قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہہ دے وہ اللہ ایک ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
آپ کہہ دیجئے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”مشرکین نے کہا، اے محمد! ہمارے لیے اپنے رب کا نسب بیان کیجیے تو اللہ عزو جل نے {” قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ “} نازل فرمائی۔“ [مستدرک حاکم: 540/2، ح: ۳۹۸۷] اس سورت کے صحیح احادیث میں بہت سے فضائل آئے ہیں، اختصار کی وجہ سے چند حدیثیں درج کی جاتی ہیں: (1) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک آدمی کو (قیام اللیل میں) {” قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ “} بار بار پڑھتے ہوئے سنا (اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں پڑھ رہا تھا)۔ صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسے کم سمجھ رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ] [بخاري، فضائل القرآن، باب فضل: «قل ھو اللہ أحد» : ۵۰۱۳، ۵۰۱۴] ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ سورت قرآن کے ایک تہائی حصے کے برابر ہے۔“ (2) عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا، وہ نماز میں اپنی قراء ت کو {” قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ “} کے ساتھ ختم کرتا تھا۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [سَلُوْهُ لِأَيِّ شَيْءٍ يَصْنَعُ ذٰلِكَ؟] ”اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟“ لوگوں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: [لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمٰنِ وَ أَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا] ”اس لیے کہ یہ رحمان کی صفت ہے اور مجھے اس کے پڑھنے سے محبت ہے۔“ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَخْبِرُوْهُ أَنَّ اللّٰهَ يُحِبُّهُ] [بخاري، التوحید، باب ما جاء في دعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم أمتہ …: ۷۳۷۵] ”اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے۔“ سوتے وقت اور دوسرے اوقات میں معوذتین کے ساتھ ملا کر یہ سورت پڑھنے کی احادیث معوذتین کے شروع میں آئیں گی۔ (ان شاء اللہ)
تنبیہ: بعض روایات میں اس سورت کو روزانہ دوسو مرتبہ یا سو مرتبہ یا پچاس مرتبہ پڑھنے کی مختلف فضیلتیں آئی ہیں، مگر ان روایات کی سندیں صحیح نہیں ہیں۔ شوکانی نے فتح القدیر میں وہ روایات درج کرکے ان کا ضعف واضح کیا ہے۔ ابن کثیر نے بھی ان روایات پر کلام کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سورت کو تین سے زیادہ کسی عدد میں مسنون سمجھ کر پڑھنا درست نہیں۔ ہاں! اپنی سہولت کے لیے کوئی شخص کوئی عدد مقرر کر لے، اسے مسنون نہ سمجھے تو درست ہے۔
(آیت 1) ➊ { قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ:} اس کی ترکیب کئی طرح سے کی گئی ہے، زیادہ واضح دو ہیں: (1) {” هُوَ “} مبتدا ہے، لفظ {” اللّٰهُ “} پہلی خبر اور{” اَحَدٌ “} دوسری خبر۔ معنی یہ ہوگا: ”(ہمارے جس رب کا نسب پوچھ رہے ہو) وہ اللہ ہے (وہ) ایک ہے۔“ (2) {” هُوَ “} مبدل منہ اور لفظ {” اللّٰهُ “} بدل، دونوں مل کر مبتدا اور {” اَحَدٌ “} خبر ہے۔ معنی یہ ہو گا: ”وہ اللہ (جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو) ایک ہے۔“
➋ کائنات کے خالق اور پروردگار کے بے شمار ناموں میں سے لفظ {” اللّٰهُ “} بطور علم یعنی اصل نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، باقی نام اس کی کسی نہ کسی صفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس اصل {”اَلْإِلٰهُ“} ہے، {”إِلٰهٌ“} کا معنی معبود ہے۔ تو لفظ {” اللّٰهُ “ } کا معنی یہ ٹھہرا کہ وہ خاص ہستی جو عبادت کے لائق ہے، کیونکہ اس میں کمال کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔ {” هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ “} کا معنی یہ ہے کہ وہ رب جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو وہ کوئی نئی یا نامعلوم ہستی نہیں، بلکہ وہ اللہ ہے جسے تم بھی جانتے اور مانتے ہو، وہی جو معبود برحق ہے اور وہ اللہ ایک ہے۔
➌ { اللّٰهُ اَحَدٌ:} اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے تین معانی ہو سکتے ہیں اور تینوں یہاں درست ہیں، پہلا یہ کہ وہ ایک ذات ہے، دو یا تین یا زیادہ نہیں اور اس کی ذات میں تعدد نہیں، دوسرا یہ کہ وہ معبود برحق ہونے میں اکیلا ہے، اس کا کوئی ثانی یا شریک نہیں اور تیسرا یہ کہ وہ ایک ہے، اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی اور نہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔ اس ایک ہی آیت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی قسم کا شریک بنانے والوں کی تردید ہوگئی، خواہ وہ مجوس (آتش پرست) ہوں جو دو خالق مانتے ہیں، ایک خیر کا خالق (یزداں) اور دوسرا شر کا خالق (اہرمن)، خواہ تثلیث (تین خداؤں) کو ماننے والے ہوں، خواہ ہندو ہوں جو کروڑوں دیوتاؤں کو خدائی میں حصے دار مانتے ہیں اور خواہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہوں جو ہر چیز ہی کو اللہ مانتے ہیں، کیونکہ اگر ہر چیز ہی اللہ ہے یا ہر چیز میں اللہ ہے تو اللہ ایک تو نہ رہا، جبکہ اللہ تعالیٰ کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے، اس میں تعدد اور کثرت نہیں۔
اسی طرح ان لوگوں کے عقیدہ کی بھی تردید ہو گئی جو اللہ کے علاوہ کسی کو عالم الغیب یا اختیارات کا مالک سمجھ کر مدد کے لیے پکارتے ہیں اور انھیں خدائی اختیارات میں اللہ کا شریک بناتے ہیں۔
اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو اللہ کی ذات سے ٹکڑوں کے جدا ہونے کے قائل ہیں، کوئی کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ ان تمام صورتوں میں کوئی نہ کوئی ہستی اللہ کی شریک ٹھہرتی ہے اور وہ ایک نہیں رہتا۔ میں نے ایک صاحب کی تقریر سنی، وہ کہہ رہے تھے: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نور میں سے نور کس طرح جدا ہو سکتا ہے؟ میں آپ کو مثال سے سمجھاتا ہوں، دیکھیے! یہ ایک موم بتی جل رہی ہے، اس میں سے ایک اور موم بتی جلا لیں تو کیا پہلی کے نور میں کوئی کمی واقع ہو گی؟ ہر گز نہیں، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں اور اللہ کے نور میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔“ اس بے چارے نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مثالیں بیان کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے: «فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ» [النحل: ۷۴] ”پس تم اللہ کے لیے مثالیں مت بیان کرو، کیونکہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“ اور نہ یہ سمجھا کہ پہلی موم بتی میں کوئی کمی ہو یا نہ ہو، دو موم بتیاں تو بن گئیں، جب کہ اللہ ایک ہے اور نہ یہ سمجھا کہ اللہ کا نور نہ کسی سے نکلا ہے اور نہ اس سے کوئی نکلتا ہے۔ یہ عقیدہ تو بعینہ وہی عقیدہ ہے جو نصرانیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اختیار کیا۔
اسی طرح {” اللّٰهُ اَحَدٌ “} سے ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو کہتے ہیں کہ بندہ جب زیادہ عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں اتر آتا ہے، پھر وہ اللہ ہی بن جاتا ہے اور دلیل میں صحیح بخاری کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل ہوا ہے کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے…۔ ان لوگوں نے سورۂ اخلاص پر غور نہ کیا کہ اس صورت میں اللہ ایک تو نہ رہا،جبکہ اس کا سب سے پہلا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے اور نہ اس حدیث کے آخر پر غور کیا جس میں واضح الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا وہ بندہ اگر مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دوں گا۔ اگر ”من تو شدم تو من شدی“ کے مطابق اللہ اور بندہ ایک ہوگئے تو پھر مانگے گا کون اور دے گا کون؟ پناہ مانگنے والا کون ہوگا اور پناہ دینے والا کون؟
اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو کہتے ہیں کہ بندہ عبادت کرتے کرتے اللہ کے ساتھ اس طرح واصل ہو جاتا ہے کہ وہ وہی بن جاتا ہے، جس طرح لوہا گرم ہوتے ہوتے آگ بن جاتا ہے۔ اس غلطی کی بنیادی وجہ بھی اللہ کے لیے مخلوق کی مثالیں بیان کرنا ہے، جبکہ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ ان بے چاروں نے یہ نہ سوچا کہ آیت «اللّٰهُ اَحَدٌ» (اللہ ایک ہے) اس کی نفی کر رہی ہے، بندہ تو اللہ سے الگ ایک ذات ہے۔ مخلوق اور خالق دو ہیں ایک نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، دو ایک کیسے بن گئے؟ یہ تو وہی نصرانیوں والا عقیدہ ہے کہ باپ خدا، بیٹا خدا، روح القدس خدا، مگر تین نہیں بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو! دو یا تین ایک کیسے بن گئے؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے عقیدے ہیں اور ان کی جتنی بھی توجیہیں کی جاتی ہیں، یہ اکیلی سورت بلکہ اس کی ایک آیت ہی ان کی تردید کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن کا ثلث(ایک تہائی) قرار دیا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
تنبیہ: بعض روایات میں اس سورت کو روزانہ دوسو مرتبہ یا سو مرتبہ یا پچاس مرتبہ پڑھنے کی مختلف فضیلتیں آئی ہیں، مگر ان روایات کی سندیں صحیح نہیں ہیں۔ شوکانی نے فتح القدیر میں وہ روایات درج کرکے ان کا ضعف واضح کیا ہے۔ ابن کثیر نے بھی ان روایات پر کلام کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سورت کو تین سے زیادہ کسی عدد میں مسنون سمجھ کر پڑھنا درست نہیں۔ ہاں! اپنی سہولت کے لیے کوئی شخص کوئی عدد مقرر کر لے، اسے مسنون نہ سمجھے تو درست ہے۔
(آیت 1) ➊ { قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ:} اس کی ترکیب کئی طرح سے کی گئی ہے، زیادہ واضح دو ہیں: (1) {” هُوَ “} مبتدا ہے، لفظ {” اللّٰهُ “} پہلی خبر اور{” اَحَدٌ “} دوسری خبر۔ معنی یہ ہوگا: ”(ہمارے جس رب کا نسب پوچھ رہے ہو) وہ اللہ ہے (وہ) ایک ہے۔“ (2) {” هُوَ “} مبدل منہ اور لفظ {” اللّٰهُ “} بدل، دونوں مل کر مبتدا اور {” اَحَدٌ “} خبر ہے۔ معنی یہ ہو گا: ”وہ اللہ (جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو) ایک ہے۔“
➋ کائنات کے خالق اور پروردگار کے بے شمار ناموں میں سے لفظ {” اللّٰهُ “} بطور علم یعنی اصل نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، باقی نام اس کی کسی نہ کسی صفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس اصل {”اَلْإِلٰهُ“} ہے، {”إِلٰهٌ“} کا معنی معبود ہے۔ تو لفظ {” اللّٰهُ “ } کا معنی یہ ٹھہرا کہ وہ خاص ہستی جو عبادت کے لائق ہے، کیونکہ اس میں کمال کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔ {” هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ “} کا معنی یہ ہے کہ وہ رب جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو وہ کوئی نئی یا نامعلوم ہستی نہیں، بلکہ وہ اللہ ہے جسے تم بھی جانتے اور مانتے ہو، وہی جو معبود برحق ہے اور وہ اللہ ایک ہے۔
➌ { اللّٰهُ اَحَدٌ:} اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے تین معانی ہو سکتے ہیں اور تینوں یہاں درست ہیں، پہلا یہ کہ وہ ایک ذات ہے، دو یا تین یا زیادہ نہیں اور اس کی ذات میں تعدد نہیں، دوسرا یہ کہ وہ معبود برحق ہونے میں اکیلا ہے، اس کا کوئی ثانی یا شریک نہیں اور تیسرا یہ کہ وہ ایک ہے، اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی اور نہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔ اس ایک ہی آیت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی قسم کا شریک بنانے والوں کی تردید ہوگئی، خواہ وہ مجوس (آتش پرست) ہوں جو دو خالق مانتے ہیں، ایک خیر کا خالق (یزداں) اور دوسرا شر کا خالق (اہرمن)، خواہ تثلیث (تین خداؤں) کو ماننے والے ہوں، خواہ ہندو ہوں جو کروڑوں دیوتاؤں کو خدائی میں حصے دار مانتے ہیں اور خواہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہوں جو ہر چیز ہی کو اللہ مانتے ہیں، کیونکہ اگر ہر چیز ہی اللہ ہے یا ہر چیز میں اللہ ہے تو اللہ ایک تو نہ رہا، جبکہ اللہ تعالیٰ کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے، اس میں تعدد اور کثرت نہیں۔
اسی طرح ان لوگوں کے عقیدہ کی بھی تردید ہو گئی جو اللہ کے علاوہ کسی کو عالم الغیب یا اختیارات کا مالک سمجھ کر مدد کے لیے پکارتے ہیں اور انھیں خدائی اختیارات میں اللہ کا شریک بناتے ہیں۔
اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو اللہ کی ذات سے ٹکڑوں کے جدا ہونے کے قائل ہیں، کوئی کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ ان تمام صورتوں میں کوئی نہ کوئی ہستی اللہ کی شریک ٹھہرتی ہے اور وہ ایک نہیں رہتا۔ میں نے ایک صاحب کی تقریر سنی، وہ کہہ رہے تھے: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نور میں سے نور کس طرح جدا ہو سکتا ہے؟ میں آپ کو مثال سے سمجھاتا ہوں، دیکھیے! یہ ایک موم بتی جل رہی ہے، اس میں سے ایک اور موم بتی جلا لیں تو کیا پہلی کے نور میں کوئی کمی واقع ہو گی؟ ہر گز نہیں، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں اور اللہ کے نور میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔“ اس بے چارے نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مثالیں بیان کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے: «فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ» [النحل: ۷۴] ”پس تم اللہ کے لیے مثالیں مت بیان کرو، کیونکہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“ اور نہ یہ سمجھا کہ پہلی موم بتی میں کوئی کمی ہو یا نہ ہو، دو موم بتیاں تو بن گئیں، جب کہ اللہ ایک ہے اور نہ یہ سمجھا کہ اللہ کا نور نہ کسی سے نکلا ہے اور نہ اس سے کوئی نکلتا ہے۔ یہ عقیدہ تو بعینہ وہی عقیدہ ہے جو نصرانیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اختیار کیا۔
اسی طرح {” اللّٰهُ اَحَدٌ “} سے ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو کہتے ہیں کہ بندہ جب زیادہ عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں اتر آتا ہے، پھر وہ اللہ ہی بن جاتا ہے اور دلیل میں صحیح بخاری کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل ہوا ہے کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے…۔ ان لوگوں نے سورۂ اخلاص پر غور نہ کیا کہ اس صورت میں اللہ ایک تو نہ رہا،جبکہ اس کا سب سے پہلا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے اور نہ اس حدیث کے آخر پر غور کیا جس میں واضح الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا وہ بندہ اگر مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دوں گا۔ اگر ”من تو شدم تو من شدی“ کے مطابق اللہ اور بندہ ایک ہوگئے تو پھر مانگے گا کون اور دے گا کون؟ پناہ مانگنے والا کون ہوگا اور پناہ دینے والا کون؟
اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو کہتے ہیں کہ بندہ عبادت کرتے کرتے اللہ کے ساتھ اس طرح واصل ہو جاتا ہے کہ وہ وہی بن جاتا ہے، جس طرح لوہا گرم ہوتے ہوتے آگ بن جاتا ہے۔ اس غلطی کی بنیادی وجہ بھی اللہ کے لیے مخلوق کی مثالیں بیان کرنا ہے، جبکہ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ ان بے چاروں نے یہ نہ سوچا کہ آیت «اللّٰهُ اَحَدٌ» (اللہ ایک ہے) اس کی نفی کر رہی ہے، بندہ تو اللہ سے الگ ایک ذات ہے۔ مخلوق اور خالق دو ہیں ایک نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، دو ایک کیسے بن گئے؟ یہ تو وہی نصرانیوں والا عقیدہ ہے کہ باپ خدا، بیٹا خدا، روح القدس خدا، مگر تین نہیں بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو! دو یا تین ایک کیسے بن گئے؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے عقیدے ہیں اور ان کی جتنی بھی توجیہیں کی جاتی ہیں، یہ اکیلی سورت بلکہ اس کی ایک آیت ہی ان کی تردید کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن کا ثلث(ایک تہائی) قرار دیا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اپنی حکمت و تدبر میں وحدہ لا شریک ٭٭
اس کے نازل ہونے کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے تھے ہم عزیز (علیہ السلام) کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور نصرانی کہتے تھے ہم مسیح (علیہ السلام) کو پوجتے ہیں جو اللہ کے بیٹے ہیں اور مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرک کہتے تھے ہم بت پرست ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری کہ اے نبی! تم کہہ دو کہ ہمارا معبود تو اللہ تعالیٰ ہے جو واحد اور احد ہے جس جیسا کوئی نہیں، جس کا کوئی وزیر نہیں، جس کا کوئی شریک نہیں، جس کا کوئی ہمسر نہیں، جس کا کوئی ہم جنس نہیں، جس کا برابر اور کوئی نہیں، جس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں۔ اس لفظ کا اطلاق صرف اسی کی ذات پاک پر ہوتا ہے وہ اپنی صفتوں میں اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتا اور بےنظیر ہوتا ہے۔ وہ «صمد» ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بے نیاز ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صمد» وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب پر غالب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے، «صمد» کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا، سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ «صمد» کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گزرا،
اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ «صمد» کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ «صمد» میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو ۱؎، [طبرانی:1162:ضعیف] لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «صمد» وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی بندگی اور عظمت میں، اپنے علم و علم میں، اپنی حکمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ صفتیں صرف اللہ تعالیٰ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ اس کا ہمسر اور اس جیسا کوئی اور نہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سب پر غالب ہے اور اپنی ذات و صفات میں یکتا اور بینظیر ہے، «صمد» کے یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ جو تمام مخلوق کے فنا ہو جانے کے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ کی بقا والا، سب کی حفاظت کرنے والا ہو جس کی ذات لازول اور غیر فانونی ہو۔
عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ ہے جو نہ کچھ کھائے نہ اس میں سے کچھ نکلے۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ «صمد» کی تفسیر اس کے بعد ہے یعنی نہ اس میں سے کچھ نکلے نہ وہ کسی میں سے نکلے یعنی نہ اس کی اولاد ہو نہ ماں باپ، یہ تفسیر بہت اچھی اور عمدہ ہے اور ابن جریر رحمہ اللہ کی روایت سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صراحتاً یہ مروی ہے جیسے کہ پہلے گزرا،
اور بہت سے صحابہ اور تابعین سے مروی ہے کہ «صمد» کہتے ہیں ٹھوس چیز کو جو کھوکھلی نہ ہو جس کا پیٹ نہ ہو۔ شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «صمد» وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمک دمک والا ہو، ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ «صمد» میں ہے جس کا پیٹ نہ ہو ۱؎، [طبرانی:1162:ضعیف] لیکن اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں، صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے۔
حافظ ابوالقاسم طبرانی رحمہ اللہ اپنی کتاب «السنہ» میں لفظ «صمد» کی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ کو وارد کر کے لکھتے ہیں کہ دراصل یہ سب سچے ہیں اور صحیح ہیں۔ کل صفتیں ہمارے رب عزوجل میں ہیں اس کی طرف سب محتاج بھی ہیں وہ سب سے بڑھ کر سردار اور سب سے بڑا ہے اسے نہ پیٹ ہے، نہ وہ کھوکھلا ہے، نہ وہ کھائے، نہ پئے، سب فانی ہیں اور وہ باقی ہے۔ وغیرہ
پھر فرمایا: اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔ جیسے اور جگہ ہے: «بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ» ۱؎ [6-الأنعام:101] الخ یعنی ’وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے‘، یعنی وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے، پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے۔
جیسے اور جگہ فرمایا: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا» * «لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا» * «تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا» * «أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا» * «وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا» * «إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا» * «لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا» * «وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا» ۲؎ [19-مريم:88-95] یعنی ’یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں‘۔
اور جگہ ہے: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ» * «لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ» ۳؎ [21-الأنبياء:26] یعنی ’ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں‘۔
اور جگہ ہے: «وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ» * «سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ» ۴؎ [37-الصافات:158-159] یعنی ’انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے‘۔
پھر فرمایا: اس کی اولاد نہیں نہ اس کے ماں باپ ہیں نہ بیوی۔ جیسے اور جگہ ہے: «بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ» ۱؎ [6-الأنعام:101] الخ یعنی ’وہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اسے اولاد کیسے ہو گی؟ اس کی بیوی نہیں ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا ہے‘، یعنی وہ ہر چیز کا خالق مالک ہے، پھر اس کی مخلوق اور ملکیت میں سے اس کی برابری اور ہمسری کرنے والا کون ہو گا؟ وہ ان تمام عیوب اور نقصان سے پاک ہے۔
جیسے اور جگہ فرمایا: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا» * «لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا» * «تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا» * «أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا» * «وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَـٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا» * «إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا» * «لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا» * «وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا» ۲؎ [19-مريم:88-95] یعنی ’یہ کفار کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے تم تو ایک بڑی بری چیز لائے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں، اس بنا پر کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ کو یہ لائق ہی نہیں کہ اس کی اولاد ہو تمام زمین و آسمان میں کے کل کے کل اللہ کے غلام ہی بن کر آنے والے ہیں اللہ کے پاس تمام کا شمار ہے اور انہیں ایک ایک کر کے گن رکھا ہے اور یہ سب کے سب تنہا تنہا اس کے پاس قیامت کے دن حاضر ہونے والے ہیں‘۔
اور جگہ ہے: «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ» * «لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ» ۳؎ [21-الأنبياء:26] یعنی ’ان کافروں نے کہا کہ رحمان کی اولاد ہے اللہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اللہ کے باعزت بندے ہیں بات میں بھی اس سے سبقت نہیں کرتے اسی کے فرمان پر عامل ہیں‘۔
اور جگہ ہے: «وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ» * «سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ» ۴؎ [37-الصافات:158-159] یعنی ’انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اور جنات کے درمیان نسب قائم کر رکھا ہے حالانکہ جنات تو خود اس کی فرمانبرداری میں حاضر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے بیان کردہ عیوب سے پاک و برتر ہے‘۔
صحیح بخاری میں ہے کہ {ایذاء دینے والی باتوں کو سنتے ہوئے صبر کرنے میں اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں اور پھر بھی وہ انہیں روزیاں دیتا ہے اور عافیت و تنگ دستی عطا فرماتا ہے} ۱؎۔ [صحیح بخاری:7378]
بخاری کی اور روایت میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہیئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور} ۲؎ [صحیح بخاری:4974]
«الحمداللہ» سورۃ الاخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی۔
بخاری کی اور روایت میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ اسے ایسا نہ چاہیئے مجھے گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ بھی لائق نہ تھا اس کا مجھے جھٹلاتا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اولاً اللہ نے مجھے پیدا کیا ایسے ہی پھر نہیں لوٹائے گا حالانکہ پہلی مرتبہ کی پیدائش دوسری مرتبہ کی پیدائش سے کچھ آسان تو نہ تھی جب میں اس پر قادر ہوں تو اس پر کیوں نہیں؟ اور اس کا مجھے گالیاں دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ کی اولاد ہے حالانکہ میں تنہا ہوں میں ایک ہی ہوں میں صمد ہوں نہ میری اولاد نہ میرے ماں باپ نے مجھ جیسا کوئی اور} ۲؎ [صحیح بخاری:4974]
«الحمداللہ» سورۃ الاخلاص کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے ختم ہوئی۔