قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا لَکَ لَا تَاۡمَنَّا عَلٰی یُوۡسُفَ وَ اِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
انھوں نے کہا اے ہمارے باپ! تجھے کیا ہے کہ تو یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتا، حالانکہ بے شک ہم یقینا اس کے خیرخواہ ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(یہ مشورہ کر کے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ اباجان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
انہوں نے کہا ابا! آخر آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواه ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 12،11){ قَالُوْا يٰۤاَبَانَا مَا لَكَ لَا تَاْمَنَّا …:} اب یہ مرحلہ درپیش تھا کہ یوسف علیہ السلام کو ساتھ کیسے لے جائیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی کوشش کر چکے تھے، مگر والد نے اجازت نہیں دی تھی اور یہ کہ والد کو پہلے بھی ان کے متعلق اعتبار نہ تھا کہ وہ یوسف کے خیر خواہ ہیں، یا انھیں کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے۔ اس مرتبہ دس کے دس بھائیوں نے منت، خوشامد اور دھونس دھاندلی کا ہر حربہ استعمال کرکے یوسف علیہ السلام کو ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کی۔ سب سے پہلے تو نہایت ادب اور منت کے ساتھ بات کی، ابتدا دیکھیے {” يٰۤاَبَانَا “} ”اے ہمارے باپ!“ اس سے قریب تر رشتہ کون سا ہو گا جو درمیان میں لا کر درخواست کی جائے اور دل نرم نہ ہو، پھر ساتھ ہی دھونس دیکھیے ”آپ کو کیا ہے کہ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد ہی نہیں کرتے “ (گویا سارا قصور ابا جی کا ہے) ”حالانکہ بے شک ہم یقینا اس کے خیر خواہ ہیں۔“ {” اِنَّا “} کے {” اِنَّ “} اور {” لَنٰصِحُوْنَ “} کے لام کے ساتھ خیر خواہی کا یقین دلانا ملاحظہ فرمائیں، اہل عرب کے ہاں اس میں قسم کا مفہوم شامل ہوتا ہے۔ پھر یوسف کی مزید خیر خواہی کا ذکر ہوتا ہے کہ کبھی باہر جنگل میں جا کر اسے سیر و تفریح کا موقع ہی نہیں ملا۔ کل آپ اسے ہمارے ساتھ بھیجیں، جنگل کے پھل وغیرہ کھائے پیے گا، کھیلے کودے گا، خوش دل ہو گا۔ رہا جنگل اور صحرا میں وحشی جانوروں وغیرہ کا خطرہ تو اس کی فکر نہ کیجیے۔ ”بے شک“ ہم اس کی ”یقینا“ حفاظت کرنے والے ہیں۔ یہ وہی قسم کے مفہوم والے الفاظ ہیں جو انھوں نے اپنی خیر خواہی کا یقین دلاتے ہوئے کہے تھے کہ {” وَ اِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ “} اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا پیشہ جنگل میں بکریاں وغیرہ چرانا تھا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
11۔ 1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس سے قبل بھی برداران یوسف ؑ نے یوسف ؑ کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی ہوگی اور باپ نے انکار کردیا ہوگا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
11۔ (اس تجویز کے بعد) وہ اپنے باپ سے کہنے لگے: کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے [10] میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں؟
[10] بھائیوں کا باپ سے یوسف کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ:۔
اب سوال یہ تھا کہ وہ یوسفؑ کو اپنے ساتھ کیسے لے جائیں تاکہ اپنی تجویز پر عمل کر سکیں۔ سیدنا یعقوبؑ کو تو پہلے ہی معلوم تھا کہ یوسفؑ کے حق میں ان کے بھائیوں کے دل صاف نہیں ہیں۔ اس غرض کے لیے پھر انھیں جھوٹ اور مکاری سے کام لینا پڑا۔ اپنے باپ سے عرض کیا کہ آخر ہم اس کے بھائی ہی ہیں۔ آپ اسے ہمارے ساتھ آنے جانے میں تامل کیوں کرتے ہیں ہم پر اعتماد کیجئے۔ ہم کوئی اس کے دشمن تو نہیں اور بہتر یہ ہے کہ کل جب ہم اپنے ریوڑ چرانے کے لیے ریوڑ کو جنگل کی طرف لے جائیں۔ تو آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ وہاں اس کا دل بہلے گا۔ جنگل کے پھل وغیرہ کھائے گا۔ وہ کچھ ہم سے مانوس ہو گا۔ ہم اس سے مانوس ہوں گے اور اس کی پوری طرح حفاظت بھی کریں گے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
بڑے بھائی کی رائے پر اتفاق ٭٭
بڑے بھائی روبیل کے سمجھانے پر سب بھائیوں نے اس رائے پر اتفاق کر لیا کہ یوسف کو لے جائیں اور کسی غیر آباد کنویں میں ڈال آئیں۔ یہ طے کرنے کے بعد باپ کو دھوکہ دینے اور بھائی کو پھسلا کر لے جانے اور اس پر آفت ڈھانے کے لیے سب مل کر باپ کے پاس آئے۔ باوجودیکہ تھے یہ بد اندیش بد خواہ برا چاہنے والے لیکن باپ کو اپنی باتوں میں پھنسانے کے لیے اور اپنی گہری سازش میں انہیں الجھانے کے لیے پہلے ہی جال بچھاتے ہیں کہ ابا جی آخر کیا بات ہے جو آپ ہمیں یوسف کے بارے میں امین نہیں جانتے؟ ہم تو اس کے بھائی ہیں اس کی خیر خواہیاں ہم سے زیادہ کون کر سکتا ہے۔؟ «يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ» کی دوسری قرآت «ترتع و نلعب» بھی ہے۔ باپ سے کہتے ہیں کہ بھائی یوسف کو کل ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے۔ ان کا جی خوش ہو گا، دو گھڑی کھیل کود لیں گے، ہنس بول لیں گے، آزادی سے چل پھر لیں گے۔ آپ بے فکر رہیے ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے۔ ہر وقت دیکھ بھال رکھیں گے۔ آپ ہم پر اعتماد کیجئے ہم اس کے نگہبان ہیں۔