قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ لَا تَقۡتُلُوۡا یُوۡسُفَ وَ اَلۡقُوۡہُ فِیۡ غَیٰبَتِ الۡجُبِّ یَلۡتَقِطۡہُ بَعۡضُ السَّیَّارَۃِ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا یوسف کو قتل نہ کرو اور اسے کسی اندھے کنویں کی گہرائی میں پھینک دو، کوئی راہ چلتا قافلہ اسے اٹھا لے گا ، اگر تم کرنے ہی والے ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو کسی گہرے کنویں میں ڈال دو کہ کوئی راہگیر نکال (کر اور ملک میں) لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہے (تو یوں کرو)
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان میں سے ایک نے کہا یوسف کو قتل تو نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں (کی تہ) میں ڈال آؤ کہ اسے کوئی (آتا جاتا) قافلہ اٹھا لے جائے اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یوں کرو
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 10){قَالَ قَآىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوْا يُوْسُفَ …:” غَيٰبَتِ “} کا معنی لغت میں ہے: {”غَيَابَةُ كُلِّ شَيْءٍ مَا سَتَرَكَ مِنْهُ “ } یعنی ہر چیز کی غیابت وہ ہے جو تمھیں اس سے پردے میں کر لے، یعنی اسے تم سے چھپا لے۔ اس لیے قبر کو بھی {”غَيَابَةٌ“} کہتے ہیں۔ {” الْجُبِّ “ } کا معنی کنواں، بہت پانی اور گہرائی والا کنواں یا مٹی کا کھودا ہوا کنواں جس میں پتھروں اور اینٹوں کی دیوار نہ بنائی گئی ہو، {”السَّيَّارَةِ “} قافلہ۔ (قاموس) ان بھائیوں میں سے ایک نے جو فطرتاً دوسروں سے بہتر اور رحم دل تھا، جب انھیں حد سے گزرتے دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ یہ کسی طرح ٹلنے والے نہیں، انھیں ایسا مشورہ دیا جسے وہ بھی قبول کر سکیں اور اسے یوسف کا طرف دار بھی قرار نہ دیں۔ وہ یہ تھا کہ یوسف کو قتل نہ کرو، قتل تو بہت ہی بڑا جرم ہے۔ (مفسرین فرماتے ہیں کہ یوسف کا نام اس نے ان کے دل میں نرمی، شفقت اور رحم ابھارنے کے لیے لیا، تاکہ وہ کچھ سوچیں کہ ہم کسے قتل کرنے جا رہے ہیں، یوسف کو؟ جو ہمارا بھائی ہے) اگر ضرور ہی کچھ کرنا ہے تو اسے کسی اندھے کنویں کی گہرائی میں پھینک دو۔ اس سے تمھارا مقصد بھی پورا ہو جائے گا کہ کوئی قافلہ اسے اٹھا کر لے جائے گا، تم اپنے مقصد یعنی والد کی نگاہوں سے دورکرنے میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے اور ایک معصوم جان کے قتل سے بھی بچ جاؤ گے۔ {” قَالَ قَآىِٕلٌ مِّنْهُمْ “} مطلب یہ کہ اگر قتل کا مشورہ دینے والے بھائی تھے تو یہ بھی ایک بھائی ہی تھا۔ یہ بات کس بھائی نے کہی تھی، قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہیں، کیونکہ ہدایت کے مقصد کے لیے اس کی ضرورت نہ تھی اور پہلی کتابوں کے سچ یا جھوٹ کا کچھ پتا نہیں کہ ان پر بھروسا کر کے کوئی نام بتایا جائے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
10۔ 1 جب کنویں کو اور غَیَابَۃ اس کی تہ اور گہرائی کو کہتے ہیں، کنواں ویسے بھی گہرا ہی ہوتا ہے اور اس میں گری ہوئی چیز کسی کو نظر نہیں آتی۔ جب اس کے ساتھ کنویں کی گہرائی کا بھی ذکر کیا تو گویا مبالغے کا اظہار کیا۔ 10۔ 2 یعنی آنے جانے والے نو وارد مسافر، جب پانی کی تلاش میں کنوئیں پر آئیں گے تو ممکن ہے کسی کے علم میں آجائے کہ کنوئیں میں کوئی انسان گرا ہوا ہے اور وہ اسے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں۔ یہ تجویز ایک بھائی نے ازراہ شفقت پیش کی تھی۔ قتل کے مقابلے میں یہ تجویز واقعتا ہمدردی کے جذبات ہی کی حامل ہے۔ بھائیوں کی آتش حسد اتنی بھڑکی ہوئی تھی کہ یہ تجویز بھی اس نے ڈرتے ڈرتے ہی پیش کی کہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کام اس طرح کرلو۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
10۔ ان میں سے ایک نے کہا: یوسف کو مارو نہیں بلکہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی گمنام سے کنوئیں میں پھینک دو کوئی آتا جاتا قافلہ اسے اٹھا لے [9] جائے گا [9] پھر ان میں کسی بھائی نے (غالباً سب سے بڑے بھائی یہودا نے) شاید یوسفؑ کی جان پر ترس کھا کر یہ رائے دی کہ اسے جان سے ختم نہ کرو کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اسے کسی دور دراز مقام پر چھوڑ کر آنا بھی سہل کام نہیں۔ لہٰذا بہتر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے دور کسی کنویں میں پھینک دو جو تجارتی قافلوں کے راستہ پر واقع ہو۔ کوئی قافلہ آئے گا تو اسے دیکھ کر اٹھا لے جائے گا۔ اس طرح خود ہی یوسف دور دراز مقام پر پہنچ جائے گا۔ ہم وہاں جانے آنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔