اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اللہ ہی بے نیاز ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
معبود برحق جو بےنیاز ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2) ➊ { اَللّٰهُ الصَّمَدُ: ” الصَّمَدُ “} کی تفسیر میں سلف کے کئی اقوال ہیں، ان کا خلاصہ تین اقوال میں آجاتا ہے: (1) {” الصَّمَدُ “} وہ سردار ہے جس کی طرف لوگ قصد کرکے جائیں، جس سے بڑا کوئی سردار نہ ہو۔ یہ {”صَمَدَ“} (ف، ن) (قصد کرنا) سے مشتق ہے۔ گویا {” الصَّمَدُ “} بمعنی {”مَصْمُوْدٌ “} ہے۔ اکثر سلف نے یہی معنی کیا ہے۔ (2) جو کھاتا پیتا نہ ہو۔ (3) جس کا پیٹ نہ ہو، جو کھوکھلا نہ ہو، جس سے کچھ نکلتا نہ ہو۔ اللہ پر یہ تینوں معانی صادق آتے ہیں۔
➋ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب خبر پر الف لام آجائے تو کلام میں حصر پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر {”اَللّٰهُ صَمَدٌ“} ہوتا تو معنی یہ تھا کہ اللہ صمد ہے۔ اب {” اَللّٰهُ الصَّمَدُ “} فرمایا، تو معنی یہ ہے کہ اللہ ہی ”صمد“ ہے، کوئی اور صمد نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں {” اَللّٰهُ الصَّمَدُ “} فرمایا جس کا معنی ہے اللہ ایک ہے۔ وہاں {”اَللّٰهُ الْأَحَدُ“} نہیں فرمایا کہ اللہ ہی ایک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ وہ ہستی جو ایک ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے، کسی اور کو اَحد کہہ ہی نہیں سکتے۔ ہر ایک کا ثانی کسی نہ کسی طرح موجود ہے، کسی اور چیز میں اس کا ثانی نہ ہو تو مخلوق ہونے میں اس کے بے شمار ثانی موجود ہیں، اس لیے اس کائنات میں ایک ہستی صرف اللہ کی ہے، اس لیے وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں، جبکہ صمد ہونے کے دعوے دار بے شمار ہیں، جن کے پاس لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے جاتے ہیں۔ اس لیے فرمایا اصل صمد صرف وہ ہے، کیونکہ دوسرے لوگ کتنے بھی بڑے سردار ہوں، لوگ ان کے پاس اپنی حاجتوں کے لیے جاتے ہوں، مگر وہ خود کسی نہ کسی کے محتاج ہیں۔ یہ صرف اللہ کی ہستی ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں، باقی سب اس کے محتاج ہیں، وہ سب کو کھلاتا ہے، خود کھانے کا محتاج نہیں، جیساکہ فرمایا: «وَ هُوَ يُطْعِمُ وَ لَا يُطْعَمُ» [الأنعام: ۱۴] ”حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔“ پھر نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ {” الصَّمَدُ “} کے اس مفہوم کو ” بے نیاز“ کا لفظ کافی حد تک ادا کرتا ہے۔
➋ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب خبر پر الف لام آجائے تو کلام میں حصر پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر {”اَللّٰهُ صَمَدٌ“} ہوتا تو معنی یہ تھا کہ اللہ صمد ہے۔ اب {” اَللّٰهُ الصَّمَدُ “} فرمایا، تو معنی یہ ہے کہ اللہ ہی ”صمد“ ہے، کوئی اور صمد نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں {” اَللّٰهُ الصَّمَدُ “} فرمایا جس کا معنی ہے اللہ ایک ہے۔ وہاں {”اَللّٰهُ الْأَحَدُ“} نہیں فرمایا کہ اللہ ہی ایک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ وہ ہستی جو ایک ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے، کسی اور کو اَحد کہہ ہی نہیں سکتے۔ ہر ایک کا ثانی کسی نہ کسی طرح موجود ہے، کسی اور چیز میں اس کا ثانی نہ ہو تو مخلوق ہونے میں اس کے بے شمار ثانی موجود ہیں، اس لیے اس کائنات میں ایک ہستی صرف اللہ کی ہے، اس لیے وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں، جبکہ صمد ہونے کے دعوے دار بے شمار ہیں، جن کے پاس لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے جاتے ہیں۔ اس لیے فرمایا اصل صمد صرف وہ ہے، کیونکہ دوسرے لوگ کتنے بھی بڑے سردار ہوں، لوگ ان کے پاس اپنی حاجتوں کے لیے جاتے ہوں، مگر وہ خود کسی نہ کسی کے محتاج ہیں۔ یہ صرف اللہ کی ہستی ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں، باقی سب اس کے محتاج ہیں، وہ سب کو کھلاتا ہے، خود کھانے کا محتاج نہیں، جیساکہ فرمایا: «وَ هُوَ يُطْعِمُ وَ لَا يُطْعَمُ» [الأنعام: ۱۴] ”حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔“ پھر نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ {” الصَّمَدُ “} کے اس مفہوم کو ” بے نیاز“ کا لفظ کافی حد تک ادا کرتا ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
2۔ 1 یعنی سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک ٭٭
اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم عزیز (علیہ السلام) کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم مسیح (علیہ السلام) کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی! تم کہہ دو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں، جس کا کوئی وزیر نہیں، جس کا کوئی شریک نہیں، جس کا کوئی ہمسر نہیں، جس کا کوئی ہم جنس نہیں، جس کا برابر اور کوئی نہیں، جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے۔ وہ «صمد» ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بے نیاز ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صمد» وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب پر غالب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے، «صمد» کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا، سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ «صمد» کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گزرا،
اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ «صمد» کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ «صمد» میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو ۱؎، [طبرانی:1162:ضعیف] لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صمد» وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب پر غالب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے، «صمد» کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا، سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ «صمد» کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گزرا،
اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ «صمد» کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ «صمد» میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو ۱؎، [طبرانی:1162:ضعیف] لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔
حافظ ابوالقاسم طبرانی رحمہ اللہ اپنی کتاب «السنہ» میں لفظ «صمد» کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ دراصل یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردار اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے، نہ وہ کھوکھلا ہے، نہ وہ کھائے، نہ پئے، سب فانی ہیں اور وہ باقی ہے۔ وغیرہ
پھر فرمایا: اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔ جیسے اور جگہ ہے: «بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ» ۱؎ [6-الأنعام:101] الخ یعنی ’وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے‘، یعنی وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے، پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے۔
جیسے اور جگہ فرمایا: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا» * «لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا» * «تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا» * «أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا» * «وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا» * «إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا» * «لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا» * «وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا» ۲؎ [19-مريم:88-95] یعنی ’یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں‘۔
اور جگہ ہے: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ» * «لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ» ۳؎ [21-الأنبياء:26] یعنی ’ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں‘۔
اور جگہ ہے: «وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ» * «سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ» ۴؎ [37-الصافات:158-159] یعنی ’انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے‘۔
پھر فرمایا: اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔ جیسے اور جگہ ہے: «بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ» ۱؎ [6-الأنعام:101] الخ یعنی ’وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے‘، یعنی وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے، پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے۔
جیسے اور جگہ فرمایا: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا» * «لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا» * «تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا» * «أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا» * «وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا» * «إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا» * «لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا» * «وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا» ۲؎ [19-مريم:88-95] یعنی ’یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں‘۔
اور جگہ ہے: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ» * «لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ» ۳؎ [21-الأنبياء:26] یعنی ’ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں‘۔
اور جگہ ہے: «وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ» * «سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ» ۴؎ [37-الصافات:158-159] یعنی ’انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے‘۔
صحیح بخاری میں ہے کہ {ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے} ۱؎۔ [صحیح بخاری:7378]
بخاری کی اور روایت میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہیئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور} ۲؎ [صحیح بخاری:4974]
«الحمداللہ» سورۃ الاخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی۔
بخاری کی اور روایت میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہیئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور} ۲؎ [صحیح بخاری:4974]
«الحمداللہ» سورۃ الاخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی۔