جنہیں اہل مصر کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سیدنا موسیٰؑ مبعوث ہوئے تھے؟“ جب کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تو اسی وقت یہ سورۃ پوری کی پوری نازل ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مسلسل یہ سورۃ ادا ہوتی گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے اس وقت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقف تھے اور نہ اہل مکہ اور اس جواب میں سیدنا یوسفؑ کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آ گئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی پائے جاتے تھے جو کفار مکہ اور برادران یوسف کے درمیان مشترک پائے جانے والے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ گویا یہ پوری سورۃ قریش مکہ کے حق میں ایک طرح کی پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ سب نشان عبرت پورے ہو کر رہے۔ مثلاً:
اس سورۃ کا شان نزول اور آپ کی نبوت کا ثبوت:۔
پہلی عبرت کی بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کر یہ ثابت کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع اللہ کے نبی ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات کا کوئی ذریعہ ممکن نہ تھا، لیکن پھر بھی یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے اور اپنی ہٹ پر قائم رہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح برادران یوسف نے اپنے بھائی کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ اس لیے کیا کہ کھٹکتے خار کو راستہ سے ہٹا کر اپنی راہ صاف کی جائے۔ بعینہ اسی غرض کے تحت کفار مکہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
قصہ یوسف اور قریش میں مماثلت کی وجوہ:۔
تیسرے یہ کہ جو تدابیر برادران یوسف نے یوسفؑ کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی تدابیر کو اللہ نے سیدنا یوسفؑ کے عروج اور سربلندی کا ذریعہ بنا دیا۔ اسی طرح بعینہ جو تدابیر کفار مکہ نے پیغمبر اسلام اور اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی سے اسلام کا عروج اور سربلندی حاصل ہوئی اور یہی تدابیر کفار مکہ اور کفر کی موت کا سبب بن گئیں۔ چوتھے یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسفؑ کو حکومت عطا فرمائی اور ان کے بھائی نادم و شرمسار ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں ﴿لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ کر معاف فرما دیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اپنے ان جانی دشمن بھائیوں کو بالکل یہی الفاظ کہہ کر معاف کر دیا۔ مزید یہ کہ انھیں جنگی قیدی بنانے کے بجائے ﴿اَنْتُمُ الطُّلَقَاء کہہ کر انھیں یہ محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ مغلوب و مفتوح قوم ہیں۔ اور اس تفصیل سے جو نہایت اہم سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ سربلند کرنا چاہے اس کے حاسد اور مخالف اسے مٹانے کی لاکھ کوششیں کریں، کارگر نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ بمصداق ”عدو شرے بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد“ اللہ انھیں تدبیروں کا رخ یوں پھیر دیتا ہے کہ وہی تدبیریں اس شخص کی سربلندی کا ذریعہ بن جایا کرتی ہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل