الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۟﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
الر۔ یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
الٓرا۔ یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
الرٰ، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
یہ سورت مکی ہے، مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں پر جس طرح اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، آپ اس سے نہایت غم زدہ رہتے تھے۔ بعض اوقات اللہ کے حکم سے انھیں یہ بھی فرماتے کہ تم اگر میری بات نہیں مانتے تو تمھاری مرضی مگر اس قرابت کا تو خیال رکھو جو میرے اور تمھارے درمیان ہے، فرمایا: «{ قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى}» [الشوریٰ: ۲۳] ”کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر وہ محبت جو قرابت کی وجہ سے ہوتی ہے اس کا تو خیال رکھو۔“ ایسے ہی کسی موقع پر سورۂ یوسف نازل ہوئی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا بے حد سامان موجود ہے کہ دشمن خواہ جس حد تک چلا جائے، اپنے بھائی اور عزیز حسد میں انصاف اور انسانیت کی تمام حدیں پار کر جائیں، پھر بھی ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، اس لیے آپ بے فکر رہیں۔ اس سورت میں کمال درجے کا غم، پھر اسی درجے یا اس سے بڑھ کر خوشی، انتہائی درجے کی بے بسی اور پھر کمال درجے کا اقتدار۔ نابینا کر دینے والی جدائی اور آنکھیں روشن کر دینے والی ملاقات کی خوش خبری، انتہائی درجے کی ہوس اور دعوتِ گناہ اور اس کے مقابلے میں حد درجے کی پاک دامنی، بے انتہا ظلم اور کمال درجے کی معافی، غرض عجیب و غریب واقعات اور مضامین ہیں جو غمگین بھی کرتے ہیں اور خوش بھی۔ اہل ِعلم فرماتے ہیں اور تجربے سے بھی ثابت ہے کہ اس سورت کو اس کے معانی کا خیال کرکے پڑھنے والا غمگین اور ناامید شخص بھی خوش ہو جاتا ہے اور اللہ کی رحمت کی امید کا چراغ اس کے دل میں روشن ہو جاتا ہے۔ امیر المومنین عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنھما اکثر صبح کی نماز میں سورۂ یوسف کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ عبد اللہ بن شداد کہتے ہیں، میں نے عمر رضی اللہ عنہ کی ہچکیوں کے ساتھ رونے کی آواز سنی جب کہ میں صفوں کے آخر میں تھا، وہ یہ آیت پڑھ رہے تھے: «{ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَ حُزْنِيْۤ اِلَى اللّٰهِ }» [یوسف: ۸۶] ”(یعقوب علیہ السلام نے کہا) میں تو اپنی ظاہر ہونے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں۔“ [بخاری، قبل الحدیث:۷۱۶]
اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دل کی تسلی کا بہت سا سامان موجود ہے کہ جس طرح کنویں میں پھینکنے والے بھائی یوسف علیہ السلام کے تقویٰ اور صبر کے نتیجے میں اللہ غالب کے نظر نہ آنے والے اسباب کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن ان کے سامنے جھک کر معافی کے خواستگار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اعزہ و اقارب بھی اسی طرح ایک دن آپ کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہوں گے اور صاف لفظوں میں آپ کی برتری تسلیم کریں گے، فرمایا: «{ قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـِٕيْنَ }» [یوسف: ۹۱] ”انھوں نے (یوسف علیہ السلام سے) کہا، اللہ کی قسم! بلاشبہ یقینا اللہ نے تجھے ہم پر فوقیت بخشی ہے اور بلاشبہ ہم واقعی خطا کار تھے۔“
(آیت 1){الٓرٰتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ:” الٓرٰ “} کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔ {” الْمُبِيْنِ “ ” أَبَانَ يُبِيْنُ“} باب افعال سے اسم فاعل ہے، لازم بھی آتا ہے، جیسے: «{ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ }» [البقرۃ: ۱۶۸] ”بے شک وہ تمھارا کھلا (واضح) دشمن ہے۔“ متعدی بھی، یعنی بیان کرنے والا، واضح کرنے والا۔ {” الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ “} یعنی جس کا انداز بیان واضح اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والا ہے، یا جس کا اللہ کا کلام ہونا بالکل عیاں اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔
اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دل کی تسلی کا بہت سا سامان موجود ہے کہ جس طرح کنویں میں پھینکنے والے بھائی یوسف علیہ السلام کے تقویٰ اور صبر کے نتیجے میں اللہ غالب کے نظر نہ آنے والے اسباب کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن ان کے سامنے جھک کر معافی کے خواستگار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ اعزہ و اقارب بھی اسی طرح ایک دن آپ کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہوں گے اور صاف لفظوں میں آپ کی برتری تسلیم کریں گے، فرمایا: «{ قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـِٕيْنَ }» [یوسف: ۹۱] ”انھوں نے (یوسف علیہ السلام سے) کہا، اللہ کی قسم! بلاشبہ یقینا اللہ نے تجھے ہم پر فوقیت بخشی ہے اور بلاشبہ ہم واقعی خطا کار تھے۔“
(آیت 1){الٓرٰتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ:” الٓرٰ “} کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔ {” الْمُبِيْنِ “ ” أَبَانَ يُبِيْنُ“} باب افعال سے اسم فاعل ہے، لازم بھی آتا ہے، جیسے: «{ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ }» [البقرۃ: ۱۶۸] ”بے شک وہ تمھارا کھلا (واضح) دشمن ہے۔“ متعدی بھی، یعنی بیان کرنے والا، واضح کرنے والا۔ {” الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ “} یعنی جس کا انداز بیان واضح اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والا ہے، یا جس کا اللہ کا کلام ہونا بالکل عیاں اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
1۔ ا۔ ل۔ ر یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو ہر بات وضاحت سے بیان کرتی ہے
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
تعارف قرآن بزبان اللہ الرحمن ٭٭
سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں حروف مقطعات کی بحث گزر چکی ہے۔ اس کتاب یعنی قرآن شریف کی یہ آیتیں بہت واضح کھلی ہوئی اور خوب صاف ہیں۔ مبہم چیزوں کی حقیقت کھول دیتی ہیں یہاں پر تلک معنی میں ھذہ کے ہے۔ چونکہ عربی زبان نہایت کامل اور مقصد کو پوری طرح واضح کر دینے والی اور وسعت و کثرت والی ہے، اسلیئے یہ پاکیزہ تر کتاب اس بہترین زبان میں افضل تر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، رسول کے سردار فرشتے کی سفارت میں، تمام روئے زمین کے بہتر مقام میں، وقتوں میں بہترین وقت میں نازل ہو کر ہر ایک طرح کے کمال کو پہنچی تاکہ تم ہر طرح سوچ سمجھ سکو اور اسے جان لو ہم بہترین قصہ بیان فرماتے ہیں۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی واقعہ بیان فرماتے؟ اس پر یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:18786:ضعیف و منقطع] اور روایت میں ہے کہ ایک زمانے تک قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے تلاوت فرماتے رہے پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کوئی واقعہ بھی بیان ہو جاتا تو؟ اس پر یہ آیتیں اتریں پھر کچھ وقت کے بعد کہا کاش کہ آپ کوئی بات بیان فرماتے اس پر یہ آیت «اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ» [39-الزمر: 23] اتری۔ اور بات بیان ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:150/12:حسن] روش کلام کا ایک ہی انداز دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ بات سے اوپر کی اور قرآن سے نیچے کی کوئی چیز ہوتی یعنی واقعہ، اس پر یہ آیتیں اتریں، پھر انہوں نے حدیث کی خواہش کی اس پر «اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ» اتری۔ پس قصے کے ارادے پر بہترین قصہ اور بات کے ارادے پر بہترین بات نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:18788:مرسل] اس جگہ جہاں کہ قرآن کریم کی تعریف ہو رہی ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی واقعہ بیان فرماتے؟ اس پر یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:18786:ضعیف و منقطع] اور روایت میں ہے کہ ایک زمانے تک قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے تلاوت فرماتے رہے پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم کوئی واقعہ بھی بیان ہو جاتا تو؟ اس پر یہ آیتیں اتریں پھر کچھ وقت کے بعد کہا کاش کہ آپ کوئی بات بیان فرماتے اس پر یہ آیت «اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ» [39-الزمر: 23] اتری۔ اور بات بیان ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:150/12:حسن] روش کلام کا ایک ہی انداز دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ بات سے اوپر کی اور قرآن سے نیچے کی کوئی چیز ہوتی یعنی واقعہ، اس پر یہ آیتیں اتریں، پھر انہوں نے حدیث کی خواہش کی اس پر «اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ» اتری۔ پس قصے کے ارادے پر بہترین قصہ اور بات کے ارادے پر بہترین بات نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:18788:مرسل] اس جگہ جہاں کہ قرآن کریم کی تعریف ہو رہی ہے۔
اور یہ بیان ہے کہ یہ قرآن اور سب کتابوں سے بے نیاز کر دینے والا ہے۔ مناسب ہے کہ ہم مسند احمد کی اس حدیث کو بھی بیان کر دیں جس میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب کو کسی اہل کتاب سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی تھی اسے لے کر آپ حاضر خدمت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور آپ کے سامنے سنانے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غضب ناک ہو گئے اور فرمانے لگے اے خطاب کے لڑکے کیا تم اس میں مشغول ہو کر بہک جانا چاہتے ہو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کو نہایت روشن اور واضح طور پر لے کر آیا ہوں۔ تم ان اہل کتاب سے کوئی بات نہ پوچھو ممکن ہے کہ وہ صحیح جواب دیں اور تم سے جھٹلا دو۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہ غلط جواب دیں اور تم اسے سچا سمجھ لو۔ سنو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آج خود موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی سوائے میری تابعداری کے کوئی چارہ نہ تھا۔ [مسند احمد:338/3:ضعیف] ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بنو قریِضہ قبیلہ کے میرے ایک دوست نے تورات میں سے چند جامع باتیں مجھے لکھ دی ہیں۔ تو کیا میں انہیں آپ کو سناؤ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ سیدنا عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ کیا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے؟ اب عمر رضی اللہ عنہما کی نگاہ پڑی تو آپ رضی اللہ عنہما کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر دل سے رضامند ہیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ سے غصہ دور ہوا اور فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ اگر تم میں خود موسیٰ علیہ السلام ہوتے پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع میں لگ جاتے تو تم سب گمراہ ہو جاتے امتوں میں سے میرا حصہ تم ہو اور نبیوں میں سے تمہارا حصہ میں ہوں۔ [مسند احمد:266/4:ضعیف]
ابو یعلیٰ میں ہے کہ سوس کا رہنے والا قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ رضی اللہ عنہما نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام فلاں فلاں ہے؟ اس نے کہا ہاں پوچھا تو سوس میں مقیم ہے؟ اس نے کہا ہاں تو آپ کے ہاتھ میں جو خوشہ تھا اسے مارا۔ اس نے کہا امیر المؤمنین میرا کیا قصور ہے؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بیٹھ جا۔ میں بتاتا ہوں پھر «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر اسی سورت کی «الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ» [12-یوسف: 1-3] تک پڑھیں تین مرتبہ ان آیتوں کی تلاوت کی اور تین مرتبہ اسے مارا۔ اس نے پھر پوچھا کہ امیر المؤمنین میرا قصور کیا ہے آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا تو نے دانیال کی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس نے کہا پھر جو آپ فرمائیں۔ میں کرنے کو تیار ہوں، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا جا اور گرم پانی اور سفید روئی سے اسے بالکل مٹا دے۔ خبردار آج کے بعد سے اسے خود پڑھنا نہ کسی اور کو پڑھانا۔ اب اگر میں اس کے خلاف سنا کہ تو نے خود اسے پڑھا یا کسی کو پڑھایا تو ایسی سخت سزا کروں گا کہ عبرت بنے۔
پھر فرمایا بیٹھ جا، ایک بات سنتا جا۔ میں نے جا کر اہل کتاب کی ایک کتاب لکھی پھر اسے چمڑے میں لیے ہوئے حضور علیہ السلام کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟ میں نے کہا ایک کتاب ہے کہ ہم علم میں بڑھ جائیں۔ اس پر آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کی وجہ سے آپ کے رخسار پر سرخی نمودار ہو گئی پھر منادی کی گئی کہ نماز جمع کرنے والی ہے۔ اسی وقت انصار نے ہتھیار نکال لیے کہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کر دیا ہے اور منبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف وہ لوگ ہتھیار بند بیٹھ گئے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے لیے بہت ہی اختصار کیا گیا ہے میں اللہ کے دین کی باتیں بہت سفید اور نمایاں لایا ہوں۔ خبردار تم بہک نہ جانا۔
پھر فرمایا بیٹھ جا، ایک بات سنتا جا۔ میں نے جا کر اہل کتاب کی ایک کتاب لکھی پھر اسے چمڑے میں لیے ہوئے حضور علیہ السلام کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟ میں نے کہا ایک کتاب ہے کہ ہم علم میں بڑھ جائیں۔ اس پر آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کی وجہ سے آپ کے رخسار پر سرخی نمودار ہو گئی پھر منادی کی گئی کہ نماز جمع کرنے والی ہے۔ اسی وقت انصار نے ہتھیار نکال لیے کہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کر دیا ہے اور منبرنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف وہ لوگ ہتھیار بند بیٹھ گئے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے لیے بہت ہی اختصار کیا گیا ہے میں اللہ کے دین کی باتیں بہت سفید اور نمایاں لایا ہوں۔ خبردار تم بہک نہ جانا۔
گہرائی میں اترنے والے کہیں تمہیں بہکا نہ دیں۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میں تو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر دل سے راضی ہوں۔ اب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے۔[الضیاء المقدسی فی المختارۃ:24/1:ضعیف] اس کے ایک روای عبدالرحمٰن بن اسحاق کو محدثین ضعیف کہتے ہیں۔ امام بخاری ان کی حدیث کو صحیح نہیں لکھتے۔ میں کہتا ہوں اس کا ایک شاہد اور سند حافظ ابوبکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی لائے ہیں کہ خلافت فاروقی کے زمانے میں آپ نے محصن کے چند آدمی بلائے ان میں دو شخص وہ تھے جنہوں نے یہودیوں سے چند باتیں منتخب کر کے لکھ لی تھیں۔ وہ اس مجموعے کو بھی اپنے ساتھ لائے تاکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کر لیں اگر آپ نے اجازت دی تو ہم اس میں اسی جیسی اور باتیں بھی بڑھا لیں گے ورنہ اسے بھی پھینک دیں گے۔ یہاں آ کر انہوں نے کہا کہ امیر المؤمنین یہودیوں سے ہم بعض ایسی باتیں سنتے ہیں کہ جن سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو کیا وہ باتیں ان سے لے لیں یا بالکل ہی نہ لیں؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا شاید تم نے ان کی کچھ باتیں لکھ رکھیں ہیں؟ سنو میں اس میں فیصلہ کن واقعہ سناؤ۔
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خیبر گیا۔ وہاں کے ایک یہودی کی باتیں مجھے بہت پسند آئیں۔
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خیبر گیا۔ وہاں کے ایک یہودی کی باتیں مجھے بہت پسند آئیں۔
میں نے اس سے درخواست کی اور اس نے وہ باتیں مجھے لکھ دیں۔ میں نے واپس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ وہ لے کر آؤ میں خوشی خوشی چلا گیا شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا یہ کام پسند آ گیا۔ لا کر میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا۔ اب جو ذرا سی دیر کے بعد میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو سخت ناراض ہیں۔ میری زبان سے تو ایک حرف بھی نہ نکلا اور مارے خوف کے میر رُوّاں رُوّاں کھڑا ہو گیا۔ میری یہ حالت دیکھ کر اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تحریروں کو اٹھا لیا اور ان کا ایک ایک حرف مٹانا شروع کیا اور زبان مبارک سے ارشاد فرماتے جاتے تھے کہ دیکھو خبردار ان کی نہ ماننا۔ یہ تو گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے ہیں اور یہ تو دوسروں کو بھی بہکا رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس ساری تحریر کا ایک حرف بھی باقی نہ رکھا۔ یہ سنا کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے بھی ان کی باتیں لکھی ہوئی ہوتیں تو میں تمہیں ایسی سزا کرتا جو اوروں کے لیے عبرت ہو جائے۔ انہوں نے کہا واللہ ہم ہرگز ایک حرف بھی نہ لکھیں گے۔ باہر آتے ہی جنگل میں جا کر انہوں نے اپنی وہ تختیاں گڑھا کھود کر دفن کر دیں۔ [مراسیل ابی داؤد:455:ضعیف] مراسیل ابی داؤد میں بھی عمر رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی روایت ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔